پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے‘ بڑے ممالک میں پہلے دو نمبروں پر چین اور بھارت ہیں۔ چین کے 31 صوبے ہیں۔ آزادی کے وقت بھارت کے نو صوبے تھے‘ آج 39 ہیں۔ بھارت ہر پانچ سے دس سال میں ایک نئی ریاست بنا دیتا ہے۔ ہر نئی بننے والی ریاست نے پہلے بنی ہوئی ریاست سے زیادہ ترقی کی ہے۔ ہم اپنے صوبوں کی الگ سے جی ڈی پی کیلکولیٹ ہی نہیں کرتے‘ ہم یہ حساب کتاب ہی نہیں کرتے کہ ہمارے کس صوبے نے کتنا کام کیا۔ 1951ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تین کروڑ 30 لاکھ تھی‘ پورے سندھ میں صرف 60 لاکھ لوگ تھے‘ آج کراچی کے ایک علاقے میں شاید اتنے لوگ ہوں گے‘ ہم نے شروع سے لوگوں کی ویلفیئر کیلئے کام کیا ہوتا تو شاید آج اس مقام پر نہ ہوتے۔
ایران کی آبادی نو کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر صوبے پاکستان سے زیادہ ہیں۔ وہاں لوکل گورنمنٹس صوبوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ دنیا میں صرف 12 ممالک ایسے ہیں جو آبادی میں پنجاب سے بڑے ہیں‘ صرف 31ممالک آبادی میں سندھ سے بڑے ہیں‘ محض 41ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی خیبر پختونخوا سے زیادہ ہے۔ دنیا میں 172 ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔ ہمارے صوبے دنیا کے بیشتر ملکوں سے بڑے ہیں۔ دنیا میں اتنے بڑے ملک نہیں ہیں جتنے بڑے ہم نے صوبے بنا رکھے ہیں۔اب ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ ان صوبوں نے اپنے شہریوں کیلئے کیا کیا ہے؟
ہمارے ملک میں جیسے ہی جمہوریت نافذ ہوئی‘ سب سے پہلا کام مقامی حکومتوں کو ختم کر کے کیا گیا۔ ہماری تجویز ہے کہ پاکستان میں ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جائے‘ پنجاب کے 10ڈویژن ہیں‘ وہاں 10صوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ سندھ میں سات ڈویژن ہیں۔ یہ سات صوبے بن سکتے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ سندھ میں نئے صوبے کیسے بنیں گے‘ سندھ کی تاریخ اور روایات بہت پرانی ہیں۔ اس طرح تو خیبر پختونخوا کی روایات سندھ سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ خیبر پختونخوا نے پورے ہندوستان کو کئی بار فتح کیا۔ ایک زمانے میں پشاور پنجاب حکومت کے ماتحت تھا۔ کسی زمانے میں قلات ایک پورا ملک تھا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا لیڈرشپ جب عصبیت کی بات کرتی ہے تو دراصل وہ اپنی ناکامی کو چھپا رہی ہوتی ہے۔ ووٹ لینے کیلئے عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے‘ عصبیت سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہوتا۔ ہر صوبے نے نئے ڈویژن بنائے ہیں‘ نئے اضلاع بھی بنتے رہتے ہیں تو پھر ایڈمنسٹریٹو بنیادوں پر نئے صوبے بنانے میں کیا امر مانع ہے؟ سندھ میں ڈویژن سطح پر صوبے بنیں گے تو کراچی ایک صوبہ ہوگا‘ کراچی کا پوٹینشل دبئی سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں بزنس‘ انڈسٹری‘ آبادی اور تجارتی حب ہے۔ دو‘ ڈھائی کروڑ آبادی کا یہ شہر علیحدہ صوبہ کیوں نہیں بننا چاہیے؟ خیبر پختونخوا میں سات ڈویژن ہیں‘ وہاں بھی سات صوبے بن سکتے ہیں‘ بلوچستان میں اس وقت آٹھ ڈویژن ہیں اور وہاں اتنے ہی صوبے بن سکتے ہیں۔
ہم 33صوبوں کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ ملک میں ترقی ہو۔ اس وقت اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے 167ممالک کا سروے کیا‘ ہمارا نمبر 140واں ہے۔ سوڈان‘ تنزانیہ اور شام جیسے ممالک ہم سے پیچھے ہیں‘ جہاں جنگیں ہو رہی ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک میں ہم 168ویں نمبر پر ہیں۔ قانون کی بالادستی کے حوالے پاکستان 143ممالک میں 130ویں نمبر پر ہیں۔ ہمارے 44فیصد بچے کمزور ذہنی نشو ونما (سٹنٹنگ گروتھ) کا شکار ہیں۔ جب یہ بچے بڑے ہوں گے تو ہم پر بوجھ ہوں گے۔ جن بچوں کو سکول میں ہونا چاہیے‘ ان میں سے ڈھائی کروڑ سکولوں سے باہر ہیں۔ 10سے 15سال بعد یہی بچے ملکی ترقی کے پائوں کی زنجیر بنے ہوں گے۔ اگر آج ہم اپنے طور طریقے کو ٹھیک نہیں کرتے تو 15 سال بعد ہمارا مستقبل کیا ہو گا‘ یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ کیا یہاں رک کر ہمیں خود سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اورکیا کر رہے ہیں؟
موجودہ صوبوں کا خاکہ عجلت میں بنایا گیا‘ اب مزید صوبوں کی گنجائش ناگزیر ہے۔ سرکاری محکموں کی خراب کارکردگی نے سماج کو کافی نقصان پہنچایا ہے‘ سرکاری محکموں کو فنڈز ملنے کے بجائے بمشکل تنخواہیں جاری ہوتی ہیں‘ سپریم کورٹ سے سٹی کورٹس تک عدالتی نظام اضافی بوجھ سے لدا ہوا ہے۔ جب نئے صوبوں کی بات کی جاتی ہے تو پہلا سوال یہی اٹھتا ہے کہ اس طرح اخراجات بڑھ جائیں گے‘ نئے صوبے بننے سے اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہوں گے۔ نئے صوبے میں اوپر کی انتظامی پرت ختم ہو جائے گی‘ سیکرٹریٹ کا خرچ نکل جائے گا۔ پنجاب میں 13کروڑ اور سندھ میں چھ کروڑ آبادی کا ایک وزیراعلیٰ ہے۔ نئے صوبوں میں چار اضلاع کے وزیراعلیٰ کو جہاز‘ کاروں کے قافلہ اور 500لوگوں کا سٹاف نہیں چاہیے ہو گا‘ اس سے اخراجات کم ہوں گے۔
ہمیں ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو بڑھانا ہو گا کیونکہ دنیا نے اسی طریقے سے ترقی کی ہے۔ ہم بھی اُسی راہ پر چل کر ترقی کر سکتے ہیں جس پر چل کر دنیا نے ترقی کی ہے۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو اسی فارمولے پر کام کرنا ہوگا۔ نئے صوبوں کی تشکیل سے جمہوری نظام مضبوط ہو گا‘ سیاسی لوگوں کے سٹیک بڑھ جائیں گے‘ نئی لیڈرشپ سامنے آئے گی۔ ترکیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں برسوں تک فوج کی حکومت رہی‘ ایک وزیراعظم کو پھانسی بھی ہوئی مگر لوکل گورنمنٹ سسٹم اچھا تھا‘ اس سے ترکیہ کو اردوان کی شکل میں ایک اچھا میئر ملا۔ جس جس شہر میں مینڈیٹ ملا‘ وہاں طیب اردوان اور ان کی پارٹی نے کام کر کے دکھایا۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم سے کارکردگی کی بنیاد پر طیب اردوان قومی سطح کی سیاست میں داخل ہوئے۔ ہمارے لیڈر اپنے اقتدار کو بانٹیں اور 33 صوبے بنائیں۔ یہاں کسی سیاسی خاندان کے 33 بیٹے یا بھائی نہیں‘ مجبوراً سیاسی ورکرز کو آگے لانا پڑے گا۔ بھارت میں چائے بنانے والا وزیراعظم بن سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟ ہمارے سیاسی نظام میں موروثی سیاست کا راج ہے۔ قابض لوگ اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے‘ ملک وقوم کے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقے کو موقع نہیں ملتا۔ نئے صوبوں سے مڈل کلاس سیاسی لیڈرشپ ابھرے گی۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بہترین لیڈرشپ پڑھی لکھی مڈل کلاس سے نکل کر آتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں جو کارکردگی کی بنیاد پر وزیراعظم بنا ہو۔ ہماری سیاست میں چند خاندان ہیں جو لیڈرشپ پیدا کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کا ہے۔ ہمارے پاس ایک بھی ایسا لیڈر نہیں جو فطری ترقی کرکے سامنے آیا ہو۔ پاکستان کو بنے 79 سال ہو چکے‘ اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں‘ اگر سمت ٹھیک ہو تو گاڑی منزل تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ پاکستان میں 95فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں‘ ہمیں اپنے کردار پر محنت کرنا ہو گی‘ ہمیں اپنا گورننس ماڈل ٹھیک کرنا پڑے گا‘ ہمیں اپنے ایڈمنسٹریٹو یونٹس چھوٹے کرنا ہوں گے تاکہ وسائل نیچے تک منتقل ہوں۔
میں چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کی مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں 2003ء سے ان کو دیکھ رہا ہوں اور ان کے خلوصِ نیت کا عینی شاہد ہوں۔ میاں عامر محمود صاحب ایک لمبے عرصے سے اس نیک مشن پر گامزن ہیں۔ انہوں نے ایک طرح سے اذان کہہ دی ہے۔ ان شاء اللہ جب نئے صوبوں وجود میں آئیں گے اور جس صوبے کا وزیراعلیٰ زیادہ محنت کرے گا وہ صوبہ آگے نکل جائے گا۔ جیسے بھارت میں کجریوال نے کام کرکے دکھایا ہے۔ اگر 33صوبے بنیں گے تو کچھ تو بہتر پرفارم کریں گے‘ اس سے ایک مسابقت پیدا ہو گی اور وسائل کا رخ عوام کی طرف ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved