اس وقت بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھارت کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بھارت کو دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانے اور وہاں انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کا کوئی پڑوسی ملک ایسا نہیں جس کے ساتھ مودی حکومت کو مسئلہ نہ ہو۔ سری لنکا‘ مالدیپ‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ نیپال‘ چین اور پاکستان‘ ہر ملک کے ساتھ بھارت کے سرحدی اور سیاسی تنازعات ہیں اور ان میں سے ہر ملک کے اندر فساد پیدا کرنے کی بھارتی کوششیں ہر دورِ حکومت میں جاری رہی ہیں۔
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے کیا نتائج نکلیں گے‘ اس پر کالم کی دوسری قسط میں بات کریں گے‘ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بھارت کے کیا مسائل ہیں اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے مذکورہ بالا ممالک کن کٹھنائیوں‘ مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔
میں یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سری لنکا میں تیس برس تک جاری خانہ جنگی کا اصل ذمہ دار بھارت ہے۔ بھارتی صوبے تامل ناڈو اور سری لنکا کے شمال میں بسنے والی تامل قوم میں تاریخی طور پر گہرے روابط رہے ہیں۔ بھارت کی سابق اور آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ان روابط کو سری لنکا میں فساد پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ 1971ء کے بحران کے دوران سری لنکا نے پاکستانی سول اور ملٹری طیاروں کو اپنی سرزمین پر اترنے اور ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی اور یہ بات بھارتی قیادت‘ جو مکتی باہنی کو فنڈنگ کے ذریعے آگے بڑھا رہی تھی‘ کو پسند نہیں آئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی سری لنکا سے اسی کا بدلہ لینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنی خفیہ ایجنسی کو سری لنکا کو غیر مستحکم کرنے کے سلسلے میں تامل ٹائیگرز نامی تنظیم تشکیل دینے کا کہا۔ جونہی یہ تنظیم بنی سری لنکا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ جو 30سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔ اس خانہ جنگی نے سری لنکا کو معاشی اور معاشرتی لحاظ سے بری طرح متاثر کیا۔ یہ خانہ جنگی 2009ء میں پاکستان کے تعاون سے ختم ہوئی لیکن اس کے پانچ سال بعد ہی بھارت میں نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت آ گئی جس نے سری لنکا کا ناطقہ بند کرنے کا کوئی موقع فروگزاشت نہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بھارت سری لنکا میں خانہ جنگی نہ کراتا تو آج یہ یعنی سری لنکا اس خطے کا ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی جانب سے مالدیپ کی کئی مواقع پر مدد کی جاتی رہی‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بدلے میں مالدیپ کی خارجہ پالیسی بھارت کے پاس رہن رہی۔ آج سے چند سال پہلے جب مالدیپ نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار اور اس میں موجود امکانات کے پیشِ نظر چین کے بین الاقوامی ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو بھارت اس سے ناراض ہو گیا کیونکہ مودی سرکار نہیں چاہتی تھی کہ مالدیپ اس کے حلقۂ اثر سے باہر نکلے۔ یہ مسائل آج تک چل رہے ہیں اور بھارت مختلف حیلوں بہانوں سے مالدیپ میں مسائل پیدا کرتا اور بڑھاتا رہا ہے۔
بھارت اور بھوٹان کے مابین اہم مسائل میں سرحدی تنازعات‘ خاص طور پر چین کے ساتھ سرحدوں کا معاملہ اور بھوٹان کی خارجہ پالیسی میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ شامل ہیں۔ بھوٹان چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور اپنی خود مختاری قائم رکھنے کی کوشش میں ہے جبکہ بھارت مالدیپ کی طرح بھوٹان کو بھی اپنے زیر اثر رکھنے کا خواہش مند ہے۔ 1949ء اور 2007ء میں دونوں ملکوں کے مابین طے پانے والے معاہدوں کے تحت بھارت کی بھوٹان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں اہم کردار رہا ہے جس کی وجہ سے ہر دور میں بھوٹان کی خود مختاری کے بارے میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ بھارت کی یہ خواہش مندی دونوں ملکوں کے مابین کشمکش کا باعث ہے۔ بھارت کے بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدی اختلافات موجود ہیں۔ خاص طور پر اروناچل پردیش اور سربھانگ اور تسیرانگ اضلاع میں سرحدوں کا تعین مسائل کا باعث بنتا رہا ہے۔ چین کے ساتھ سرحد کے معاملے میں بھوٹان کا موقف بھارت کے لیے اہم ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی اور معاشی طاقت کے باعث بھوٹان چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے‘ جس کے باعث بھارت کی اپنی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مودی سرکار خود کو غیرمحفوظ تصور کرنا شروع ہو جاتی ہے۔
بھارت اور نیپال کے درمیان 1770کلومیٹر طویل اور کھلی سرحد ہے اور یہ کھلی سرحد ہی ان کے مابین مسائل کا باعث ہے۔ بھارت اور نیپال کے کالا پانی‘ لیپولیکھ اور لمپیادھورا کے علاقوں کی ملکیت کے حوالے سے مسائل موجود ہیں جو تنازعات پیدا کرنے کا بھی باعث بنتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں نیپال نے اپنے نئے نقشوں میں ان علاقوں کو اپنے علاقے کے طور پر شامل کیا‘ جسے بھارت نے مسترد کر دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کے حقوق‘ ترقیاتی منصوبوں اور معاشی اثر و رسوخ پر بھی اختلافات موجود ہیں۔ بھارت نیپال کے سیاسی معاملات میں بھی واضح مداخلت کرتا رہتا ہے۔ یکم جون 2001ء کو نیپال کے شاہ بیرندرا اور اس کے پورے خاندان کو بیرندرا کے بڑے بیٹے ولی عہد شہزادہ دیپندرا نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ صرف بیرندرا کا چھوٹا بھائی گیانیندرا شاہ بچا تھا۔ دیپندرا خود بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گیا اور بعد ازاں انتقال کر گیا تھا۔ اس طرح گیانیندرا کو بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نیپال میں کھیلی گئی خون کی اس ہولی کے پیچھے بھارتی سازش کارفرما تھی۔ 2020ء میں بھارت نے چین کے ساتھ لگنے والی اپنی سرحد پر نظر رکھنے کے لیے اترا کھنڈ میں لیپولیکھ درے تک ایک نئی سڑک تعمیر کر دی تھی۔ اس کے ردِ عمل میں نیپال نے تب ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا تھا جس میں کالا پانی‘ لیپولیکھ اور لمپیادھورا کو باضابطہ طور پر نیپال کی سرحد کے اندر دکھایا گیا تھا۔ بعد ازاں نیپالی پارلیمنٹ نے بھی اس نقشے کی توثیق کر دی تھی۔ بھارت نے اس اقدام کو یکطرفہ اور مصنوعی توسیع قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا‘ گزشتہ ماہ نیپال نے اپنا سو روپے کا نیا نوٹ متعارف کرایا تو یہ بھی نیپال اور بھارت کے درمیان وجہ تنازع بن گیا کیونکہ اس میں کالا پانی‘ لیپولیکھ اور لمپیادھورا کو باضابطہ طور پر نیپال کا حصہ ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ امسال ستمبر میں نیپال میں جو انقلاب آیا اسے جنریشن زی کا انقلاب قرار دیا گیا لیکن تجزیہ کار مانتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ تھا۔ کہا گیا کہ بھارت کی جانب سے جنریشن زی کے نوجوانوں کو پیسہ‘ ایجنڈا اور سوشل میڈیا ٹولز دے کر ایک خود مختار ملک کی سیاست کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ یعنی نیپال میں احتجاج کے پیچھے دہلی کی منصوبہ بندی تھی۔ بھارت کے خفیہ ہاتھوں نے احتجاج کے نام پر انتشار کو ہوا دی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved