میرے خیال میں کاغذ کا عروج بھی ستر‘ اسّی اور نوے کی دہائیوں نے ہی دیکھا ہے۔ اس کے بعد بہت سی وجوہات‘ خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے دنیا میں کاغذ کا استعمال محدود ہوتا گیا۔ یاد رہے کہ یہاں میں صرف کتابی کاغذ کی بات کر رہا ہوں جس سے کتابیں‘ میگزین‘ رسالے‘ کیلنڈر‘ ڈائریاں‘ کاپیاں اور نوٹ بکس وغیرہ بنا کرتی ہیں۔ پیکنگ پیپر‘ ٹائلٹ پیپر‘ ٹشو پیپر اور گتے کی مصنوعات کی بات یہاں نہیں ہو رہی۔ ان کا مستقبل ابھی محفوظ لگتا ہے۔ بظاہر لکھنے اور چھپنے والے کاغذ کی گھٹتی طلب کی جگہ کاغذ کی یہ قسمیں لیں گی۔ پیکنگ پیپر کا استعمال بھی اور بڑھے گا کیونکہ دنیا پلاسٹک سے تنگ آئی ہوئی ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے سے کتاب میں عام طور پر تین طرح کے کاغذ استعمال ہوتے تھے۔ آفسٹ پیپر‘ چکنا آرٹ پیپر یا میٹ پیپر اور نیوز پیپر۔ اخبارات اور رسائل وغیرہ کیلئے نیوز پیپر استعمال ہوتا تھا۔ نیوز پیپر اور آرٹ پیپر کی ملز تو پاکستان میں پہلے بھی نہیں تھیں اور اب بھی یہاں نہیں بنتا۔ آفسٹ کاغذ کی بھی جو اقسام یہاں بنتی رہی ہیں‘ ان کا مقابلہ غیرملکی کاغذ سے اب بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پچاس سال پہلے غیرملکی کاغذ پر یورپ‘ امریکہ اور جنوبی امریکہ وغیرہ چھائے ہوئے تھے۔ چین‘ جاپان‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ وغیرہ اس مقابلے میں کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ اگرچہ یہ مہنگا اور قیمتی کاغذ ہر ایک کے بس میں نہیں تھا لیکن اعلیٰ معیار کیلئے اس سے مفر نہیں تھا۔ صاحب! یورپ اور جنوبی امریکہ نے کیا کیا کمال کاغذ بنائے اس زمانے میں۔ مجھے یاد ہے کہ فن لینڈ کی یو پی ایم اور سٹورا اینسو ملز کی ایک زمانے میں دھوم تھی۔ لاہور میں کاغذ کی ایک بڑے درآمدی کمپنی کے گودام کسی جھگڑے کی وجہ سے عدالتی حکم پر مقفل تھے۔ جس دن یہ گودام کھلے اتفاق سے میں نے ان سے یہ کاغذ خرید لیا۔ یہ فن لینڈکی یو پی ایم کا آفسٹ کاغذ تھا۔ ایسا کمال کاغذ اس کے بعد کبھی دوبارہ نہیں مل سکا۔ دیکھنے کو بھی نہیں ملا۔
اسی طرح برازیل سے درآمدہ آفسٹ کاغذ وی آر جی کے نام سے بہت مقبول تھا۔ اعلیٰ آفسٹ کاغذ اور وی آری جی کا نام ایک دوسرے کا متبادل بن چکے تھے۔ آئر لینڈ کی سمر فٹ کیپا کی مصنوعات کبھی کبھی آیا کرتی تھیں۔ امریکی کاغذ لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں نہیں آتا تھا‘ اگرچہ بڑی پیپر ملز وہاں بھی موجود تھیں‘ جن میں اٹلانٹا کے ویسٹ روک اور ٹینیسی کے انٹرنیشنل پیپر جیسے بڑے گروپ بھی موجود تھے۔ جنوبی افریقہ کی ساپی‘ انگلینڈ کی مونڈی وغیرہ کو پاکستان سے زیادہ پیسے نہیں ملتے ہوں گے اسلئے یہاں انکا کاغذ نہیں آتا تھا۔ جن ممالک میں جنگلات کی بہتات تھی اور انہیں کاغذی گودے کیلئے اعلیٰ اور مخصوص درخت مل سکتے تھے‘ زیادہ ملز وہیں قائم تھیں۔ میں آج تک یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ پاکستان میں کریم اور آف وائٹ کاغذ کتابوں کیلئے کیوں مقبول نہیں ہو سکا جبکہ دنیا بھر میں کتابوں کیلئے یہی پسندیدہ ہے۔ اس پر چھپائی بھی عمدہ ہوتی ہے اور پڑھنے میں نگاہ کو سہولت بھی زیادہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سفید براق کاغذ جس میں نیلاہٹ کی ہلکی جھلک ہو‘ ہمیشہ سب سے زیادہ طلب میں ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی ذاتی پسند پر کیسے کتاب چھاپی جائے۔
بنگلہ دیش بننے سے پہلے مشرقی پاکستان میں کرنا فلی پیپرز مشہور تھی اور اس کا عمدہ کاغذ ادھر بھی آیا کرتا تھا۔ مغربی پاکستان میں پیپر ملز نہ ہونے کے برابر تھیں۔ 1971ء کے بعد یہاں کاغذ کی شدید قلت ہوئی۔ کچھ مدت کے بعد چارسدہ سرکاری پیپر ملز شروع ہوئی جسے یہ سہولت تھی کہ وہ شوگر ملز کے پہلو میں تھی چنانچہ گودے کیلئے گنے کا پھوک کرین سے اٹھایا جا سکتا تھا۔ کئی سال یہی مقامی کاغذ آتا رہا اور پھر سیاسی مسائل کی نذر ہو کر یہ مل بند ہو گئی۔ بعد میں کئی ایک پیپر ملز بنیں لیکن اعلیٰ کاغذ کیلئے انہیں پلپ یعنی گودا درآمد کرنا پڑتا ہے چنانچہ یہ کاغذ زیادہ سستا نہیں ہو سکا تاہم یہ غنیمت ہے کہ کاغذ‘ خواہ غیرملکی کاغذ کے معیار کا نہ ہو‘ میسر آجاتا ہے۔ نوے کی دہائی کے آخر میں جاپان اور خاص طور پر انڈونیشیا نے معیاری کاغذ بنانے شروع کیے۔ اور آہستہ آہستہ جاپان کی او جی آئی اور نیپون‘ انڈونیشیا کی اے پی پی (ایشیا پلپ اینڈ پیپر) نے قریبی ملکوں میں یورپی اور جنوبی امریکی ملز کی دکانیں بند کروا دیں۔ اس کامیابی میں لاگت کا بڑا دخل تھا۔ اس وقت انڈونیشیا کا آفسٹ اور جاپان کا آرٹ پیپر خاص طور پر درآمدی کاغذ میں چھایا ہوا ہے اور اس کے علاوہ کوئی کاغذ شاید ہی مل سکتا ہو۔
2025ء میں جب میں نے پڑھا کہ یو پی ایم‘ سٹورا اور انٹرنیشنل پیپرز جیسے بڑے گروپس نے اپنی کچھ ملوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ یہ ملیں اب دوسرے کاغذ بنایا کریں گی۔ دنیا جس لائٹ پیپر ورلڈ یا پیپر لیس ورلڈ کی طرف سفر کر رہی ہے‘ اس میں یہ ہونا ہی تھا۔ اس میں کاغذ کی گھٹتی مانگ کے ساتھ ملوں پر کڑی تنقید بھی شامل ہے جو گودے کیلئے جنگلات کاٹتی ہیں۔ حالانکہ ایک عام آدمی کے علم میں بھی نہیں ہوگا کہ ابتد ا میں تو ان ملوں نے قدرتی جنگلات سے گودا حاصل کیا لیکن اب بہت مدت سے ان ملوں نے اپنے اپنے جنگلات خود اگا لیے ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا کی اے پی پی 25لاکھ ایکڑز میں اپنے درخت اگاتی اور کاٹتی ہے۔ یو پی ایم ایک لاکھ 88ہزار ایکڑ‘ ساپی پانچ لاکھ ایکڑز‘ پیرا گوئے کی پارا سیل ایک لاکھ ایکڑز میں اپنے درخت اگاتی ہیں جن میں یوکلپٹس اور دیگر مخصوص اقسام کے پیڑ اگائے اور ایک منظم طریقے سے کاٹے جاتے ہیں۔ یہ ایک الگ سائنس ہے۔ یہ انتظام حکومتوں کی زیر نگرانی بھی ہے۔ لیکن ایک عام آدمی کے ذہن میں بدستور یہی خیال ہے کہ پیپر ملز نے دنیا میں درخت ختم کیے ہیں۔
مغربی ممالک عام کتابوں مثلاً ناول وغیرہ کیلئے ایک زمانے سے بک پیپرکا‘ جو دراصل نیوز کاغذ ہی کی ایک قسم ہے‘ استعمال شروع کر چکے ہیں۔ اسی طرح گتے کی جلد ختم کرکے کارڈ جلد رائج ہو چکی ہے۔ صرف علمی‘ سیاسی اور تحقیقی کتابوں میں آفسٹ کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ میں قریب قریب پچیس سال سے اپنی ناشر برادری سے کہتا رہا ہوں کہ ہمیں اس طرف آنا چاہیے۔ یہ اگرچہ اتنا معیاری نہیں لیکن کم وزن اور نسبتاً سستا ہونے کی وجہ سے بہت سی کتب کیلئے موزوں ہے۔ اگرچہ موٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ ضخامت کی کتاب اس پر اچھی نہیں لگتی۔ آہستہ آہستہ محدود پیمانے پر بک پیپر ہمارے یہاں بھی رائج ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں قاری کی پسند تبدیل ہوتے ہوتے بہت وقت لگتا ہے۔
اور شاید ان سب کیلئے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ دنیا ٹیبلٹ اور کنڈل کی طرف جا چکی ہے اور کاغذی کتاب کوئی کہاں رکھے اور کہاں سنبھالتا پھرے۔ صرف یوکے کی بات کی جائے جو کتاب کے شائقین کا گڑھ رہا ہے تو وہاں 2024ء میں اوسطاً 37کتب خانے روز بند ہوئے ہیں۔ ان میں براڈ ہرسٹ‘ فوکس بکس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بڑے ادارے بھی ہیں جو ایک صدی سے زیادہ کھلے رہے۔ کئی دکانوں نے کتابیں اوپر کی منزل پر منتقل کرکے نیچے کھلونے رکھ لیے۔ بہت سی دکانوں نے کتابوں کے ساتھ دیگر اشیا بھی سجا لی ہیں۔ کئی دکانیں طعام گاہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اور یہی حال برصغیر کا بھی ہے۔ میں نے ''کتابچی‘‘ کے نام سے ایک غزلِ مسلسل میں کتاب کا نوحہ لکھا تھا۔ لیکن سوچتا ہوں کہ یہ نوحہ پڑھے گا کون اور اس کا درد نئی نسلوں میں اترے گا کیسے؟ یہ عجائب خانہ اب شاید دلوں ہی میں زندہ رہے گا۔
یوں تو نہ ہو گا دل سے کم رنج ہنر کتابچی؍ کیوں تجھے چپ سی لگ گئی‘ بات تو کر کتابچی !؍ اٹھ گئے کہنہ خوش قلم‘ رہ گئے جلد ساز کم؍ کیا کریں چند لوگ ہم‘ ہوں بھی اگر کتابچی؍ شرب و طعام ہے جہاں‘ تھی وہ کتاب کی دکاں؍ کفش فروش بن چکے اہلِ ہنر کتابچی؍ عطر و ظروف و سیم و زر‘ شیشہ و میوہ و ثمر؍ شہر بھرا ہوا مگر‘ آہ مگر کتابچی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved