تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-11-2013

ہمارے وزیر داخلہ کی خارجہ پالیسی

ہمارے وزیر داخلہ‘ خارجہ پالیسی کو جو نیا رخ دے رہے ہیں اگر ہم نے اسے اختیار کر لیا‘ تو کیسی صورتحال میں داخل ہونا پڑے گا؟ ہماری معیشت اس وقت قومی تاریخ کی بدترین حالت میں ہے۔ بیرونی تجارت میں خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور برآمدات میں اضافے کے لئے وسائل بڑھنے کے بجائے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری صنعتوں کی طرح برآمدی صنعتیں بھی بند ہو رہی ہیں یا لوڈشیڈنگ کے باعث ان کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے اور جو تھوڑا بہت سامان برآمد کے لئے کراچی پورٹ پر جاتا ہے‘ اسے جہازوں تک پہنچانے میں رکاوٹیں پڑتی رہتی ہیں۔ گزشتہ چند روز ٹرانسپورٹرز کی جو ہڑتال ہوئی‘ اس میں برآمد ہونے والا بہت سا سامان پورٹ پر ہی پڑا رہ گیا۔ آج بھی ہزاروں کنٹینر کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے کھڑے ہیں۔ جو سبزیاں اور پھل تھے‘ گل سڑ گئے اور جو خشک مال تھا‘ وہ ڈلیوری کی تاریخ نکل جانے کے باعث وقت پر خریدار تک پہنچ نہ سکا اور بہت سے آرڈرز بروقت عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے متنازعہ ہو گئے اور ہم زرمبادلہ کی اچھی خاصی آمدنی سے محروم رہے۔ کئی سالوں سے زرمبادلہ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ وہ ترسیلات ہیں‘ جو بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی برآمدی صنعت‘ ٹیکسٹائل کا شعبہ بحران کا شکار ہے۔ اس کے بڑے مرکز فیصل آباد میں پیداواری عمل جس بری طرح سے متاثر ہوا‘ اس کی خبریں آپ ٹیلیویژن اور اخبارات میں دیکھ چکے ہوں گے۔ وہاں لوڈشیڈنگ نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بری طرح سے متاثر کیا۔ وہاں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں مزدوروں اور پاور لومز کے مالکوں کی شدت جذبات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کے کارخانے کیسے برے حالات سے دوچار ہیں۔ 
اگر ہمیں قرضوں اور امداد کی صورت میں زرمبادلہ حاصل نہ ہو‘ تو ہم دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ زرمبادلہ کے حصول میں امریکہ ہمارا سب سے بڑا مددگار ہے۔ وہ خود بھی مختلف مدات میں ہمیں مالی فائدہ پہنچاتا ہے اور ہم جہاں سے قرضے حاصل کرتے ہیں‘ وہ تمام ادارے بھی امریکہ ہی کے زیراثر ہیں۔ ان اداروں میں سب سے بڑا حصے دار ہونے کی وجہ سے‘ انتظامی امور پر امریکہ کا غلبہ ہے اور جب تک وہ کسی ڈیل کے حق میں رائے نہ دے‘ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک‘ آئی ایم ایف‘ یہی وہ بڑے ادارے ہیں‘ جہاں سے پاکستان کو مختلف صورتوں میں مالی امداد ملتی ہے۔ جاپان اور یورپی ملکوں سے ہمیں جو گرانٹس اور قرضے ملتے ہیں‘ ان کے لئے بھی امریکہ کی خوشنودی درکار ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ سارے ملک‘ امریکہ کے حلیف ہی نہیں‘ حصے دار بھی ہیں۔ جس طرح سے ہمارے وزیر داخلہ‘ خارجہ پالیسی میں جارحانہ انداز داخل کر رہے ہیں‘ اس سے پاک امریکہ تعلقات میں تلخی اور محاذ آرائی کا عنصر نمایاں ہونے کا اندیشہ ہے۔ آج بھی یہ تعلقات خوشگوار نہیں بلکہ ماضی کے ملبے کے سبب شدید دبائو میں آئے ہوئے ہیں۔ بدگمانیوں کی ایک طویل فہرست‘ اچھے تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔ جن عناصر نے باہمی بدگمانی کی فضا پیدا کی تھی‘ وہ آج بھی موثر ہیں اور ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی۔ 
نئے حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان انتہائی تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے کی بھرپور کوشش کرے اور ایسا کرنے کے لئے اسے‘ ان تمام وجوہ کی چھان بین کرنا ہو گی جو دوطرفہ تعلقات کو موجودہ حالت میں لائی ہیں۔ نئی حکومت نے خواہشوں کی حد تک تعلقات میں بہتری کی امیدیں دلائی ہیں‘ لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ورنہ ابھی تک نئی حکومت کو اپنے ماہرین کے ذریعے جائزے اور تجزیئے مکمل کر لینا چاہئیں تھے اور ان رکاوٹوں کی نشاندہی کر لینا چاہیے تھی‘ جو خوشگوار دوطرفہ تعلقات کی راہ میں حائل ہیں۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی کے بارے میں دونوں ملکوں کے تصورات ہیں۔ امریکہ دہشت گردوں کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اور ہم اپنے انداز میں اور ہم دونوں ہی اس سوال پر ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر کھڑے ہیں۔ جن جنگجوئوں کو ہم مستقبل کے افغانستان میں اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں‘ امریکہ انہیں اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ کافی عرصے تک امریکہ نے ہماری وجہ سے پاکستان میں حقانی گروپ کے ٹھکانوں کو ہدف نہیں بنایا تھا۔ لیکن گزشتہ روز کہے سنے اور لکھے پڑھے بغیر حقانی گروپ پر پاکستان کے اندر جو امریکی حملے بند چلے آ رہے تھے‘ اب شروع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک حملہ اسلام آباد اور دوسرا ہنگو میں کیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوئے۔ ایک پاک افغان سرحد کے نزدیک اور ایک ہمارے دارالحکومت کے اندر۔ 
اس وقت خطے کے تمام ملک 2014ء کی صورتحال کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں۔ سب کی نظر اس پر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی‘ افغانستان سے انخلا کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں؟ افغانستان میں حامد کرزئی کی جگہ آنے والے نئے حکمرانوں کے ساتھ ‘ امریکیوں کی کیا انڈرسٹینڈنگ ہوتی ہے؟ آئندہ کے لئے سکیورٹی کے نئے 10 سالہ معاہدے کا جو مسودہ تیار ہو رہا ہے‘ اس کے مطابق امریکہ‘ افغانستان میں 15000 فوج رکھے گا۔ یہ فوج جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے گی بلکہ افغان سکیورٹی فورسز کو رہنمائی فراہم کرے گی‘ جس میں جدیدترین ٹیکنالوجی کے تمام ذرائع استعمال ہوں گے۔ امریکی فوج کے تکنیکی ماہرین‘ جدید آلات کو استعمال کرتے ہوئے‘ افغان سکیورٹی فورسز کو معلومات اور رہنمائی مہیا کریں گے اور افغان فوجی میدان جنگ میں اس کے مطابق کارروائیاں کریں گے۔ موجودہ افغان حکومت کی کرپشن اور نااہلی کے بارے میں بہت سی کہانیاں چل رہی ہیں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نئی افغان حکومت میں شریک اور اس کی حمایت کرنے والوں کے مفادات یکساں ہو جائیں گے اور وہ باہمی اختلافات کے باوجود اپنے مشترکہ مفادات کے مخالفین یعنی طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے اکٹھے ہو کر لڑیں گے۔ طالبان کے لئے حکومت پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا‘ جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن منظرنامہ جو بھی بنا‘ اس میں جنگ کا شدید ہونا اغلب ہے۔ افغانستان کے اندر اس جنگ کے دو ہی بڑے فریق ہوں گے۔ ایک امریکی امداد کے ساتھ لڑنے والے حکمران طبقے اور اتحادی اور دوسرے طالبان۔ یہ امکان بھی واضح ہے کہ اس متوقع جنگ کا جغرافیائی نقشہ شمالی اور جنوبی افغانستان کی صورت میں ابھرے گا۔ پاکستان‘ ابھی تک مستقبل کے افغانستان کی روشنی میں اپنے لئے کوئی واضح راستہ منتخب نہیں کر سکا اور اگر ہم راستہ منتخب نہیں کریں گے‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم دونوں برسرجنگ فریقوں میں سے کسی ایک کا اعتماد بھی حاصل نہیں کر پائیں گے اور ایسی صورت میں کیا ہوتا ہے؟ مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ 
ابھی تک ہمارے فیصلہ ساز اور سٹریٹجک ماہرین اسی خیال میں بیٹھے ہیں کہ افغان طالبان‘ ہمارے اتحادی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت ملا فضل اللہ کے پاس جانے کے بعد بھی اگر ہم اس خیال میں ہیں‘ تو بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ ملا فضل اللہ‘ ٹی ٹی پی کے سرکردہ لیڈروں کا اپنا انتخاب نہیں۔ اس کی امارت ملا عمر نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فضل اللہ کو دلوائی ہے۔ آگے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں۔ ملا عمر کی مستقبل کی پالیسیوں کا اندازہ کرنا ہو‘ تو یہی ایک فیصلہ سارا نقشہ واضح کر دیتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ہمیں ابھی تک یہی پتہ نہیں کہ افغانستان کی آئندہ لڑائی میں ہمیں کس سے مقابلہ کرنا ہو گا؟ امریکہ سے یا افغان اور پاکستانی طالبان سے؟ ہمارے وزیر داخلہ ‘ امریکہ کو للکار رہے ہیں اور ملا عمر کے اتحادی پاکستانی طالبان‘ ہمیں للکار رہے ہیں۔ تو کیا ہم ان دونوں کا ہدف بننے والے ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک فریق کا ساتھ دینے میں اپنا فائدہ دیکھیں گے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم نے امکانات پر ابھی توجہ ہی نہیں دی۔ تو کیا ہم آنے والے حالات کی لہروں میں بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو بہتے ہوئے دیکھیں گے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved