حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا ''شبِ معراج میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے‘ میں نے پوچھا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں‘ انہوں نے بتایا: یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے‘ حالانکہ وہ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے تھے (جس میں کسی کیلئے استثناء نہیں ہے)‘ کیا یہ سمجھتے نہیں ہیں‘‘ (مسند احمد: 13421)۔ اس سے معلوم ہوا: ''جن کے رتبے ہیں سوا؍ اُن کو سوا مشکل ہے‘‘۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے پوچھے گا: تجھے کیا ہو گیا تھا کہ جب تو نے برائی دیکھی تو اس کو روکا نہیں‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے اپنی حجت سکھائی جائے گی اور وہ کہے گا: اے رب! میں لوگوں سے ڈرتا تھا اور تجھ سے امید رکھتا تھا‘‘۔ امام احمد نے کہا: ممکن ہے یہ اس شخص کیلئے ہو جو ان (برائی کرنے والوں) کی طاقت سے ڈرتا ہو‘ لیکن اس (برائی کو) اپنے آپ سے دور کرنے پر قادر ہو‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان: 7168)۔
حضرت اسماء بنت عمیس خَثعَمِیَّہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: برا ہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ وبرترکو بھول جائے‘ برا ہے وہ بندہ جو مظلوموں پر جبر اور ظلم وزیادتی کرے اور بزرگ وبرتر جبار (اللہ) کو بھول جائے‘ برا ہے وہ بندہ جو لہو ولعب میں مشغول ہو اور قبروں میں گل سڑ جانے کو بھول جائے‘ برا ہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اور موت کو بھول جائے‘ برا ہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے‘ برا ہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے‘ برا ہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے‘ برا ہے وہ بندہ جسے اس کی ہوائے نفس گمراہ کر دے اور برا ہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل ورسوا کر دے‘‘ (ترمذی: 2448)۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! الحمدللہ! ہم اللہ تعالیٰ سے حیاکرتے ہیں‘ آپﷺنے فرمایا: اللہ سے حیا کا یہ حق نہیں ہے جو تم نے سمجھا ہے‘ بلکہ اللہ سے حیاکی حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس میں موجود خیالاتِ فاسدہ سے اپنی حفاظت کرو‘ اپنے پیٹ اور جن مفاسد پر وہ مشتمل ہیں‘ ان سے اپنی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو اور جسے آخرت کی خواہش ہو‘ وہ دنیا کی زیب وزینت کو ترک کر دیتا ہے‘ جس نے یہ سب کچھ کیا تو درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ سے حیا کیا جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ (ترمذی: 2458)۔ حضرت شدادؓ بن اوس بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو تابع بنا لے اورآخرت کیلئے عمل کرے اورکمزور وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کا اسیر ہو جائے اور اس کے ساتھ اللہ سے حُسنِ عاقبت کی امید رکھے‘‘ (ترمذی: 2459)۔ اس حدیث میں (مَنْ دَانَ نَفْسَہُ)کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے کہ قیامت کے حساب کتاب کا مرحلہ آ جائے‘ وہ دنیا میں ہی اپنے نفس کا محاسبہ کر لے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اپنے نفس کا خود محاسبہ کرو قبل اس کے کہ (اللہ کی عدالت میں) تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (اللہ تعالیٰ کے حضور) بڑی پیشی کیلئے اپنے آپ کو آراستہ کرو اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے‘ قیامت کے روز اس کا حساب کتاب آسان ہو گا۔ میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ اس وقت تک متقی وپرہیز گارنہیں ہوتا جب تک وہ اپنے نفس کا ایسی شدت سے محاسبہ کرے‘ جیسے اپنے فریقِ مخالف کا کرتا ہے کہ اس کا کھانا اور لباس کہاں سے آیا۔ (ترمذی: 2459) یعنی آیا اُس کی کمائی حلال ذرائع سے ہے یا حرام ذرائع سے ہے۔
حضرت ابوسعید خُدریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی‘ انہیں (حسنِ معاشرت کا) ادب سکھایا‘ ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا رہا تو اس کیلئے جنت ہے‘‘ (ابودائود: 5147)۔ سہیل نے اسی سند سے بیان کیا: جس نے تین بہنوں یا تین بیٹیوں یا دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی (وہ بھی جنت کا حقدار ہے) (ابودائود: 5148)۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! (اس کی صورت یہ ہے کہ) وہ کسی شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ ردِّعمل میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے‘ وہ اُس کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ ردِّعمل میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے‘‘ (مسلم: 90) یعنی خود براہِ راست تو اپنے ماں باپ کو گالی نہیں دیتا لیکن وہ انہیں گالی دیے جانے کا سبب بنتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: فقرائے مہاجرین رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) بڑے مراتب اور دائمی نعمتیں پانے میں مالدار ہم پر سبقت لے گئے‘ آپﷺ نے فرمایا: وہ کیسے‘ انہوں نے عرض کی: وہ ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں‘ روزے رکھتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں) صدقہ دیتے ہیں اور ہم (فقر کے سبب) نہیں دے پاتے‘ وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم آزاد نہیں کر پاتے‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسا عمل نہ بتا دوں کہ تم اُس پر عمل پیرا ہو کر اپنے پہلوں اور بعد والوں پر سبقت پا لو اور کوئی تم جیسی فضیلت نہ پائے‘ سوائے اُس کے جو تم جیسا عمل کرے‘ انہوں نے عرض کی: ضرور بتائیے! آپﷺ نے فرمایا:تم ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ‘ تینتیس بار اللہ اکبر اور تینتیس بار الحمد للہ پڑھا کرو‘ ابوصالح کہتے ہیں: (کچھ دنوں کے بعد) فقرائے مہاجرین پھر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ حدیث سن لی ہے اور انھوں نے بھی ہماری طرح ہر نماز کے بعد تسبیحات پڑھنا شروع کر دی ہیں‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: (ایسی دولت جو یادِ الٰہی میں رکاوٹ نہ بنے‘ یہ) اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے‘‘ (مسلم: 595)۔ صحیح مسلم: 1006 میں رسول اللہﷺ نے ان تسبیحات کوصدقہ قرار دیا اور ان میں لا الٰہ الا اللہ کا اضافہ فرمایا‘ نیز یہ بھی فرمایا: نیکی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے‘ برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے‘ حلال طریقے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا بھی صدقہ ہے‘ اس پر صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ازدواجی عمل میں تو بندہ اپنی خواہش پوری کرتا ہے‘ کیا اس پر بھی اجر ملے گا‘ آپﷺ نے فرمایا: بھلا بتائو! اگر وہ حرام طریقے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتا تو اُس پر گناہ ہوتا‘ تو اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے (یعنی نکاح کے ذریعے) اپنی جنسی خواہش پوری کرے گا تو اُسے یقینا اجر ملے گا‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: حکمت ودانش کی ہر بات مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے‘ سو وہ اُسے جہاں بھی پائے (آگے بڑھ کر لے لے)‘ کیونکہ وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے‘‘ (ترمذی: 2687)۔ حضرت سہلؓ بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ اُسے اختیار کر کے میں اللہ اور بندوں کے نزدیک محبوب بن جائوں‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے‘ اس سے بے نیاز ہو جاؤ‘ لوگ تم سے محبت کریں گے‘‘ (ابن ماجہ: 4102)۔ زید بن حسین نے کہا: میں نے سنا: امام مالک سے پوچھا گیا: دنیا سے بے رغبتی کیسے حاصل ہوتی ہے‘ انہوں نے فرمایا: کمائی پاکیزہ ہواور دنیا کی آرزوئیں کم سے کم ہوں۔ (شعب الایمان: 10293)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved