اسلام آباد کے فطری حسن اور اس کی پامالی کا قصیدہ اور مرثیہ بہت سوں نے لکھا ہے۔میر انیس کا مقام مگر آصف محمود ہی کے لیے خاص ہے۔ انہوں نے اس کہانی کو لفظوں کے ایسے عَلم کی صورت میں مجسم کر دیا ہے جسے لوگ مدتوں ہاتھوں میں اٹھائے سینہ کوبی کرتے رہیں گے۔
آصف کے کالموں کا مجموعہ میرے سامنے ہے۔ مارگلہ... جنگل کہانی۔ یہ ایک طرف اس حسن کا قصیدہ ہے جو خدا نے مارگلہ کی فضاؤں میں بکھیر دیا ہے۔ آصف نے نثر میں اس طرح منظر نگاری کی ہے کہ بے ساختہ میر انیس یاد آتے ہیں:
پھولوں کے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے؍ تھالے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے٭ وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار؍ پھولوں پہ جا بہ جا وہ گہر ہائے آبدار ٭اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار؍ بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار ٭خواہاں تھے زیبِ گلشنِ زہرا جو آب کے؍ شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
ایسی تحریریں وہی لکھ سکتا ہے جسے طبعِ فطرت شناس عطا کی گئی ہو اور جس نے اس میں مظاہرِ فطرت سے ہم کلام ہونے کی صفت پیدا کر دی ہو:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
دوسری طرف یہ اس حسنِ پامال کا مرثیہ ہے جس میں میر انیس کی نظم کو منثور کر دیاگیا ہے۔
سرِ حسین گیا شام میں بوقتِ سحر
ہوا یہ شور کہ نیزے پہ آفتاب آیا
قصیدہ ہو یا مرثیہ‘ میر انیس کا انحصار صدیوں پرانی تاریخ‘ تخیل اور عقیدت پر ہے۔ آصف جس حسنِ فطرت کا قصیدہ اور مرثیہ لکھ رہے ہیں‘ ان کی بنیاد مشاہدے اورتجربے پر ہے۔ یہ محض لفظوں کے بنائے ہوئے نقش ونگار نہیں‘ چشمِ سر کے ساتھ دیکھے گئے مناظر ہیں۔ یہ ان زخموں کی کہانی نہیں ہے جو دوسروں کو لگے۔ یہ وہ گھاؤ ہیں جوان کے اپنے وجود پرنقش ہیں۔ جو دیکھے اور دکھائے جا سکتے ہیں۔ ان زخموں کے نشان اَن گنت دلوں پر ہیں۔
دنیا بھر میں فطرت کے حسن کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ تاریخ کے آثار کی حفاظت کی جاتی ہے۔ مارگلہ تاریخ اور حسنِ فطرت کا منفرد امتزاج ہے۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے آثار یہاں پائے جاتے ہیں۔ پھرسرسبز وشاداب وادیاں ہیں۔ پہاڑ ہیں اور ان پر شریانوں کی طرح صاف پانی کی بہتی دھاریں ہیں۔ آبشا ریں اور جھرنے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ تاریخ اور فطرت کے ان مظاہر کو محفوظ کرے‘ جیسے ساری دنیا کرتی ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ یہ حسن اور تاریخ جس سرمایہ دارانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گئے‘ اس کے صدر مقام میں بھی ان کی حفاظت ہوتی ہے۔ لندن سے زیادہ مصروف شہر کون سا ہوگا؟ مرکزی لندن میں مگر کسی کو نجی عمارت میں بھی تبدیلی کی اجازت نہیں۔ وہاں ٹریفک کے اژدھام کا علاج سڑکوں کی وسعت میں نہیں تلاش کیا جاتا‘ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جاتا ہے تاکہ گاڑیوں کی تعداد کو کم رکھا جا سکے۔ ضرورت کیلئے الگ سے جنگل اگائے جاتے ہیں نہ کہ فطرت کے حسن پر ڈاکا ڈالا جا تا ہے۔ پھر یہ کہ شہروں کے پھیلاؤ کو روکا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں پہاڑ مسلسل کٹ رہے ہیں اور ان کی جگہ سیمنٹ کے نئے پہاڑ کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کو وسیع کرنے کیلئے انتہائی بدذوقی کے ساتھ پل بنائے گئے ہیں۔ اس سے شہر کا حسن تو برباد ہوا‘ ٹریفک کا مسئلہ بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اس شہر کی کوئی حد نہیں رہی۔ ایک طرف یہ ٹیکسلا سے جا ملاہے‘ دوسری طرف مری سے۔ تیسری طرف روات سے اور چوتھی طرف راولپنڈی سے۔ آدمی سر پیٹ کے رہ جاتا ہے کہ شاہراہ سرینگر جیسی شہر کی مرکزی گزرگاہ پر بسوں کا ڈپو بنا دیا گیا۔ اس شہر پہ یہ ستم ڈھانے والوں کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔ وجہ وہی ہے جو مولانا مودودی نے بیان کی تھی: جب باڑ خود ہی کھیت کو کھانے لگ جائے تو اسے برباد ہونے سے کون روک سکتا ہے؟
شہر میں فارم ہاؤس اس لیے دیے گئے تھے کہ یہاں اُگنے والے پھل اور سبزیاں شہر کے باسیوں کو دستیاب ہوں گی۔ یہاں اب بڑے بڑے محل کھڑے ہیں اور اہلِ شہر کو ان سے ایک سبز مرچ تک نہیں ملتی۔ انکلیو کے نام پر نئے ٹاؤن بن رہے ہیں۔ انکلیو کا لفظ ہی اپنی حرمت کھول چکا۔ اسلام آباد کو فطری حسن کے ایک مظہر کے بجائے کاسمو پولیٹن شہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسے دونوں کا امتزاج بنایا جا سکتا تھا مگر مطلوب اس کے ایک ایک انچ میں پوشیدہ سرمایے کو کشید کرنا ہے۔ پندرہ بیس برس میں اس شہر کا نقشہ اس طرح بدلا ہے کہ گویا اب یہ کسی نئے فاتح کے تصرف میں ہے اور وہ اس کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو فاتحین مفتوح سے کرتے ہیں۔
مزید ظلم یہ کہ شہر کی غلاظتیں راول ڈیم میں جمع ہو رہی ہیں اور یہ پانی یہاں کے مکینوں کو استعمال کیلئے دیا جا رہا ہے۔ کبھی دریائے سواں کا پانی نیلا ہوا کرتا تھا۔ برسوں سے اب یہ بہتی غلاظت کے سوا کچھ نہیں۔ اس موضوع پر ایک آدھ دن سینیٹ کی کمیٹی میں بات ہوئی‘ مگر یہاں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس غیر اہم مسئلے کو زیادہ طوالت دے۔ اسلام آباد کا پامال حسن حکومت کے ایجنڈے پر ہے نہ سول سوسائٹی کی ترجیحات میں کہیں اس کا گزر ہے۔ میڈیا میں بھی کم ہی زیرِ بحث آتا ہے۔ حکومت اور عوام دونوں اس لاپروائی میں شریک ہیں۔
شہر پر گزرجانے والے اس حادثے کو آصف محمود نے ایسے اسلوب میں بیان کیا ہے کہ اسے ادب بنا دیا ہے۔ یہ اس خطے کی تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ جہانگیر اس بستی کا داماد تھا۔ یہاں ایک مسجد ہے جو بارہ سو سال پہلے تعمیر ہوئی۔ یہاں کے جغرافیے کے بارے میں معلومات ہیں جن پر لاعلمی کا دبیز پردہ پڑا ہے۔ مارگلہ کی جڑی بوٹیوں کا ذکر ہے۔ اس کیلنڈر کا تذکرہ ہے جس میں برسات سے موسموں اور ماہ وسال کی آمد ورفت کا تعین ہوتا تھا۔ یہ فطرت کے اس حسن کا بیان ہے جسے آصف نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر لفظوں میں ڈھالا ہے۔ جنہوں نے نہیں دیکھا‘ وہ اسے جادونگر کی کہانی سمجھیں گے‘ افسانہ نگاری قرار دیں گے۔ جنہیں یہ دیکھنا نصیب ہوا‘ وہ پڑھیں گے اور آپ بیتی سمجھ کر آنسو بہائیں گے۔
مارگلہ جنگل کہانی کہنے کو متفرق کالموں کا مجموعہ ہے مگر ان کالموں میں ایک ان دیکھا ربط ہے جو انہیں ایک مسلسل تحریر بنا دیتا ہے۔ جیسے بہتے پانی کی ایک لہر جو بلندیوں سے اترتی‘ میدانوں میں خراماں خراماں قدم اٹھاتی‘ کسی چٹان سے ہم کلام ہوتی‘ آبشار میں ڈھلتی‘ کورنگ میں دوسری لہروں سے آ لپٹتی اور پھر دریائے سواں کا حصہ بن کر ان دیکھی راہوں پہ جا نکلتی ہے۔ یہ مسلسل بھی ہے اور فطرت کے گل ہائے رنگا رنگ کی انفرادیت کا بیان بھی۔ یا پھریہ متفرق تصاویر کا ایک مجموعہ ہے جو مل کر ایک منظر کو مکمل کر رہی ہے۔ ایک تصویر میں چیتا گھات لگائے ہے‘ دوسری میں لومڑی ندی سے پانی پی رہی ہے۔ تیسری میں کوئل ایک ٹہنی پہ بیٹھی ہے‘ چوتھی میں پہاڑ برف کی چادر اوڑھے ہیں۔ پانچویں میں بلندیوں سے اترتا پانی سورج کی تمازت سے چمک رہا ہے‘ چھٹی میں ہوا رنگ برنگے پھولوں سے اٹکھیلیاں کر رہی ہے۔ یہ تصویریں مل کر مارگلہ کی جنگل کہانی کو مکمل کر رہی ہیں۔
یہ ایک شہادت ہے جو تاریخ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ کبھی عدالت لگی تو یہ مجرموں کے خلاف فیصلہ کن گواہی ثابت ہو گی۔ اس وقت تک لوگ چاہیں تو اسے عَلم بنائیں اور سینہ کوبی کریں۔ چاہیں تو ادب سمجھ کر پڑھیں جیسے میر انیس کو پڑھتے ہیں۔
قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ؍ شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved