یہ ملک سیاسی پیداوار تھا یعنی ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ لیکن 78 سال میں سیاست کا یہاں سے جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ کمال مہارت سے سیاست یہاں ختم کر دی گئی‘ پیچھے رہ گئی ہے مدح سرائی اور بات بات پر تعظیم بجا لانا ۔ اس میں ماننا پڑے گا کہ (ن) لیگ کے کارندے‘ ہرکارے اور معتبر رہنما نمبر لے گئے ہیں۔ تالیاں بجانے اور واہ واہ کرنے والے پہلے بھی بہت آئے‘ ایوب کے زمانے میں‘ ضیا اور مشرف کے زمانے میں‘ لیکن ماضی کے تمام فنکار اور اداکاروں کو (ن) لیگ اور اس کی مایہ ناز قیادت پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ ان کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ سیاست کا جب یہ حال ہو جائے تو سیاست کی پھر بات کیا کرنی۔ اب تو ایک ہی کریکٹر سرٹیفکیٹ رہ گیا ہے جس کا نام ہے فارم 47۔ یہی مستند ذریعہ اسمبلیوں میں آنے کا رہ گیا ہے اور جیسا کہ منصوبہ بندی اور ارادے ہیں تو آئندہ کے انتخابات میں بھی یہی آزمودہ سند مانی جائے گی۔ یعنی بخشش کا یہی آزمودہ طریقہ اب رہ گیا ہے۔ تو سیاست کے بارے میں سر کھپانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
معیشت کی کیا بات کی جائے کیونکہ اب حالت یہ ہے کہ پاکستان میں کمائی گئی آمدنی سے باہر کسی ملک کا دورہ ناممکن ہو گیا ہے۔ عرصہ ہوا باہر کہیں نہیں گئے۔ دوست احباب ہیں‘ کہتے ہیں انگلینڈ کے وزٹ پر آؤ‘ ہمت نہیں ہوتی یہ کہنے کی کہ حضور ٹکٹ بھیجیں گے اور ساتھ کچھ خرچہ بھی تو وہاں کے سفر کا سوچ لیا جائے گا۔ فیس بک پر جاپان کی ایک عدد دوستی بنی ہے‘ بھرپور دل سے تو نہیں آدھے دل سے وہاں آنے کا کہا بھی گیا ہے لیکن حساب لگایا تو یاری کے تقاضے پورے کرنے کیلئے کم از کم پچاس لاکھ جیب میں ہوں تو جاپان کا سفر اور اُس سے جڑے لوازمات پورے ہو سکیں۔ لیکن مسئلہ وہی کہ نو من تیل کیسے اکٹھا ہو کہ رادھا کو ناچ کیلئے تیار کیا جائے۔ لہٰذا اس عزت سے فارغ روپے کے ساتھ یہیں رہنا بہتر ہے۔ سیہون اور بھٹ شاہ کا ارادہ باندھنا اچھا ہو گا۔ درباروں پر حاضری ہو جائے‘ لعل شہباز اور شاہ عبداللطیف کے کلام سننے کا موقع ملے یہی بھلا لگے گا۔ سیہون کی دعوت ہے لیکن ارادہ باندھنے کا مسئلہ ہے۔ شاموں کو خیال نازل ہوں تو ارادے بہت بنتے ہیں لیکن پھر یہیں وقت گزر جاتا ہے۔ ویسے بھی اپنے گاؤں بھگوال میں شب ڈھلے کیکر اور پھلاہی کی آگ جلتی ہے تو آگ کے شعلوں میں ہی خیال گم ہو جاتے ہیں۔ پھر وہیں بیٹھے بیٹھے سیہون اور بھٹ شاہ کی سیر ہو جاتی ہے اور جاپان کے نظارے بھی سامنے آ جاتے ہیں۔
سردیاں کیا رہ گئیں‘ موسموں کے تغیر نے یہاں کی سردیوں کو برباد ہی کر دیا ہے۔ جیسا اس بار دیکھ رہے ہیں سردی دیر سے پڑی اور پڑی بھی تو وہ بات نہیں جو ہمیں یاد ہے ہوا کرتی تھی۔ سردیاں آتیں تو بڑا کوٹ پہننا پڑتا۔ لیکن صرف یہاں نہیں پوری دنیا میں موسم کی تبدیلی یا جسے کلائمیٹ چینج کہتے ہیں‘ محسوس ہو رہی ہے۔ اتنی بڑی کائنات میں بنی آدم کو یہ ایک کرۂ ارض ملا تھا اور اس کی تباہی کے مناظر اب دیکھ رہے ہیں۔ باقی دنیا کو تو چھوڑیے ہمارے ہاں تو ذرا برابر احساس نہیں کہ جو ٹکڑا زمین کا ملا ہوا ہے اس کے بارے میں حساسیت پیدا کریں اور تباہی کے راستوں سے اجتناب کریں۔ لیکن جہاں نظر اُٹھتی ہے کمبخت ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ پتا نہیں کس قسم کا خبط پاکستانی قوم کو آن پڑا ہے‘ شہر پھیلتے جا رہے ہیں اور اس بے چاری قوم کو جو رہنما نصیب ہوئے ہیں یا بے معنی اعلانات کرنے میں مصروف رہتے ہیں یا عوام کے پیسوں سے اشتہارات سے کام چلایا جاتا ہے۔ حکمرانی تو رہی نہیں‘ بس اشتہار بازی کو حکمرانی سمجھا جا رہا ہے۔ خاص مشیران اور وزیر ہیں جو اپنا فرض یہی سمجھتے ہیں کہ وقت بے وقت کی مدح سرائی میں لگے رہیں کیونکہ سیاست کے ساتھ صحافت کا بھی تقریباً جنازہ نکل چکا ہے۔ ایسی جتنی بھی اداکاری ہو اس پر کوئی تنقید کے نشتر نہیں چلتے۔
کہنے کو جمہوریت اپنے پورے آب وتاب سے قائم ہے۔ حقیقت سے ہم سب واقف ہیں‘ جمہوریت کے ساتھ ہوا وہ ہے جس کا کوئی سوچ نہ سکتا تھا۔ آئین موجود‘ قانون کی کتابیں موجود اور ان سب کو دیکھ کر اب ہنسی آنے لگتی ہے۔ رونا قوم نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ کچھ تو رونا بہت لمبا ہو گیا تھا اور کچھ یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پیچھے ہنسی ہی رہ جاتی ہے لیکن کچھ ایسی کہ رونے سے بہت زیادہ مختلف نہیں لگتی۔
ہماری قوم کے اچھے دن تب ہی آئے جب سکیورٹی کے نام پر کہیں ڈیوٹی لگ جاتی تھی۔ افغانستان میں شورش اور نام نہاد جہاد کے بازار گرم ہوئے تو جو قوم اور مختلف محکموں کی ڈیوٹیاں لگیں تو پیسہ آنے لگا‘ اور کئی تھے جن کے وارے نیارے ہو گئے۔ افغانستان کے حالات اب مختلف ہیں اور ویسے بھی وہاں کے حکمرانوں کے تیور ہمارے بارے میں بدلے ہوئے ہیں۔ لیکن بھلا ہو ہمارے عرب بھائیوں کا کہ تمام تر دولت کے باوجودعدمِ تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ دولت کی تو کوئی حد نہیں لیکن دھڑکا رہتا ہے کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ ایسے میں دھیان ہماری طرف جاتا ہے کہ کارآمد لوگ ہیں اور تحفظ کے فرائض بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن معیشت کی مصیبتوں کا یہ کوئی دیرپا حل تو نہیں۔ بہرحال اور ہم کریں بھی کیا۔ لے دے کے ایک انڈسٹری ٹیکسٹائل والی ہے اور وہاں خبر یہی ہے کہ بہت سی فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ شروع کے برسوں میں ہمارے دیگر ہنر ہوں گے لیکن اب تو ہنر شادی ہالوں اور زمینوں کے کاروبار کے ہی رہ گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ صدر ٹرمپ کی تھپکیوں سے ہمارا مورال بہت بلند ہوا اور حکومتی لوگوں کو یہ کہنے کا حوصلہ ہوا کہ دنیا کی نظروں میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا ہے۔ بس ایک احتیاط کر لی جائے کہ ان تھپکیوں سے پیدا شدہ ماحول میں ہم غزہ کے بارے میں کوئی کمٹمنٹ نہ کر بیٹھیں۔ اپنے ہمارے جگاڑ کوئی کم ہیں کہ ایک اور جگاڑ میں حصہ ڈالتے پھریں۔ پختونخوا اور بلوچستان میں باقاعدہ جنگیں جاری ہیں۔ مغربی بارڈر دیکھیں پورے بارڈر پر ہماری فورسز ڈپلائے ہیں۔ آئے روز جھڑپیں اور حملے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ حالات ویسے ہی خراب ہیں۔ تمام تر توانائیاں ہماری یہاں لگی ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے غزہ میں کوئی کمٹمنٹ کر بیٹھیں تو دانائی کی کوئی مثال قائم نہ ہو گی۔ ہمیں ملے گا بھی کیا؟ تھوڑا بہت راشن پانی اور اُس کے ساتھ یہ تہمت اٹھانی پڑے گی کہ امریکہ اور اسرائیل کا جو تصورِ امن ہے اُس میں تھوڑ ے سے مالی فائدے کی خاطر ہم بتائی گئی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے منصوبوں سے دور رہنا ہی قومی مفاد میں ہے۔ عزت بھی اسی میں ہے۔
اس عمر میں اتنی سمجھ آ گئی ہے کہ اجتماعی مستقبل کے بارے میں سوچنا بیکار کا کام ہے۔ جمہوریت نام کی چیز یہاں چل بھی سکے تو کسی نے چلنے نہیں دینا۔ یہ ہماری تاریخ کا سبق ہے۔ جمہوریت کا جو موقع بھی آیا طاقتور اُس پر حاوی ہو گئے۔ آئین‘ قانون‘ عدالتیں سب منہ زور قوتوں کے تابع۔ یہاں یہی ہوتا رہا ہے اور ایسے میں اجتماعی سوچ بے معنی ہو کے رہ جاتی ہے۔ اسی لیے ان فضول باتوں کو چھوڑ کر کیکر اور پھلاہی کے شعلوں میں راحت تلاش کرنا ہزار گنا بہتر لگتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved