تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     19-12-2025

واقعی … حالات سازگار ہیں

کوئی مانے نہ مانے مگر میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات سازگار ہیں‘ البتہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس کے لیے سازگار ہیں۔ بقول شاعر:
اپنی اپنی بات ہے پیارے‘ اپنا اپنا دل ہے
تُو نے لی قاتل کی بلائیں آنکھ میری بھر آئی
یہ خالصتاً غیرسیاسی شعر ہے لیکن پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی حالات پر صادق آتا ہے۔ ہاں! صادق سے یاد آیا‘ صادق اور امین راہبروں نے پاکستان کو پہلے ایشیا کا ٹائیگر بنایا‘ شاہدرہ کو پیرس کی شانزے لیزے۔ پھر جادوگری سے پاکستان جاپان کے برابر ہوگیا۔ ایک ہی جست میں اتنی ترقی۔ دنیا کا دوسرا کوئی خطہ ایسا نہیں جو اس اُڑان پاکستان کا مقابلہ کر سکے۔ اوپر درج شعر میں شاعر کی شان میں گستاخی نہ ہو تو ایک تصرف یعنی تبدیلی کرنا چاہتا ہوں۔ فرق صرف اتنا پڑے گا کہ شعر بے وزن ہو جائے گا۔ اپنی اپنی بات کے بجائے اپنی اپنی دنیا کر لیں تو سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کے شریفس باسی ہیں اس میں حالات واقعی سازگار ہیں۔ اگر پاکستان کے عام شہری کو مفت قلعہ نما رہائش گاہ‘ سرکاری پروٹوکول‘ جو مانگیں وہ کھابے شابے‘ ڈریم جیٹ میں ہوائی سفر‘ مے فیئر میں چند فلیٹ مل جائیں اور یاریاں خلیج کے شیوخ کے ساتھ ہوں‘ تو ظاہر ہے ایسے میں عام لوگ بھی اگر ارد گرد نظر دوڑائیں گے تو انہیں بھی حالات ساز گار نظر آئیں گے۔ پاکستان کے معاشی اور سماجی حالات اس قدر ساز گار ہیں کہ ایک طرف اشرافیہ ہے جن کے کاغذاتِ نامزدگی میں گاڑی نہیں لکھی ہوتی۔ رہائش گاہ پر والد صاحب کہتے ہیں کہ بیٹے کی اور بیٹا کہتا ہے والد صاحب کی ہے۔ دوسری جانب کروڑوں ایسے پاکستانی ہیں جن کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں مگر جن خوش نصیبوں کے پاس ہے وہ بجلی کی مہنگائی‘ گیس کے بل‘ آلو پیاز کے ریٹ کی وجہ سے وسیب کے قابل نہیں رہی۔ ان کے بچے کئی کئی میل پیدل چل کر گرمی سردی میں اکثر ننگے پاؤں اور ننگے سر سکول جاتے ہیں۔ ان لوگوں کیلئے کیا فرمائیں گے ہمارے قائدِ محترم! کیا ان کے بھی حالات سازگار ہیں۔ ساز گار حالات کے ذکر پر چند سازگاریاں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
حالات سازگار ہیں‘ پہلا ثبوت: ایک عالمی سروے رپورٹ میں اُن ٹاپ ٹین ممالک کی رینکنگ شائع ہوئی جن میں برازیل دس نمبری نکلا۔ اس فہرست کا نام بھیک مانگنے والے ٹاپ ٹین ممالک رکھا گیا۔ برازیل میں ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ 80ہزار لوگ گلیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں‘ جن کا گزارا بھیک مانگنے پر ہے۔ نویں نمبر پر فرانس آتا ہے جہاں تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کے پاس گھر نہیں۔ آٹھویں نمبر پر امریکہ بہادر ہے جہاں چھ لاکھ 50 ہزار لوگوں کے پاس رہائش نہیں‘ وہ گلیوں‘ پلوں اور مارکیٹوں کے تھڑوں پر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ گزارا چیریٹی اور بھیک پر کرتے ہیں۔ بھکاری ممالک کے ساتویں نمبر پر سوڈان ہے جہاں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ زندگی گزارنے‘ بھوک کو مارنے کیلئے بھکاری بن چکے ہیں۔ چھٹے نمبر پر سب سے پرانی تہذیب کا گھر مصر ہے۔ پانچویں نمبر پر بنگلہ دیش ہے۔ چوتھے نمبر پر ڈیمو کریٹک رپبلک آف کانگو ہے‘ جہاں 53 لاکھ لوگ مسلسل قبائلی جنگوں کی وجہ سے بھیک پہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تیسرا نمبرشام کا ہے جہاں 67 لاکھ سے زیادہ لوگ غربت کا شکار ہیں اور بھیک مانگنے پر مجبور۔ نائیجیریا انتہائی غربت والے ممالک میں دوسرے نمبر پر آیا جہاں 70 لاکھ لوگ ملک کے طول و عرض میں بھیک پر گزارا کرتے ہیں۔ جس کے بعد ہمارے ملک کے 'حالات سازگار ہیں‘ پہ یہ کہا گیا:
And at number one, Pakistan, with an estimated 8 million people begging for daily survival.
ویسے قائدِ محترم اپنے برادرِ خورد سے پوچھ لیں کہ عرب دوستوں سے کیمروں کے سامنے یہ کہنا کہ ہمیں خُبز (روٹی) کی ضرورت ہے‘ پچھلے 75سال سے آپ مسلسل کرم نوازی کر رہے ہیں‘ تھوڑی اور مہربانی فرمائیں‘ میں وعدہ کرتا ہوں ہم محنت کر کے آپ کے پیسے واپس کر یں گے‘ یہ کہنا عالمی بھیک منگی نہیں تو اور کیا ہے۔
حالات سازگار ہیں‘ دوسرا ثبوت: دنیا بھر کے جدید معاشروں‘ تہذیبوں اور ملکوں میں سازگار حالات کے تین لینڈ مارک مانے جاتے ہیں۔ سیاسی استحکام‘ اداروں کی مضبوطی اور رُول آف لاء۔ عدم تشدد کے ماحول اور no conflict zoneکو 'حالات سازگار ہیں‘ کا پہلا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔ میں آپ کی طرح ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جو حالات کی ستم ظریفی کے باوجود پاکستان سے باہر جانے کا آپشن نہیں سوچتے۔ اس لیے کہ مجھے آپ سب کے قومی اور سیاسی شعور پر مکمل اعتقاد ہے۔ چلیے آپ بتائیں کیا پاکستان پچھلے ساڑھے تین سال میں جن عناصر کا اوپر ذکر کیا‘ ان میں سے کسی ایک چڑیا کا بھی بسیرا بن سکا۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔
ممتاز ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے 'حالات سازگار ہیں‘ پر تازہ پبلک کمنٹ میں کہا کہ ہمارے دو صوبوں میں Active Insurgency ہے‘ حکومت اسے کنٹرول نہیں کر پا رہی۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ملزم کٹہرے میں لائیں گے۔ ہم کنٹرول کریں گے اور بدامنی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ باتیں اب پرانی ہو گئی ہیں۔ بدامنی کے واقعات کے بعد حکومت کہتی ہے کہ سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ واقعات روکنے کیلئے سکیورٹی سخت کریں۔ قیصر بنگالی نے اسے معیشت میں عدم استحکام کی بنیاد سے جوڑتے ہوئے مزید کہا کہ انڈسٹری کا ڈاؤن فال‘ صنعتوں کی مسلسل بندش اور معاشی عدم استحکام موجودہ حکومت کے کنٹرول میں بالکل بھی نہیں۔
26ویں اور 27ویں ترمیم کے ذریعے مکمل کنٹرول ہونے کے باوجود سنسر شپ‘ دباؤ! سوال یہ ہے کہ ٹھیک کیا ہوا ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی کوئٹہ کی حنّا جھیل‘ زیارت کے چلغوزہ پہاڑ یا قائداعظم کی ریزیڈنسی جیسے ملکی مقامات میں سیاح کی حیثیت سے جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا یہ کہنا واقعاتی بددیانتی نہیں کہ ملک کے حالات سازگار ہیں۔ درحقیقت اس وقت سارا نظام رولر کوسٹر پر سوار ہے۔ مسافروں کی چیخوں والی آڈیو بند کرنے سے رولر کوسٹر کی رفتار کم نہیں کی جا سکتی ۔
باادب جا کے رئیس سے یہ کہیں گے کہ حضور
آپ اب خلوتِ گمنام سے باہر نکلیں
دیر سے تشنۂ صبح لب و رخسار ہیں لوگ
آپ تاریکیِ احرام سے باہر نکلیں!
ایسے میں وزارتِ خزانہ نے وفاقی وزارتوں میں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں تنخواہ یا پنشن کی پابندی ہٹا دی ہے۔ ریٹائرڈ بابو اب پنشن اور تنخواہ بیک وقت لیں گے۔ دوسری طرف عوامی نمائندگی سے محروم ایوان کو بتایا گیا ہے کہ اس سال 65 ہزار مسافروں کو ایئر پورٹ سے آف لوڈ کیا گیا۔ جھوٹ کے راج میں سبز آنکھوں والے سمجھتے ہیں کہ حالات سازگار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved