تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     22-12-2025

قیمتی سرمایہ

اپنا دیس ہی اپنا ہوتا ہے۔ یہ تو آپ ان سے پوچھیں جو روزی روٹی کے چکروں میں پردیسوں میں اپنی عمریں گنوا کر آخری سانسوں میں ٹھنڈی سانسیں بھر کے اپنے گاؤں‘ محلوں اور شہروں کو یاد کر کے دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ سب کا ایسا ہی حال ہے اور وہ وطن واپس آنے کے لیے تڑپ رہے ہیں‘ درست نہیں۔ اشارہ صرف ایک اقلیت کی طرف ہے جو دور دراز کے ملکوں میں ایک زمانے میں‘ ہمارے اندازوں کے مطابق‘ اکثریت ہوا کرتی تھی۔ بات پہلی نسل کے تارکینِ وطن کی ہو رہی ہے جو تعلیم اور روزگار کے لیے مغربی ممالک میں گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ جن سے ہماری ملاقاتیں نصف صدی قبل ہوا کرتی تھیں‘ میرے ذہن میں ان کا خیال ہے۔ رہتے وہ امریکہ کی کسی ریاست کے گاؤں اور شہر میں‘ جب ہمارے ساتھ ملاقات ہوتی تو باتیں وہ وطن کی‘ پرانے دوستوں کی‘ سکول کالج کے زمانے اور گاؤں کی کرتے ہیں۔ یہ جو گاؤں والے ہیں وہ کبھی اپنی کچی بستیوں‘ دال ساگ‘ سادہ تہواروں اور ماضی کی رونقوں کو نہیں بھولتے۔ شہر والوں کا شاید معاملہ کچھ مختلف ہو سکتا ہے کہ اب دنیا کے شہروں کی زندگی میں یکسانیت بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جلد ہی مانوس ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف رفتار اور طرزِ زندگی‘ نئی معاشی آسودگی اور سماجی آزادی کا ہے جو مغرب کے ممالک میں میسر آتی ہے۔ صرف اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا تیسری دنیا کے تمام ممالک سے مغرب کی طرف ہجرت میں سب سے زیادہ عمل دخل امن کے زمانوں میں معاشی طور پر اچھے مستقبل کا خواب رہا ہے۔ داخلی خانہ جنگیوں ‘ تشدد اور فساد سے بھی لوگ تنگ آ کر اپنا ملک‘ دنیا کے جس خطے میں بھی ہو‘ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا طبقہ ہمارے جیسے ملکوں کے خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتا ہے مگر مغرب میں سماجی آسودگی اور آزادیٔ اظہار رائے کے نظریات سے متاثر ہو کر وہاں رہنا پسند کرتا ہے۔
ہجرت کی کوئی وجہ نہیں‘ جتنے لوگ ہیں اتنی کہانیاں۔ ایک عرصہ سے یہ مضمون منظم علمی دھارے کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے ہم اپنی زبان میں ہجری مطالعات یا ڈائسپورا سٹڈیز کہتے ہیں۔ مہاجر لوگ ایک دو نسلوں تک تو اپنی زبان اور کسی حد تک ثقافت کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی اگلی نسلیں مقامی ثقافت کے گہرے رنگ میں رنگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تو دیکھتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق اپنی شناخت‘ حلیہ اور طرزِ تعلیم مقامی حلقوں میں قبولیت کی تمنا میں آناً فاناً تبدیل کر لیتے ہیں۔ زبان اگر تبدیل ہو جائے تو بہت کچھ تبدیل ہونا فطری امر ہے۔ زبان ہی تو دنیا کو دیکھنے‘ سمجھنے‘ تعلق جوڑنے اور اپنے نئے ماحول میں رہنے کا وسیلہ ہوتی ہے۔ ہجرت کا جبر سب کو نئی زبان سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بچوں کی بات بہت مختلف ہے کہ ان کا رشتہ اپنے آبائی ملکوں سے صرف اپنے والدین اور کچھ رشتوں تک ہی محدود ہوتا ہے۔ سکولوں میں جاتے ہی وہ دیگر بچوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ زبان‘ آداب‘ ثقافت اور اخلاقی رویے نئے ملک کے تعلیمی اداروں‘ اردگرد کے ماحول اور تفریحی ذرائع سے مرتب ہو جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی کٹھالی کی تپش کی شدت ہی اتنی ہے کہ سب کچھ پگھلا کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ امریکہ کی میلٹنگ پاٹ کی تھیوری دل فریب ہونے کے ساتھ غور طلب بھی ہے۔ اس کی دل فریبی یہ ہے کہ اس ابلتی تہذیبی کڑاہی میں دوسروں کا رنگ بھی کہیں نظر آئے گا مگر اس کی تہوں میں پہلے سے موجود گہرا رنگ سب کو جذب کرنے کی کرشماتی طاقت رکھتا ہے۔ اس خوف کے پیش نظر ایک نئی کشمکش کا آغاز نئے تارکینِ وطن کے اندر پیدا ہوتا ہے کہ کیسے اپنے مذہب‘ فرقے‘ قومیت‘ زبان اور ثقافت کو محفوظ کریں۔
یہ اپنا مشاہدہ ہے کہ جو ہندو‘ سکھ اور مسلمان اپنے وطن میں اپنے روزمرہ رویوں میں مذہبی نہیں تھے‘ امریکہ یا یورپ میں جا کر مذہبی شناخت خصوصاً بچوں میں پیدا کرنے پر زیادہ زور دینے لگے۔ گھروں میں بھی دیسی ماحول پیدا کرنے کے جتن شروع کیے مگر زبان اور ثقافت کا نیا تناؤ بہت سے خاندانوں کا ذہنی سکون برباد کر دیتا ہے۔ اپنی بچیوں کے لیے تو وہ زیادہ فکرمند اور حساس ہو جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ جوڑے اگر اوپر آسمانوں میں ہماری دیسی روایتوں کے مطابق بنتے ہیں تو پھر زمینی مخلوق کا تو کوئی سروکار نہیں رہتا۔ یہ زمینی مخلوق مغرب میں کچھ زیادہ اس بارے میں اپنی بچیوں پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ آپ کو کچھ المناک واقعات کا علم ہے‘ ان کا ذکر کر کے اپنا دل جلانے اور آپ کو افسردہ کرنے سے کیا حاصل۔ ان نادانوں کو اس بات کا ادراک کم ہی ہوتا ہے کہ ایک آزاد معاشرے میں آزادی کے علاوہ کسی اور قدر کا سکہ نہیں چلتا۔ اپنے دیس میں تارکینِ وطن کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی اور سماجی آزادی تھا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ سمندر پار کے ٹھنڈے ملکوں میں چلے گئے مگر وہاں اپنے بچوں کی سماجی آزادی سے پیدا ہونے والے کچھ مسائل‘ جو دراصل ان کی ذہنی افتاد کے تابع مسائل ہوتے ہیں‘ انہیں گھیر لیتے ہیں۔ پہلی نسل کی اکثریت کو دو تہذیبوں کے درمیان بکھرتے دیکھا ہے۔
ہمارے دیسی ممالک سے امریکہ میں رچ بس جانے والے کئی دوست ہیں جو کسی کشمکش کا شکار نہیں‘ وہاں خوش ہیں اور یہاں سب کشتیاں جلا کر وہاں کے ہو گئے ہیں۔ مغرب کے بارے میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ وہاں مذہبی آزادیاں ہمارے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں اگر آپ کو محسوس ہوتی ہیں تو وہ صرف غالب مذہبی فرقوں کے لیے ہیں۔ ذرا مذہبی اقلیتوں کی حالت اس خطے کے ممالک میں دیکھیں جہاں ان کی عبادت گاہوں‘ گھروں کو جلانا‘ انہیں قتل کرنا اور گھناؤنے مقدمات میں پھنسانا عام سی بات ہے۔ وہ جو ہمارے بانیٔ پاکستان نے کہا تھا کہ آپ اس ملک کے آزاد شہری ہیں‘ چاہیں تو مندر‘ گرجا گھر اور مسجد میں جائیں‘ جہاں چاہے آپ عبادت کریں‘ جو چاہے اپنی شناخت رکھیں‘ اس کی عملی شکل بڑی حد تک آپ صرف یورپ اور امریکہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہر مذہب اور قومیت کے لوگوں نے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت قائم رکھنے کے لیے اپنے ادارے بھی بنائے ہوئے ہیں۔ زبان وادب کی بھی کچھ لوگوں کو فکر رہتی ہے جس کے لیے کوئی ساختی نوعیت کی رکاوٹ نہیں۔ سیاست میں بھی اگر کوئی کمیونٹی منظم ہے تو اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکتی ہے۔ یہاں تو ہم جو ہیں‘ موروثیوں کے غلبے میں عاجزی کے سوا اور کیا سیاسی مقدر ہو سکتا ہے۔ وہاں تارکین میں سے زہران ممدانی اور صادق خان بھی بن سکتے ہیں۔ ہمیں تو اس بات سے کوئی دلچسپی ہے نہ سروکار کہ کون کہاں اور کیوں رہنا پسند کرتا ہے۔ ہم دیسی ہیں اور ہمیں اپنے دیس میں دریائے سندھ کا کنارا اور چھوٹے جنگل کا ایک کونا ہی اپنی دنیا بسانے کے لیے کافی ہے۔ دل میں ایک ٹھیس تو ضرور اٹھتی ہے کہ ہم آزاد معاشرہ‘ شہری آزادیاں اور میرٹ کی بنیاد پر نظامِ سیاست بناتے تو ہماری باصلاحیت نوجوان نسل تارکِ وطن نہ ہوتی۔ اب وہ اُڑ کر چلے گئے ہیں‘ اگر کبھی واپس آئیں گے بھی تو شاید ہم نہ ہوں گے۔ ان کی واپسی کا کوئی اور زمانہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved