پھول بھلے اپنے آپ کو دنیا سے چھپا کر رکھ لے مگر اپنی خوشبو کو پھیلنے سے نہیں روک سکتا۔ اپنی خوشبو کو نہیں چھپا سکتا، احمد مشتاق کی شاعری بھی ایسی ہی شاعری ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ صحیح معنوں میںمیڈیا سے کیسے دور رہاجا سکتا ہے تو احمد مشتاق اس کی بہترین مثال ہیں۔ لیکن اس بے پروائی کے باوجود خوبصورت اشعار کیسے زبان زدِ عام ہو جایا کرتے ہیں اس کی مثال بھی احمد مشتاق ہی ہیں۔ آج احمد مشتاق کی شاعری کو ان کی شاعری میں سجی، پوشیدہ ومخصوص اداسی ویاسیت سے ہٹ کر عہد پر آشوب کے نوحے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ؎
یہ رستے رہروئوں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
خوف کا جو عالم وطنِ عزیز میں وزیرستان سے بلوچستان تک اور انچولی سے لیاری وانار کلی و بنوں تک بپا ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ کیسے وطنِ عزیز میں ہوائیں بھی اب چھپ چھپ کے چلنے پہ مجبور ہیں۔ اسی غزل میں احمد مشتاق کا وہ شہرۂ آفاق شعر بھی پایا جاتا ہے کہ ؎
یہ پانی خامشی سے بہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
احمد مشتاق نے لکھا ؎
کوئی ذرے کو ذرہ ہی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے
کسی کو سوجھتی ہے اس سے تعمیرِ بیاباں کی
راہنما، لیڈران، اپنے اخلاص اور قوت عمل سے اپنی قوموں کیلئے صحرائوں کو بھی گلزار بنا دیا کرتے ہیں اور یہاں پاکستان جیسی مملکت‘ کہ جسے حکیم سعید مرحوم پاکستان بمثلِ سورہ رحمن کہا کرتے تھے کہ سورہ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر ہے تمام کی تمام پاکستان میں پائی جاتی ہیں‘ کو اپنی کرپشن، بدعملی وبے عملی کے باعث حکمرانوں نے گلزار سے بنجر پنے اور ویرانے میں تبدیل کر دیا ہے۔یہ شعر دیکھیے ؎
اِک تہمتِ ستم بھی اٹھانے نہ دی اسے
کیا لوگ تھے کہ ایک ہی دھمکی میں مر گئے
غیرت کے نام پہ جاہلانہ اور احمقانہ ردعمل کی حمایت کون کر سکتا ہے مگر کسی بھی ظلم کے جواب میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جس حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوا کرتی ہے وہ حوصلہ وہمت تو حکمران طبقہ ان اثاثوں اور پلازوں کی بنیادوں میں لگا چکا ہے جو ڈرون حملے کرنے والے ممالک میں ناجائز دولت سے قائم کیے گئے ہیں۔ تو خود ہی سوچ لیجئے کہ دھمکی کیا دھول دھپے کے آگے بھی حکمران کیسے کھڑے ہوں گے۔ لہٰذا دھمکی کیا‘ ڈرونز کے جو اب میں بھی اپنے کو بچھا ہی سکتے ہیں سو بچھاتے چلے جا رہے ہیں۔
66برسوں سے جس طرح قوم کسی مخلص، سچے دیانتدار، ایماندار، باحوصلہ، دردمند اور باصلاحیت راہنما کی تلاش میں نگاہیں ویران کیے جاتی ہے اس پہ احمد مشتاق کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
سُونے پڑے تھے کل بھی تحیر کے راستے
ویرانیٔ نگاہ پریشاں ہے آج بھی
دکھ تو یہ ہے کہ جو سودا سیاست کی منڈی میں دستیاب ہے اسے دیکھ کے یہ اندازہ لگانے کیلئے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں کہ راہنما کی متلاشی یہ ویران نگاہیں ابھی کافی عرصے تک یونہی ویران رہیں گی۔
شیر کو ووٹ دینے والے سارے آج حیران پریشان پھر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت سے ن لیگ کی موجودہ حکومت سے امیدیں لگانے والے آج احمد مشتاق کے اس شعر کی تصویر بنے پھرتے ہیں کہ ؎
سنتے رہتے تھے کہ یوں ہو گا‘ وہ ایسا ہو گا
لیکن اس کو تو کسی اور طرح کا دیکھا
اس شعر میں اگر'' اور طرح‘‘ کی وضاحت کسی کو چاہیے تو فیصل آباد کے نواحی گائوں کی اس عورت کا احوال پڑھ لے جس کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور بلٹ ٹرین کے خواب دکھاتی اس حکومت میں اس نے اپنے روتے بلکتے بچوں کے سامنے خود اپنے گلے پر چھری پھیر کر اس بلٹ ٹرین میں بیٹھنے سے ہی انکار کر دیا۔ بلٹ ٹرین تو کیا زندگی کی ٹرین سے ہی اتر گئی پاکستان کی یہ بیٹی۔ ن لیگ کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ برسوں پہلے ماڈل ٹائون میں میاں برادران کے گھر کے آگے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے والے چن زیب سے لے کر اپنے گلے پہ خود چھری پھیرنے جیسے واقعات سنگاپور، ایشین ٹائیگر اور بلٹ ٹرین کے خوابوں کے دوران ہی کیوں ہوتے ہیں۔؟
آخر میں احمد مشتاق کا وہ شعر جو دل میں اداسیوںکا جنگل اُگادیتا ہے کہ سیکھنے والے چاہیں تو اس سے بھی سیکھ سکتے ہیں کہ قبروں میں نہ ایجویر روڈ کے پلازے جاتے ہیں نہ مقدس سرزمینوں پہ قائم ملیں‘ نہ ڈالر‘ نہ پائونڈ‘ نہ یورو‘ نہ سوئٹزرلینڈ کے اکائونٹس۔ قبر تو قبر ہے جسم وجاں پہ اثرات چھوڑتے'' وقت‘‘ تک کو کوئی نہیں روک سکتا۔اپنی کرپشن اقرباء پروری اور موروثی سیاست سے بیس کروڑ عوام کو ترقی سے محروم تو کیا جا سکتا ہے لیکن خود کو نہ سداجوان رکھا جا سکتا ہے نہ سدازندہ وتابندہ۔ قارون ہو کہ نمرود ، قذافی ہو کہ صدام، بھٹو ہو کہ یحییٰ ، ایوب ہو کہ ضیاء یا ضیاء کی گود میں پل کر شیر بن جانے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان‘ انجام سب کا فنا ہے۔ یہی بات اپنے مخصوص دھیمے اور اداس کر دینے والے لہجے میں احمد مشتاق یوں کہہ گئے ؎
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کر اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں‘ کون حسیں رہتا ہے
اور جاتے جاتے یہ شعر بھی ؎
اپنا حصہ ہے فقط سایۂ اشجار میں سیر
باغ اس کا ہے‘ گُل اس کے ہیں‘ ثمر اس کا ہے
دکھ بھری حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ اور حکمرانوں نے عوام الناس سے نہ صرف باغ‘ گُل اور ثمر ہتھیا لیے ہیں بلکہ سایۂ اشجار بھی قبضے میں کر لیاہے۔ عوام کے مقدر‘ دامن اور رستے میں اگر کچھ ہے تو صرف خار اور خار بھی خارِ مغیلاں!