آنے والے چند برسوں میں دنیا کا نقشہ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی نظام میں طاقت کے مرکز کی مغرب سے مشر ق کی جانب منتقلی سے ہمارے خطے میں ہونے والی نئی صف بندیوں سے امریکی بالادستی کو شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ سرد جنگ میں رقابتوں کے باوجود پاک روس تعلقات مضبوط سٹریٹجک شراکت داری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان کی Look Westکے بجائے Look East پالیسی اختیار کرنے کی وجہ امریکی رویہ ہی ہے۔ گزشتہ 75برسوں میں پاک روس تعلقات کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں ہوئے بلکہ یہ کثیرالجہتی تعلقات جیو پالیٹکس‘ قومی سلامتی اور علاقائی استحکام میں ہم آہنگی کی بنیاد پر ایک اہم ارتقائی دور سے گزر تے رہے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی‘ دفاعی مکالمے‘ توانائی‘ زراعت اور پارلیمانی رابطوں جیسے شعبوں میں تعاون باہمی افہام و تفہیم کے ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاکستان بدلتے ہوئے بین الاقوامی نظام میں روس کے اہم کردار اور مقام کو تسلیم کرتا ہے۔ آج کے عالمی نظام میں پاکستان اور روس کے تعلقات کو جو چیز منفرد بناتی ہے وہ اختلافات کی عدم موجودگی ہے۔ عالمی طاقت کی تبدیلی کے درمیان پاکستان اور روس کے سٹریٹجک اور جیو پولیٹکل مفادات مشترک ہیں جنہیں معاشی فوائد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے پاک روس پہلے ایشیائی فورم 2025ء کے قیام کا اہم مقصد دونوں ملکوں کے مابین غیر روایتی سکیورٹی چیلنجز‘ پائیدار عوامی روابط اور یوریشیا میں علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
پاک روس تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ نہیں تھے بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں گزشتہ دہائیوں میں کئی نشیب و فراز آئے۔ یکم مئی 1948ء کو سوویت یونین کے اس وقت کے نائب وزیر خارجہ آندرے اے گرومائکو (Andrei A. Gromyko) اور پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خاں کے درمیان نیویارک میں طے پانے والے معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات قائم ہونے کے ساتھ کراچی اور ماسکو میں ایک دوسرے کے سفارت خانوں کا قیام عمل میں آیا۔ کراچی میں پاکستان سٹیل ملز کی تعمیر پاک روس مضبوط تعلقات کی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح سوویت یونین نے تھرمل توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کی اور گیس کی تلاش اور ترقی کے لیے او جی ڈی سی ایل کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کا گڈو تھرمل پاور پلانٹ روسی ماہرین کی شراکت سے بنایا گیا۔ 2006ء سے ہمارا ملک نیٹو روس کونسل کے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے اداروں کے اہلکاروں کو تربیت دینے کے پروگرام میں حصہ لے رہا ہے۔ 2010ء سے انسدادِ منشیات کا تعاون بھی دو طرفہ طور پر فروغ پا رہا ہے۔ اس وقت سینکڑوں پاکستانی طلبہ روسی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح 2011ء میں روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کی بھرپور تائید کی۔ روس اور پاکستان کے درمیان مناسب فوجی تعلقات بھی قائم ہیں۔ دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔ 2014ء میں پاکستان اور روس نے مشترکہ دفاعی تعاون شروع کیا جس میں ملٹری انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ‘ مشترکہ فوجی مشقیں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان اعلیٰ سطح فوجی روابط قائم ہیں۔ یہ باہم جڑے ہوئے مفادات محتاط انٹیلی جنس تبادلے‘ سفارتی مشاورت اور محدود دفاعی تعاون کا سبب بنے ہیں جن میں 2016ء سے جاری سالانہ Druzhba فوجی مشقیں اور عربین مون سون جیسی مشترکہ بحری مشقیں بھی شامل ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان اور روس ایک دوسرے کیلئے قدرتی شراکت دار ہیں۔ پاکستان کی بندرگاہیں روس کو بحرِ ہند تک رسائی دے سکتی ہیں جبکہ روس وسطی ایشیا اور یورپ تک پاکستان کیلئے ایک محفوظ تجارتی راستہ فراہم کر سکتا ہے ۔روس کیسپین‘ وولگا‘ بحیرہ اسود اور بحیرہ بالٹک کے راستوں سے پاکستان کو یورپی منڈیوں تک منظم رسائی فراہم کرتا ہے‘ جو سمندر میں تنازعات سے بھرے تنگ راستے یعنی (چوکنگ پوائنٹ) سے بچاتے ہیں۔ افغانستان میں استحکام دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور اسی لیے اب اس حوالے سے بھی اسلام آباد اور ماسکو کا مؤقف یکساں اور واضح ہے۔ پاکستان ایک مستحکم مغربی ہمسایہ چاہتا ہے تاکہ اپنے داخلی سلامتی کے مسائل پر قابو پا سکے اور CASA-1000 اور TAPI جیسے ٹرانزٹ منصوبوں کو فعال بنا سکے۔اس کے باوجود پاک روس تجارت اب بھی بہت محدود ہے۔ دو طرفہ تجارت میں معمولی اضافہ ضرور ہوا ہے مگر یہ حجم نہ پاکستان کی ضروریات پوری کرتا ہے اور نہ روس کی صلاحیتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کا مغربی مالیاتی نظام پر انحصار اور روس پر عائد عالمی پابندیاں ہیں جنہوں نے عملی تعاون کی رفتار کو سست رکھا ہے۔ پاکستان 24کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ ایک ابھرتی ہوئی صارف منڈی ہے جبکہ روس توانائی‘ صنعت اور خام مال کے شعبوں میں عالمی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی 2.02کھرب ڈالر کی معیشت ہے اور تقریباً 400ارب ڈالر کے زرِ مبادلہ ذخائر ہیں۔ روس پاکستان کیلئے ایک بڑی منڈی ہے‘ ساتھ ہی روس ایک متنوع صنعتی بنیاد‘ سول جوہری علم اور پیشہ ورانہ مہارت بھی پیش کرتا ہے۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور روس اس حوالے سے ایک موزوں شراکت دار بن سکتا ہے۔ تیل‘ گیس‘ گندم اور خوردنی تیل جیسے شعبوں میں تعاون نہ صرف پاکستان کو متبادل ذرائع فراہم کرے گا بلکہ روس کو بھی نئی منڈیاں میسر آئیں گی۔ پاکستان بزنس کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق روس میں پاکستان کی غیراستعمال شدہ برآمدی صلاحیت کا تخمینہ تقریباً 2.8ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ پاکستان کی توانائی کی طلب سالانہ آٹھ فیصد سے زائد کی شرح سے بڑھ رہی ہے‘ جو روس کی صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہے کیونکہ روس قدرتی گیس کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ اور تیل کا تیسرا بڑا پیدا کنندہ ہے۔ پاکستان سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد کا خوردنی تیل اور گندم درآمد کرتا ہے‘ جس میں عالمی منڈی میں روس کا حصہ بالترتیب تقریباً 14فیصد اور 20فیصد ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاک روس تعلقات کو محض سٹریٹجک بیانات سے نکال کر ادارہ جاتی معاشی شراکت داری میں بدلا جائے۔ علاقائی تنظیموں جیسے یوریشین اکنامک یونین (EAEU) اور اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے ذریعے پاکستان کو یوریشیائی تجارت سے جوڑا جا سکتا ہے۔ بینکاری کے شعبے میں متبادل ادائیگی نظام‘ توانائی منصوبوں خصوصاً پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن کی تکمیل‘ اور ٹرانزٹ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اس سمت میں اہم اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں۔ روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اگر مضبوط معاشی بنیادوں پر استوار ہو جائے تو یہ تعلق حقیقی اور دیرپا ثابت ہو سکتا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس اور پاکستان تجارتی اور اقتصادی تعاون بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت کا حجم اس وقت ایک ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ بارٹر سسٹم کے ذریعے اس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بجلی اور گیس کے مسائل حل ہو جائیں تو یہاں ڈالر کی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے‘ توانائی کے مسائل پر قابو پانے میں روس ہماری کافی مدد کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین اور روس مسلسل سر گرم عمل بھی ہیں۔ موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ روس خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے دوبارہ سرگرم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی پشت پناہی میں علاقے کا تھانیدار بننے کے خبط میں مبتلا بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے چین اور روس جیسے اہم اور بڑے ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات جہاں ہمارے لیے ترقی اور استحکام کی نوید ہیں وہیں ان تعلقات سے ایسے ممالک کو بھی ٹھوس پیغام مل جائے گا جو پاکستان کو ترقی کرتے اور خوشحال ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved