تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     22-12-2025

شکر گزاری

انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت: 34 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ رحمن میں بھی بہ تکرار انسانوں اور جنوں کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ''پس (اے گروہِ جن و انسان) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے شمار اور اَن گنت ہیں۔ اگر انسان اپنے وجود پہ غور کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو دیکھنے والی آنکھ‘ سننے والے کان‘ دھڑکتا ہوا دل‘ سوچنے والا دماغ‘ پکڑنے والے ہاتھ‘ چلنے والے قدم‘ جذبات‘ احساسات‘ شعور وادراک اور دیگر بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ خارج میں اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کیا جائے تو محبت کرنے والے والدین‘ بہن بھائی اور بیوی‘ آنکھوں کی ٹھنڈک اولاد‘ دلی وابستگی رکھنے والے دوست احباب‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والا رزق اور امن و عافیت‘ یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ اگر انسان ان نعمتوں پہ ٹھنڈے دل سے غور کرے تو ہر ایک نعمت اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہم ہے؛ چنانچہ انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شکر کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار کرے اور کلماتِ شکر کو اپنی زبان سے ادا کرے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعضا اور جوارح کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں استعمال کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا صحیح طور پر شکر ادا ہو سکے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایسی اقوام کا ذکر کیا جو ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور گرفت کا نشانہ بنیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نحل کی آیت: 112 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آ رہی تھی۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ سباء میں بھی بڑی تفصیل کے ساتھ سباء کی بستی کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی وجہ سے اللہ کے غضب کا نشانہ بنی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ سباء کی آیات: 15 تا 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''قوم سبا کے لیے (ان کی) اپنی بستیوں میں (قدرتِ الٰہی کی) نشانی تھی‘ ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھائو اور اس کا شکر ادا کرو‘ یہ عمدہ شہر (ہے) اور وہ بخشنے والا رب ہے۔ لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے (ہرے بھرے) باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیے جو بدمزہ میووں والے اور (بکثرت) جھائو اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔ ہم نے ان کی ناشکری کا یہ بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیتے ہیں۔ اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان‘ جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی‘ چند بستیاں اور (آباد کر) رکھی تھیں جو برسر راہ ظاہر تھیں‘ اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کر دی تھیں‘ ان میں راتوں اور دنوں کو بہ امن وامان چلتے پھرتے رہو۔ لیکن انہوں نے پھر کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کر دے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لیے ہم نے انہیں (گزشتہ) فسانوں کی صورت میں کر دیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیے۔ بلاشبہ ہر ایک صبر وشکر کرنے والے کے لیے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں‘‘۔ یہ واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کے کاموں سے ہر صورت اعراض کرنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت سے بچا جا سکے۔ اللہ تبارک و تعالی نے اسی حقیقت کو سورۃ الانفال کی آیت: 53 میں کچھ یوں بیان فرمایا: ''اللہ ہرگز اس نعمت کو نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو دی ہو‘ جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدلیں‘‘۔ دوسری جانب اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ لوگ جو ایمان اور شکر گزاری کے راستے پر رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اُن پر گرفت نہیں فرماتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 147 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا‘ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو‘ اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے‘‘۔
اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے تو نعمتوں کو دوام اور تسلسل حاصل ہوتا ہے اور انسان دنیا وآخرت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعامات کا حقدار بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت: 7 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ خوشحالی اور صحت کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کا گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہر چھوٹی بڑی نعمت کا شکر ادا کرتے‘ زبان سے شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی حمد کو بیان کرتے‘ مصائب اور تکالیف کے دوران بھی اس کی تعریف اور شکر کے راستے کو نہیں چھوڑتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت ابوسنان سے روایت ہے کہ میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا اور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیر پر بیٹھے تھے‘ جب میں نے (قبر سے باہر) نکلنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ابوسنان! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ضرور دیجیے‘ تو انہوں نے کہا: مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ تو وہ کہتے ہیں: ہاں! پھر فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں! تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: اس نے تیری حمد بیان کی اور انا للہ وانا الیہٖ راجعون پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو‘‘۔
جب ہم نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ جب بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو کسی نعمت سے نوازتا ‘ وہ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد کرتے اور ابتلائوں اور آزمائشوں کے دوران بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد کو جاری رکھا کرتے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو بہت سی ایسی دعائیں سکھائی ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے۔ کھانا کھانے‘ نیا لباس پہننے اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر پڑھی جانے والی دعائوں میں بالخصوص اللہ کی حمد کا ذکر ہے؛ چنانچہ ہمیں تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد اور اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے لوگوں میں شامل فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved