تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     19-12-2025

آسٹریلیا میں دہشت گردی

اللہ تعالیٰ نے حضرت آم علیہ السلام سے لے کر آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ تک جتنے بھی پیغمبر و رسول بھیجے‘ سب کو جو دین دیا اس کا نام اسلام ہے۔ یعنی ہر دین انسانیت کیلئے سراسر سلامتی کا علمبردار تھا۔ لوگوں نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے دین کے اندر جبر‘ ظلم اور تشدد کا بازار گرم کیا تو اللہ تعالیٰ نے آخری رسول کو تمام جہانوں کیلئے سراسر رحمت بنا کر بھیجا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے بعض فتنہ پروروں نے اسلام کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وہ بے گناہ انسانوں کا خون بہاتے ہیں۔ چند روز قبل آسٹریلیا میں ایک باپ بیٹے نے مل کر اُن لوگوں پر حملہ کر دیا جو ساحل سمندر پر اپنا مذہبی تہوار منا رہے تھے۔ ان کا تعلق بنو اسرائیل سے تھا۔ یاد رہے! اہلِ غزہ کی ہمدردی میں جو سب سے بڑے عوامی اجتماعات ہوئے‘ ان میں آسٹریلیا بھی نمایاں ہے۔ سڈنی شہر‘ جہاں حملہ ہوا‘ وہاں کی خاص بات یہ ہے کہ ہر اتوار کو مذہب اور رنگ ونسل کی تمیز کے بغیر ہزاروں کی تعداد میں لوگ ریلی میں شریک ہوتے تھے۔ ان اجتماعات اور ریلیوں میں بنو اسرائیل کی تعداد بھی خاصی ہوتی تھی۔ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ صہیونی نظریے کے لوگ زیادہ تر اسرائیل میں جا بسے ہیں جبکہ بنو اسرائیل کے ہاردی لوگ اسرائیل میں رہ کر بھی صہیونی ریاست کے مخالف ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تورات کے مطابق آخری نجات دہندہ ہی یہودی ریاست قائم کرے گا اور موجودہ اسرائیلی ریاست کا قیام تورات کیخلاف ہے۔ ایسے لوگوں کو ''ہاردی یہود‘‘ (Haredi Jews) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا وغیرہ میں آباد ہیں۔ یہ جہاں بھی رہتے ہیں‘ اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں نے دوسرے لوگوں کیساتھ مل کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا۔ آسٹریلیا میں ایسے لوگوں ہی پر حملہ کیا گیا۔ یہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ صریحاً انسانیت کیخلاف دہشتگردی ہے۔ غزہ‘ اسرائیل دو سالہ جنگ نے اہلِ فلسطین کو ہمدردی دی ہے۔ ایسے دہشتگردانہ افعال سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ حاصل کردہ عالمی ہمدردی بے حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سنن ابودائود اور ترمذی شریف میں ہے‘ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے ایک بکری ذبح کی (خود کسی کام کو چلے گئے‘ واپس آئے تو) گھر والوں سے پوچھا: کیا تم لوگوں نے میرے یہودی ہمسائے کو بھی گوشت بھیجا ہے؟جواب مثبت ملا تو کہا: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو خود یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے لگاتار وصیت کرتے رہے کہ (اپنی امت کو) ہمسائے کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کیجئے۔ اللہ کے رسول ﷺ مزید فرماتے ہیں: اس (بار بار تلقین) سے مجھے گمان ہونے لگا کہ جناب جبریل ہمسائے کو وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیں گے۔ اللہ اللہ! رسول کریمﷺ کے صحابی نے اپنے آقاﷺ کے فرمان میں یہود کو بھی شامل سمجھا۔ یہ ہے حضورﷺ کی تربیت کا نتیجہ! میں سمجھتا ہوں کہ ہم اہلِ اسلام کو اپنی تربیت پر غور کرنا ہوگا‘ نظرثانی کرنا ہو گی کہ بعض سخت گیر لوگ اسلام کے احکامات کی شرح میں جس تشدد اور سختی کے فتوے دیتے ہیں‘ تقریریں کرتے ہیں‘ تحریریں لکھتے ہیں کہیں ان کے نتائج دو ارب مسلمانوں کو تو بھگتنا نہیں پڑ رہے۔
اسرائیل میں ہاردی یہود کے دو بڑے مراکز ہیں۔ ایک یروشلم کی بستی'' میاشعارم‘‘ (Mea Shearim) میں ہے۔ دوسرا مرکز تل ابیب کے قریب '' بنی براک‘‘ (Bnei Brak) کے علاقے میں ہے۔ ان لوگوں نے غزہ اسرائیل جنگ میں فلسطینیوں کی حمایت کی تھی اور یہ بینر لگا کر احتجاج کیا: We pray for the near dissolution zionist state۔ ہماری دعا ہے کہ یہ صہیونی ریاست جلدی ختم ہو جائے۔ ان کا ایک سلوگن یوں تھا: We would rather die as Jews than live as Zionists۔ یعنی ہم صہیونی بن کر زندہ رہنے سے یہودی مر جانے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
عبرانی میں ہاردی سے مراد ایسے لوگ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے جن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ ان لوگوں کا رہن سہن انتہائی سادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگیاں عبادت اور تورات کی تعلیم کیلئے وقف کر رکھی ہیں۔ یہ لوگ ٹی وی‘ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ وغیرہ استعمال نہیں کرتے۔ ان لوگوں کی سماجی اور مذہبی زندگی اس طرح ہے کہ گھر میں سے ایک دو افراد اتنا ہی کام کاج کرتے ہیں جس سے دو وقت کی روٹی اور معمولی قسم کی ضروریاتِ زندگی پوری ہو جائیں۔ باقی وقت یہ عبادت اور تورات کی تعلیم میں گزارتے ہیں۔ ان کی خواتین حجاب کرتی ہیں۔ غیر محرم مردوں سے بات تک نہیں کرتیں۔ حجاب بھی ایسا کہ جس پر بیل بوٹے نہیں ہوتے تاکہ کوئی کشش نہ ہو۔ ان لوگوں کے فرقے کی آبادی 2025ء میں چودہ فیصد بڑھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ زیادہ بچوں کی خواہش رکھتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق اگلے چالیس سالوں میں ہاردی یہود کی آبادی 33 فیصد تک ہو جائے گی۔ چنانچہ ان کی بڑھتی آبادی سے نیتن یاہو کی صہیونی حکومت پریشان ہے۔ یہ حقیقت بھی بتاتا چلوں کہ یہود میں سے جو لوگ مسلمان ہوتے ہیں‘ وہ انہی لوگوں سے ہوتے ہیں۔ اسلام کی منشا یہ ہے کہ دعوت کا کام ہو مگر دعوت کے کام میں علم کے ساتھ حلم بھی ضروری ہے۔ انسانیت سے محبت بھی ضروری ہے۔
ابودائود شریف میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباسؓ بتاتے ہیں کہ (اسلام اور حضورﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری سے پہلے) انصار کے قبیلوں اوس اور خزرج میں سے جس عورت کے بیٹے زندہ نہ رہتے تھے وہ نذر مان لیا کرتی تھی کہ اگر اس کا بچہ زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنا دے گی۔ جب حضورﷺ نے یہود کے قبیلے بنو نضیر کو مدینے سے اس بنیاد پر نکالا کہ انہوں نے عہد کی خلاف ورزیاں کی تھیں تو ان میں انصار کے لڑکے بھی تھے (جنہیں ان کی مائوں نے نذر مان کر یہودی بنایا تھا)۔ انصار نے کہا: ہم اپنے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے‘ انہیں یہود کے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان نازل ہوا: دین میں کوئی جبر نہیں اس لیے کہ گمراہی کے مقابلے میں ہدایت واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے۔ (البقرہ: 206)
آفرین ہے اللہ تعالیٰ کے اس بندے پر جس کا نام احمد ہے۔ شامی نژاد یہ شخص اب آسٹریلیا کا شہری ہے۔ اس نے نہتا ہونے کے باوجود ایک دہشت گرد کو قابو کرکے اس سے گن چھینی اور بہت ساری انسانی زندگیوں کو بچا لیا۔ بھارت نے میرے پاک وطن کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ لمحہ بھر انتظار نہ کیا اور کہا کہ یہ دہشت گرد پاکستان سے ہیں۔ میرے رب کریم کا فضل کہ تحقیق ہوئی تو دونوں دہشت گردوں کا ہوم کنٹری انڈیا نکل آیا۔ احمد الاحمد کے باپ کا نام احمد تھا تو اس نے بیٹے کا نام بھی احمد رکھ دیا۔ حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک نام ''احمد‘‘ پر نام رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا کہ سارے جہان میں ان کی تعریف ہو رہی ہے۔ جو لوگ ''اسلامو فویبا‘‘ کا مذموم کاروبار کرنا چاہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ میرے پاک وطن کے جو جوان دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں‘ لوگوں کی جانیں بچا رہے ہیں یقین جانیں! وہ صرف اہلِ پاکستان کی جانیں نہیں بچا رہے‘ وہ تمام انسانیت کی جانیں بچا رہے ہیں۔ قرآن مجید اور تورات میں یہی پیغام ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا۔ انسانی دانش کے حاملین کو اپنا فریضہ اس انداز سے ادا کرنا ہوگا کہ جو لوگ بھی انسانیت کے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں ان کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا تعلق درندگی اور بہیمیت سے ہے۔ اہلِ دنیا کو اس درندگی کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ درندگی کا شکار لوگوں اور ملکوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے‘ اس سے انسانیت کو امن ملے گا۔ یہی اللہ اور اس کے آخری رسولﷺ کی منشا ہے۔ انسانیت زندہ باد! دہشت گردی مردہ باد!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved