اخبار پڑھنے کی عادت شاید باقی بچ جانے والی عادتوں میں سب سے پرانی ہے۔ گھر میں آنیوالے اخبارات سے بچپن میں ہی اچھے تعلقات استوار ہو گئے۔ پہلے پہل اخبار کے بچوں کے ایڈیشن میں چھپنے والی چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور کراچی سے چھپ کر دوپہر کو ملتان پہنچنے والے ایک قومی اخبار میں ٹارزن کی باتصویر قسط وار داستان سے شروع ہونیوالا تعلق وقت کیساتھ ساتھ خبروں سے جڑ گیا اور پھر یہ عادت علت میں بدل گئی۔ اب ملتان میں صبح سب سے پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ فجر کے بعد دروازے سے تین چار اخبار اٹھاتا ہوں‘ واپس کمرے تک آتے ہوئے ایک آدھ سرخی دیکھتا ہوں اور اخبارات میز پر رکھ کر دوبارہ سو جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھ کر باورچی خانے جاتا ہوں‘اپنا طے شدہ سادہ سا ناشتہ بناتا ہوں اور پھر اخبارات اور ناشتے سے لطف لیتا ہوں۔ امریکہ میں حسبِ عادت مجھے اپنے پاکستان والے کاغذی اخبار تو میسر نہیں لہٰذا میں صبح سویرے خبریں پڑھنے کا اپنا قدیمی ٹھرک پورا کرنے کیلئے نیٹ پر اخبارات دیکھتا رہتا ہوں۔ نیٹ پر اخبار پڑھنا اگرچہ مجھے پسند نہیں مگر مجبوری سب کچھ کروا لیتی ہے۔ ایک عرصہ سے مسلسل مائل بہ خرابی حالات دیکھ دیکھ کر اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر کچھ بہت ہی زیادہ اچھا ہوا تو یہ کہ ملک اسی طرح حسبِ سابق چل رہا ہو گا یعنی کوئی مزید خرابی نہیں ہوئی ہو گی۔ اس سلسلے میں ایک انگریزی محاورہ ''No news is good news‘‘ اپنی پوری آب وتاب اور سچائی کے ساتھ یاد آتا ہے۔ یقین کریں دیارِ غیر میں اب تو یہ جان کر بھی خوشی ہوتی ہے کہ الحمدللہ ملک ویسا بے ڈھنگا ہی چل رہا ہے جیسا چھوڑ کر آئے تھے۔ دلاور فگار مرحوم نے ایک مصرعے میں ہمارا سارا ملکی منظر نامہ بیان کر دیا کہ ''حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے‘‘۔
چند روز قبل یہ خبر پڑھی کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز وانسانی حقوق میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے نے انتہائی قابل اور محنتی ارکانِ کمیٹی کو بتایا کہ ایف آئی اے کے اقدامات کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ بین الاقوامی رینکنگ میں 118ویں سے 92ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ پاسپورٹ کی بین الاقوامی رینکنگ میں اس بہتری کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ارکانِ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سالِ رواں میں سعودی عرب نے 24ہزار‘ یو اے ای نے چھ ہزار اور آذربائیجان نے 2500 پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے جرم میں ڈی پورٹ کیا۔ مزید یہ کہ اس سال 24 ہزار پاکستانی کمبوڈیا گئے جن میں سے 12ہزار واپس نہیں آئے۔ چار ہزار پاکستانی سیاحتی ویزے پر میانمار (برما) گئے اور ان میں سے 2500واپس نہیں آئے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف آئی اے نے ایئرپورٹس پر سختی کرتے ہوئے 51ہزار پاکستانیوں کو طیاروں سے آف لوڈ کیا جس سے پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں بہتری آئی اور اب پاکستانی پاسپورٹ اپنی خراب رینکنگ میں 26درجے بہتری کے ساتھ 118ویں سے 92ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ خبر کے متن میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ اس تفصیل پر قائمہ کمیٹی کے ارکان نے کیا سوال وجواب کیے اور رینکنگ میں اس بہتری پر کیا پُرمغز تبصرہ کیا اور کیا رائے زنی کی۔ تاہم مجھے گمان ہے کہ اکثر ارکانِ قائمہ کمیٹی کو شاید علم ہی نہیں کہ عالمی سطح پر پاسپورٹ رینکنگ کس طرح طے کی جاتی ہے اور اس میں بہتری کے کیا لوازمات ہیں۔
دنیا بھر میں پاسپورٹ کی رینکنگ جاری کرنے والے کئی ادارے ہیں اور وہ اپنے اپنے حساب سے یہ رینکنگ جاری کرتے ہیں۔ تاہم ایک بات جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ تقریباً سبھی ادارے اپنی جاری کردہ رینکنگ کیساتھ اسکا حسابی فارمولا اور اس سے متعلقہ ساری معلومات اور اعداد وشمار بھی جاری کرتے ہیں۔ ان ساری معلومات اور اعداد وشمار میں کم از کم اس عاجز کے علم کی حد تک فقیروں کی بے دخلی اور مسافروں کی آف لوڈنگ کا رینکنگ میں بہتری یا تنزلی سے کوئی تعلق نہیں۔ عالمی سطح پر پاسپورٹ کی رینکنگ کا بنیادی معیار تین چیزیں ہیں۔ پہلی یہ کہ متعلقہ ملک کے پاسپورٹ پر آپ کتنے ممالک میں بغیر ویزہ لیے جا سکتے ہیں۔ یعنی اُس ملک کے لوگ کتنے ممالک میں ویزہ فری داخل ہو سکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ کتنے ممالک میں آپ کو ''ویزہ آن آرائیول‘‘ یعنی وہاں اترنے کے بعد ایئرپورٹ پر ہی فوراً ویزہ مل جاتا ہے اور تیسری یہ کہ آپ کو کتنے ممالک میں داخل ہونے کیلئے ویزہ درکار ہے۔ پہلی اور دوسری کیٹیگری جتنی بڑھتی جائے گی تیسری کیٹیگری اسی حساب سے کم ہوتی جائے گی اور رینکنگ بہتری کی طرف چلی جائے گی۔ اس کے مقابلے میں پہلی اور دوسری کیٹیگری کی تعداد جیسے جیسے کم ہو گی تیسری کیٹیگری کی تعداد بڑھ جائے گی اور آپ کی رینکنگ نیچے آتی جائے گی۔
دنیا بھر میں اس رینکنگ کیلئے سب سے معتبر ادارہ ''ہینلے اینڈ پارٹنرز‘‘ سمجھا جاتا ہے‘ جس کی تازہ ترین رینکنگ کے مطابق پاکستان کی فی الوقت 102ویں پوزیشن ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کا اس رینکنگ میں 101واں نمبر تھا‘ یعنی اس سال مزید ایک درجہ تنزلی ہوئی ہے۔ فی الوقت پاکستان کے پاسپورٹ پر آپ 33 ممالک میں بغیر ویزہ‘ ویزہ آن آرائیول یا الیکٹرانک ٹریول آتھرائزیشن (ETA) کے تحت جا سکتے ہیں۔ اب یہ ممالک کون سے ہیں ذرا اس پر نظر دوڑا لیں۔ بغیر ویزہ داخلے والے گیارہ ممالک ہیں جن میں بارباڈوس‘ ڈومینیکا‘ ہیٹی‘ مائیکرونیشیا‘ سینٹ ونسنٹ‘ گیمبیا‘ کک آئی لینڈ‘ مونٹ سپراٹ‘ روانڈا‘ ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو اور وانواٹو شامل ہیں۔ ویزہ آن ارائیول والے بیس ممالک میں برونڈی‘ کمبوڈیا‘ کیپ ورڈے آئی لینڈ‘ کومورو آئی لینڈ‘ جبوتی‘ گنی بسائو‘ مڈغاسکر‘ مالدیپ‘ موزمبیق‘ نیپال‘ قطر‘ نیوو‘ پالائو‘ سامووا‘ سیشلز‘ سیر الیون‘ سنیگال‘ صومالیہ‘ تیمور لیستے اور ٹووالو شامل ہیں جبکہ ETA والے ممالک میں سری لنکا اور کینیا ہیں۔ امید ہے آپ نے ان میں سے بیشتر کا کبھی نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ یاد رہے کہ پہلے نمبر پر آنے والا پاسپورٹ سنگاپور کا ہے جس پر آپ 193ممالک میں پیشگی ویزہ کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ مختلف اداروں کی جاری کردہ رینکنگ میں شامل ممالک کی تعداد اور رینکنگ میں انیس بیس کا فرق ہو سکتا ہے تاہم یہ محض دو چار درجے اوپر نیچے ہوتا ہے۔ تمام اداروں کی رینکنگ میں یہ بات قابلِ ذکر نہیں کہ پاکستان کا اوپر سے کون سا نمبر ہے‘ دیکھنے والی اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کا اس رینکنگ میں نیچے سے کون سا نمبر ہے۔ تو دل تھام کر سنیں کہ پاکستان کا اس رینکنگ میں نیچے سے کہیں پانچواں اور کہیں چھٹا نمبر ہے۔ پاکستان سے نیچے والے درجے پر افغانستان‘ صومالیہ‘ عراق‘ شام اور کہیں یمن شامل ہے۔ میں نے اس خبر کے بعد رینکنگ جاری کرنے والے تین چار معتبر ترین اداروں کی تازہ ترین فہرستیں دیکھیں اور ان میں سے کسی ایک ادارے کی فہرست میں بھی پاکستان کی چھبیس درجے بہتری تو رہی ایک طرف‘ چھ درجے بہتری بھی دکھائی نہیں دی۔
اگر 51 ہزار مسافروں کے آف لوڈ کرنے سے 26 درجے کی بہتری آئی ہے تو اس حساب کی رو سے 1961 مسافروں کو آف لوڈ کرنے سے ایک درجہ بہتری آتی ہے۔ اگر رینکنگ میں بہتری کا یہی فارمولا ہے تو اس طرح 1 لاکھ 98 ہزار 116 مسافروں کو آف لوڈ کرکے پاکستان کو102ویں نمبر سے اٹھا کر پہلے نمبر پر لایا جا سکتا ہے۔ بھلا پچیس کروڑ آبادی والے پاکستان میں ڈیڑھ دو لاکھ مسافروں کی کیا اہمیت ہے ؟میری سرکار اور قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز سے درخواست ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلے میں فوری احکامات جاری کرتے ہوئے اگلے چند روز میں دو لاکھ کے لگ بھگ مسافر آف لوڈ کر کے ملک کے پاسپورٹ کی عزت وآبرو میں اضافہ فرمایا جائے۔ یہ مسافر بھی اس باعزت سٹیٹس کو انجوائے کرنے کیلئے بے چین ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved