تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-12-2025

نہیں! جناب سہیل وڑائچ! نہیں!

''ملمع سازی کی چاندی خوب بکتی ہے اور حقیقت کے فولاد کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک روپ اور بہروپ کی یہ آویزش جاری ہے۔ کانگریسی مسلمان کہتے تھے‘ ہم ہندوستان کی تقسیم اس لیے نہیں چاہتے کہ اس سے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور لیگی مسلمان کہتے تھے کہ ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے۔ دونوں کے یہ نعرے دلفریب تھے مگر دونوں سچ سے کوسوں دور تھے۔ کانگریسی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان اکٹھے بھی رہتے تو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کی حکمرانی تو ہندو کے پاس ہی رہنی تھی اور لیگی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ جن علاقوں میں پاکستان بنا وہاں تو پہلے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ پنجاب‘ سندھ‘ بنگال سب میں پہلے سے ہی مسلمان حکمران تھے۔ مگر یہ دونوں نعرے بہت بکے اور آج تک بہت بکتے ہیں‘‘۔
یہ اقتباس جناب سہیل وڑائچ کے اُس کالم سے ہے جو 21 دسمبر کو شائع ہوا ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب سینئر ترین صحافیوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ صحافت کے خارزار میں ایک طویل فاصلہ طے کر کے وہ اس نمایاں مقام تک پہنچے ہیں۔ ان کے سیاسی تجزیے‘ پیش بینیاں اور تخمینے وقعت رکھتے ہیں یہاں تک کہ اربابِ حل وعقد بھی ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ پنجاب کے سیاسی خاندانوں کی ہم عصر تاریخ پر ان کی دسترس حیران کن ہے۔ یہ طالب علم ان کی تحریروں کا مداح ہے اور ان تحریروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ بھی اس فقیر سے محبت کرتے ہیں اور اس کی نظم ونثر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 21 دسمبر کو ان کا جو کالم چھپا ہے اس کا موضوع 'تقسیم کے بعد کا پاکستان‘ تھا۔ اس کالم میں انہوں نے خود ہی لکھا کہ ''قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک روپ اور بہروپ کی یہ آویزش جاری ہے‘‘۔ مگر نجانے کیوں تقسیم سے پہلے پاکستان کیلئے کی گئی جدوجہد پر بھی انہوں نے بات کر دی اور اسی بات کے حوالے سے کچھ عرض گزاری کرنی ہے۔
سہیل صاحب لکھتے ہیں کہ کانگریسی مسلمان اور لیگی مسلمان‘ دونوں کے نعرے دلفریب تھے مگر دونوں سچ سے کوسوں دور تھے۔ گویا جب لیگی مسلمان یہ کہتے تھے کہ ''ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے‘‘ تو یہ بات سچ نہ تھی۔ مگر سہیل صاحب خود ہی اس بات کو سچ مان بھی رہے ہیں۔ اوپر کے اقتباس کو دوبارہ پڑھیے۔ سہیل صاحب نے لکھا ہے ''کانگریسی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان اکٹھے بھی رہتے تو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کی حکمرانی تو ہندو کے پاس ہی رہنی تھی‘‘! تو جناب عالی!! یہی کچھ تو لیگی مسلمان کہہ رہے تھے۔ تو پھر یہ بات (یا آپ کے بقول‘ یہ نعرہ) سچ سے کوسوں دور کیسے ہو گیا؟ لیگی مسلمان کہتے تھے کہ ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے! وہ اس لیے ایسا کہتے تھے کہ ان کے رہنما قائداعظم اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ ''ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے‘‘ محض ایک سیاسی نعرہ نہ تھا‘ یہ ایک حقیقت تھی۔ اگر ہندوستان متحدہ صورت میں رہتا تب بھی مسلمان اقلیت ہی میں ہوتے۔ سہیل صاحب کہتے ہیں کہ دونوں نعرے (کانگریسی مسلمانوں کا نعرہ اور لیگی مسلمانوں کا نعرہ) ''بہت بِکے‘‘۔ لیگی مسلمانوں کو یہ نعرہ اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا۔ جب آپ کہتے ہیں کہ یہ نعرہ بھی دوسرے نعرے کی طرح خوب بکا تو جو چیز بِکتی ہے اس میں ایک خریدنے والا ہوتا ہے اور دوسرا بیچنے والا؟ تو کیا قائداعظم اور اقبال نے یہ نعرہ بیچا تھا؟؟ نہیں! ان دونوں شخصیات میں سے یہ 'کاروبار‘ یہ 'تجارت‘ کسی نے بھی نہیں کی۔ اگر قائداعظم خرید وفروخت کرنے والے ہوتے تو کانگرس نے متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ جب پلیٹ میں رکھ کر پیش کی تھی تو وہ تحریک پاکستان بیچ کر یہ پیشکش خرید لیتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا! یک اور بات جو سہیل صاحب نے لکھی ہے‘ اس کی بھی تردید انہوں نے خود ہی کر دی۔ وہ لکھتے ہیں ''لیگی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ جن علاقوں میں پاکستان بنا وہاں تو پہلے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ پنجاب‘ سندھ‘ بنگال سب میں پہلے سے ہی مسلمان حکمران تھے‘‘۔ متحدہ ہندوستان میں اگر پنجاب‘ سندھ‘ بنگال میں مسلمان حکمران تھے‘ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ہندوئوں کا غلبہ نہیں تھا۔ حکومت تو مقبوضہ کشمیر پر بھی شیخ عبداللہ اور دیگر مسلم شخصیات کی رہی‘ تو کیا مسلمانوں کا وہاں غلبہ بھی تھا؟ خود سہیل صاحب ہی تو کہہ رہے ہیں کہ ''اگر ہندوستان کے سارے مسلمان اکٹھے بھی رہتے تو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کی حکمرانی تو ہندو کے پاس ہی رہنی تھی‘‘۔ یہ ہے: Crux of the matter!۔ یہ ہے اصل بات! جو سہیل صاحب نے خود ہی بتا دی! غلبہ اس کا ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تجارت ہو‘ ملازمتیں ہوں‘ صنعت وحرفت ہو اور پیسہ ہو!! سہیل صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ مسلم اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کی معاشی حالت ابتر تھی۔
میں جہلم اپنے پبلشر کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ تقسیم سے پہلے سارے جہلم میں صرف دو دکانیں مسلمانوں کے پاس تھیں۔ پنجاب پورے کا سروے کر کے دیکھ لیجیے۔ تقسیم سے پہلے بڑی بڑی عمارتوں‘ حویلیوں‘ کوٹھیوں اور محلات کی بھاری تعداد ہندوئوں کی ملکیت میں تھی۔ راولپنڈی ہی کو لے لیجیے‘ بھابڑا بازار‘ پرانا قلعہ‘ گنج منڈی اور دیگر تجارتی مراکز ہندوئوں کے تھے۔ آج جہاں فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین ہے‘ وہاں سے لے کر انکم ٹیکس دفاتر اور پولیس کے پٹرول پمپ تک‘ یہ ساری جگہ دو سکھ بھائیوں کی تھی۔ میرے ضلع اٹک (کیمبل پور) میں مسلمانوں کی عددی اکثریت تھی‘ مگر جیسا کہ بزرگ بتاتے تھے‘ ہر گاؤں میں دکانیں ہندوئوں کی تھیں۔ پاکستان نہ بنتا تو سندھ‘ پنجاب‘ بنگال میں چیف منسٹریاں تو مسلم وڈیروں کو مل جاتیں مگر عام مسلمان اقتصادی طور پر ہندوئوں کے دست نگر ہی رہتے۔ میں ایک عرصہ سے بھارت کی سول سروسز کا مطالعہ کر رہا ہوں! مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصدہے مگر سول سروسز میں مسلمانوں کا حصہ اس تناسب کا عشر عشیر بھی نہیں۔ بھارت کے معروف صحافی سید افتخار گیلانی کرم فرمائی کرتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان افسروں کے اعداد وشمار بتاتے رہتے ہیں۔ تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں مگر مسلم اکثریت کے باوجود زمینی حقائق لرزہ خیز ہیں!
مذکورہ کالم میں جناب سہیل وڑائچ کا اصل موضوع ''سات دہائیوں کی داستان‘‘ ہے۔ یعنی پاکستان بننے کے بعد کے حالات! اُن کی دلسوزی بجا ہے۔ ہمارے حالات ہرگز قابلِ رشک نہیں! ہم میں بہت کمزوریاں ہیں۔ ہم ترقی یافتہ ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم ایک آئیڈیل صورتحال میں نہیں رہ رہے۔ اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے ہم اُس صورتحال سے بچے ہوئے ہیں جس میں بھارتی مسلمان رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ہماری الگ نمائندگی ہے۔ ہمارے نوجوان امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یو پی کے مسلمانوں سے پوچھئے ادتیا ناتھ ان پر کس طرح پھنکار رہا ہے۔ سات عشروں میں کوئی مسلمان بھارت کا سیکرٹری خزانہ نہ بن سکا۔ ہم خراب حالات میں بھی آزاد تو ہیں۔ ہماری بہنوں اور ماؤں کے چہروں سے حجاب تو کوئی نہیں کھینچتا۔ ہماری بیٹیوں کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے ہندو یا سکھ نام تو نہیں اپنانا پڑتے۔
ایک بازی گر اپنے کمالات دکھا رہا تھا۔ وہ تار پر اُلٹا لٹکا ہوا تھا۔ مجمع میں اس کا ساتھی بھی تھا۔ ساتھی نے پوچھا: کیا تم تکلیف میں ہو؟ بازیگر نے جواب دیا: ہاں میں تکلیف میں ہوں! ساتھی نے پھر پوچھا: کیا تم سخت تکلیف میں ہو؟ بازیگر نے کہا: ہاں میں سخت تکلیف میں ہوں مگر پھر بھی اُس شخص سے کم تکلیف میں ہوں جس کی دو بیویاں ہیں!
مسلمانوں کا نعرہ کہ ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے‘ سچ سے کوسوں دور نہ تھا بلکہ سو فیصد سچائی پر مبنی تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved