تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     23-12-2025

ٹی ٹی پی میں افغان باشندوں کی شمولیت

کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور اپنی جغرافیائی حدود کی نگہبانی ہوتی ہے۔ پاکستان کی قیادت اب یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اپنی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور اپنے شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ دشمن جس شکل میں بھی آئے گا‘ سکیورٹی فورسز اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گی۔ ماضی میں ایسی دو ٹوک اور ٹھوس پالیسی نہ بن سکی نتیجتاً شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں باقی رہی۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے‘ اور آج ہمیں دہشت گردی کی نئی اور پیچیدہ لہر کا سامنا ہے۔ یہ لہر محض داخلی انتہا پسندی تک محدود نہیں بلکہ اس کے تانے بانے سرحد پار سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ مسلح گروہ جسے کبھی ٹی ٹی پی کے نام سے ایک مقامی خطرہ سمجھا جاتا تھا‘ اب ایک ایسے بین الاقوامی نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں افغان باشندوں کی شمولیت اور بھارتی سرپرستی نے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کمزور نہیں ہیں کہ شدت پسند عناصر کے سامنے کسی مصلحت کا شکار ہو جائیں۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا مجموعہ ہے‘ جنہوں نے افغان جہاد کے دوران افغان طالبان کا ساتھ دیا اور بعد ازاں پاکستان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے‘ تاہم حالیہ شواہد اور سکیورٹی اداروں کی تحقیقات نے اس تاثر کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب یہ محض پاکستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا گروہ نہیں رہا بلکہ اس میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہو چکی ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے متعدد ایسے افغان دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے اعترافی بیانات میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ افغان سرزمین سے آپریٹ کر رہے ہیں اور انہیں وہاں پناہ گاہیں میسر ہیں۔ یہ انکشاف اس امر کو تقویت دیتا ہے کہ ٹی ٹی پی اب ایک مشترکہ پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں افغان مسلح گروہ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مل کر پاکستان کی سلامتی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ قومی علما و مشائخ کانفرنس میں چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا کہ پاکستان میں دراندازی کرنے والے دہشت گردوں میں 70فیصد تک افغان باشندے شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ افغان عبوری حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے برملا کہا کہ ان دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہی گروہ ہیں جو دین کی غلط تشریح کر کے زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ بیان پاکستان کی اس پالیسی کا عکاس ہے کہ اب مصلحت پسندی کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ریاست اپنی بقا کیلئے ہر حد تک جائے گی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ایک تاثر ابھرا تھا کہ شاید اب خطے میں امن قائم ہو جائے گا۔ اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے ٹی ٹی پی کے حوالے سے ایک نرم گوشہ اپنایا اور انہیں قبائلی اضلاع میں دوبارہ آباد کرنے کا منصوبہ بنایا‘ تاہم ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے اس خطرناک منصوبے کو عوامی اور ادارہ جاتی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب یہ منصوبہ عملی شکل اختیار نہ کر سکا تو ٹی ٹی پی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں تیزی دراصل اسی ناکام منصوبے کا ردِعمل ہے۔ وہ دباؤ بڑھا کر ریاست کو اپنی شرائط پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ خیبرپختونخوا کے اضلاع میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں دوبارہ قائم کر سکیں لیکن سکیورٹی فورسز نے واضح کر دیا ہے کہ اب کسی بھی مسلح گروہ کو ملک کے کسی حصے میں متوازی نظام چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ افغان باشندے ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کیوں کر رہے ہیں؟ کیا یہ کسی بھی ملک کی اندرونی خودمختاری میں کھلی مداخلت نہیں؟ بین الاقوامی قوانین کے تحت کوئی بھی ریاست اپنی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ افغان قیادت کا یہ دعویٰ کہ وہ اس صورتحال سے لاعلم ہیں‘ عقل سے بالا تر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہزاروں مسلح افراد سرحد عبور کریں‘ پاکستان میں حملے کریں اور واپس افغان سرزمین پر پناہ لیں اور کابل انتظامیہ کو خبر نہ ہو؟ یہ لیت و لعل کی پالیسی پاکستان کے ساتھ دوستی کے دعوؤں کی نفی ہے۔ پاکستان نے کابل حکومت پر بارہا زور دیا ہے کہ وہ عملی اقدامات کرے۔ اس کے باوجود جب افغان قیادت نے پاکستان کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیا تو اب پاکستان نے اپنے طور پر دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان طالبان پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے ثالثی کی کوششیں بھی اس لیے کامیاب نہیں ہو پا رہیں کیونکہ افغان حکومت اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتی ہے۔ اسی تناؤ کے باعث پاک افغان بارڈر پر تجارت معطل ہونے سے دونوں ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ لیکن پاکستان کیلئے قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ جب تک کابل اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا‘ تجارت اور سفارت کاری کا معمول پر آنا مشکل نظر آتا ہے۔
دہشت گرد گروہوں نے اپنی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کیلئے قرض چکانے کی ایک نئی منطق گھڑ رکھی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کا ساتھ دیا تھا اس لیے اب افغان طالبان ان کا ساتھ دے کر وہ قرض اتار رہے ہیں۔ یہ سراسر غیراسلامی اور خود ساختہ تعبیر ہے۔ قرآن کریم میں ایسے ہی گروہوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ 11)
یہ دہشت گرد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دراصل دشمن کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ بے گناہ شہریوں کا خون بہانا‘ مساجد اور سکولوں کو نشانہ بنانا اور ملک میں افراتفری پھیلانا کسی بھی صورت جہاد یا اصلاح کے زمرے میں نہیں آتا‘ یہ خالصتاً فتنہ اور فساد فی الارض ہے۔
پاکستان اب محض مدافعت کی پالیسی ترک کرکے مضبوط دفاع کی حکمتِ عملی اپنا چکا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز کا دوٹوک پیغام ہے کہ دشمن جہاں سے بھی سر اٹھائے گا‘ وہیں اسے کچل دیا جائے گا۔ اب نہ تو دہشت گردوں کیلئے کوئی رعایت ہے اور نہ ہی سرحد کے کسی بھی طرف موجود ان کے سہولت کاروں کیلئے کوئی جائے پناہ باقی بچی ہے۔ کسی مخصوص علاقے میں ماضی کی طرح آپریشن کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشنز جاری ہیں‘ ہماری سکیورٹی فورسز کو گوریلا جنگجوؤں کا مقابلہ کرتے دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے‘ اپنی صفوں میں چھپے دشمن سے کیسے نمٹنا ہے‘ یہ ہماری فورسز بخوبی جانتی ہیں‘ تاہم دہشت گردی کا یہ چیلنج صرف عسکری نہیں بلکہ فکری بھی ہے اس لیے ہمیں ایک ایسے قومی بیانیے کی ضرورت ہے جو دہشت گردوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کو بے نقاب کر سکے۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دہشت گردی کا سانپ اگر پاکستان کو ڈس رہا ہے تو وہ ان کیلئے بھی کبھی دوست ثابت نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved