تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     20-12-2025

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ہے‘ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ باتفاقِ امّت اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاء ہیں۔ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''اس سے مراد افضلیت مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ نہیں ہے‘ بلکہ مطلق افضلیت ہے۔ سو اگر کسی خاص شعبے میں یا بعض شعبوں میں دیگر صحابۂ کرام کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل ہو تو یہ صدیق اکبر کی افضلیتِ مطلقہ کے منافی نہیں ہے‘‘۔ آپؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں آپ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں سے ہیں‘ غارِ ثور اور سفرِ ہجرت کے امین ورفیق‘ تمام غزوات میں آپﷺ کے ہم رکاب اور آج روضۂ رسول میں جوارِ مصطفیﷺ میں آرام فرما ہیں اور اس طرح آرام فرما ہیں کہ جہاں قدمینِ مصطفی ہیں‘ اس کے متصل قبرِ صدیق اکبر کا سرہانہ ہے اور قیامت میں بھی آپﷺ کیساتھ اٹھیں گے اور ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
پائے رسول پاک پہ ہو سر رکھا ہوا
ایسے میں آ اَجل تُو کہاں جا کے مر گئی
یہ خواب تو ہر مومن کا ہے‘ لیکن اس کی تعبیر صدیق اکبرؓ نے پا لی۔
6 ہجری میں رسول اللہﷺ تقریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرے کیلئے تشریف لے گئے‘ آپﷺ نے صحابۂ کرام کو بتایا تھا: ''میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں‘‘۔ حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کو مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ کی ادائی سے روک دیا‘ اس دوران قریشِ مکہ کے ساتھ سفارتکاری ہوئی اور بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا‘ اس کی شرائط یہ تھیں: (1) دس سال تک جنگ بندی رہے گی اور لوگ ایک دوسرے سے محفوظ رہیں گے‘ (2) اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ مکرمہ میں رہیں گے‘ صرف وہی ہتھیار ساتھ رکھیں گے جو عام حالات میں سفر میں رکھے جاتے ہیں‘ (3) جو شخص مکۂ مکرمہ سے اسلام قبول کرنے کیلئے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر رسول اللہﷺ کے پاس آئے گا تو اُسے لوٹا دیا جائے گا‘ (4) جو مدینۂ منورہ سے پلٹ کر قریش کے پاس آئے گا تو اُسے نہیں لوٹایا جائے گا‘ (5) قبائلِ عرب کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں اور قریشِ مکہ میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں۔ بظاہر اس معاہدے کی شرائط مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کر رہی تھیں‘ حضرت عمرؓ بن خطاب جن کے روئیں روئیں اور انگ انگ میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ''یا رسول اللہﷺ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ''یقینا سچا نبی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ''کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں‘‘ فرمایا ''یقینا ایسا ہی ہے‘‘ انہوں نے کہا ''کیا ہمارے شہدا جنت میں اور اُن کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے‘‘ فرمایا ''ایسا ہی ہو گا‘‘ انہوں نے کہا ''تو پھر ہم کمزور پوزیشن میں آ کر کیوں معاہدہ کر رہے ہیں‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ''میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘ اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا‘ وہ میرا مددگار ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے پھر کہا ''کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے‘‘ آپﷺ نے فرمایا ''یقینا کہا تھا‘ لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘۔ حضرت عمرؓ کو پھر بھی قرار نہ آیا اور وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے جو رسول اللہﷺ سے سوال وجواب کے وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ اُن سے وہی سوالات اُسی ترتیب سے کیے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لفظ بہ لفظ وہی جوابات دیے جو آپﷺ نے دیے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سوچ تاجدارِ نبوتﷺ کی فکر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ذرّہ بھر فرق نہیں تھا‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج: 5‘ ص: 52)۔
اسی طرح جب رسول اللہﷺ غارِ حرا سے پہلی امانتِ وحی لے کر گھر لوٹے تو بشری تقاضے کے تحت آپﷺ پر ایک گھبراہٹ کی سی کیفیت لاحق تھی اور شدید گرمی کے موسم میں آپ پر کپکپی طاری تھی۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہا ''بخدا! اللہ آپ کو بے آبرو نہیں کرے گا‘ کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘‘ (بخاری: 3)۔ پس جس کا کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ پھر ایک موقع آیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کفارِ مکہ کی اذیتوں سے تنگ آ کر مکۂ مکرمہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوئے‘ راستے میں مکہ کے ایک رئیس اِبْنُ الدَّغِنَہ سے ملاقات ہوئی‘ اس نے پوچھا: ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے‘ کہا: قوم مجھے وطن سے نکال رہی ہے تو میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں‘ اِبنُ الدَّغِنہ نے کہا: ابوبکر! رک جائو‘ آپ جیسے شخص کو نہ خود وطن سے نکلنا چاہیے اور نہ جبراً نکالا جانا چاہیے کیونکہ آپ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبتیں اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘ پس میں آپ کو پناہ دیتا ہوں‘ لوٹ جائیے اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجیے‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج: 2‘ ص: 410)۔ ذرا غور فرمائیے ! خُلُقِ مصطفیﷺ کے بارے میں جو کلمات اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے کہے‘ بعینہٖ وہی کلمات خُلُقِ صدیقی کے حوالے سے ایک نظریاتی دشمن اور رئیسِ مکہ ابن الدَّغِنہ نے کہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ قُربت وصحبتِ مصطفیﷺ کی برکت سے جنابِ صدیقِ اکبرؓ کا کردار خُلُقِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا‘ اس طرح سو فیصد عکسِ کردارِ مصطفی اور کہاں ملے گا۔
عام دستور یہ ہے کہ جس پر کوئی طعن کیا جائے یا الزام لگایا جائے تو وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے‘ لیکن مقامِ مصطفیﷺ کے انداز نرالے ہیں کہ طعن مصطفی پر کیا جاتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتا ہے‘ سو جب کچھ عرصے کیلئے وحی موقوف ہو گئی اور کفارِ مکہ نے طعن کیا کہ محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور وہ اُن سے ناراض ہوگیا ہے‘ بجائے اس کے کہ آپﷺ جواب دیتے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے حبیبِ مکرم!) آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور بیشک ہر بعد والی ساعت آپ کیلئے پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘ (الضحیٰ: 3 تا 4)۔ اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر آزاد کیا تو کفارِ مکہ نے طعن کیا: ہو نہ ہو‘ ابوبکر نے بلال کے کسی احسان کا بدلہ چکایا ہے‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اس آگ سے وہ سب سے زیادہ متقی شخص محفوظ رہے گاجو (اللہ کی راہ میں) اپنا مال دیتا ہے تاکہ اس کا قلب (مال کی محبت کے غلبے سے) پاک ہو جائے اور اُن پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے‘ جس کا وہ بدلہ چکا رہے ہوں‘ وہ تو صرف اپنے بزرگ وبرتر پروردگار کی رضا کیلئے (اپنا مال خرچ کرتے ہیں) اور وہ عنقریب اُن سے راضی ہو جائے گا‘‘ (اللیل: 17 تا 21)۔
جماعتِ صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبرؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا (معجم الکبیر للطبرانی: 11)۔ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ ظاہری میں آپؓ نے امامت فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘ کسی اور کیلئے سزاوار نہیں کہ وہ امامت کرے‘‘ (ترمذی: 3670)۔ اسی طرح بلا فصل خلیفۂ اول ہونا‘ مانعینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنا اور جمعِ قرآن بھی آپؓ کے اعزازات وخصوصیات میں سے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved