بھارت کے چین کے ساتھ بھی بہت تنازعات اور کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ چین اور بھارت کے مابین 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کہا جاتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں واقع لداخ کے علاقے میں ان (دونوں ملکوں) کی غیررسمی‘ غیرحتمی سرحد ہے اور دونوں ملکوں کے مابین وجہ تنازع بھی۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بھارت کا 90ہزار مربع کلومیٹر علاقہ اس کی ملکیت ہے جبکہ بھارت کا مؤقف ہے کہ چین نے اس کے 38ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت چین سرحدی تنازع کا آغاز 1955ء میں ہوا تھا جب بھارت نے یہ کہہ کر چین کے سرکاری نقشے پر اعتراض کیا تھا کہ اس میں بھارت کے علاقے چین کے علاقوں کے طور پر دکھائے گئے ہیں۔ اس سے اگلے سال بھارت نے چینی شہریوں کو لداخ سے نکال دیا تھا۔ 1959ء میں چین نے لداخ اور اروناچل پردیش کے 40 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ 20اکتوبر 1962ء کو اسی تنازع پر چین اور بھارت کے مابین جنگ چھڑ گئی تھی۔ تب چین نے اروناچل پردیش کے اہم علاقے توانگ پر قبضہ کر لیا تھا۔ بھارت نے چین پر 33ہزار کلومیٹر علاقہ ہتھیانے کا الزام لگایا جبکہ چین نے دعویٰ کیا تھا کہ اروناچل پردیش کا تمام علاقہ اس کی ملکیت ہے۔
1962ء کی جنگ تو ایک ماہ بعد بند ہو گئی تھی لیکن بھارت اور چین کے سرحدی تنازعات برقرار رہے جو اَب تک برقرار ہیں۔ اپریل 2013ء میں چینی افواج لداخ میں 13کلومیٹر اندر تک گھس آئی تھیں اور چین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ اس کے صوبے زی جیانگ کا حصہ ہے مگر پھر پتا نہیں کیوں چینی افواج پیچھے ہٹ گئی تھیں۔ جولائی 2017ء میں ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ مئی 2020ء سے دونوں ایٹمی طاقتیں اپنی طویل غیر واضح‘ غیر حتمی سرحد پر کشیدگی میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں خطے میں ایک اور محاذ پر بھارت کو بڑا سفارتی دھچکا اس وقت لگا جب چین نے اروناچل پردیش پر اپنا دو ٹوک مؤقف دہراتے ہوئے اس علاقے کو نیا نام زانگنان دے کر اسے باضابطہ طور پر اپنا حصہ قرار دے دیا۔ چین کی سول افیئرز کی وزارت کی جانب سے اروناچل پردیش کے 27مقامات کے نئے نام جاری کیے گئے ہیں‘ جن میں 15پہاڑ‘ پانچ رہائشی علاقے‘ چار درے‘ دو دریا اور ایک جھیل شامل ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ زانگنان تاریخی‘ جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے اور اس کے مختلف مقامات کو چینی نام دینا چین کی خود مختاری کا مظہر ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام چین کے خود مختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا مقصد خطے میں چین کی تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔ اگر غیر جانبدار رہ کر بھی حالات اور معاملات کا جائزہ لیا جائے تو اروناچل پردیش اور چین کی سرحد کے ساتھ لگنے والے بھارتی علاقوں کے نقوش چینی لوگوں سے ملتے ہیں نہ کہ بھارتی عوام سے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ Danny Denzongpaکو تو آپ جانتے ہیں ہوں گے‘ بھارتی فلموں کا معروف ولن۔ اس کا تعلق سکم سے ہے۔ کیا اس کے خدوخال بھارتیوں جیسے ہیں۔ مجھے تو چینیوں جیسے لگتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بھارتی ٹی وی شو میں شرکت کرنے والی Jetshen Dohna Lama کا تعلق پاک یونگ سکم سے ہے۔ اگر آپ نے اس کے گائے ہوئے گانے نہیں سنے تو یوٹیوب پر جا کر سنیے اور فیصلہ کیجیے کہ اس کی شکل کسی بھی طور بھارتیوں سے ملتی ہے۔ 2016ء کی مس ارتھ اور مس اروناچل Chum Darangکا تعلق اروناچل پردیش سے ہے۔ یہ بھی بھارتی سے زیادہ چینی نظر آتی ہے۔ آپ اس علاقے کے مزید لوگوں کی معلومات حاصل کر لیں۔ یہ واضح ہو جائے گا کہ اروناچل پردیش کے لوگ چینی النسل ہیں‘ بھارتی النسل نہیں۔
اس دوران دونوں ملکوں کے مابین ایک اور تنازع نے اس وقت جنم لیا جب اپریل 1959ء میں دلائی لامہ نے تبت کے علاقے لاہسا سے بھاگ کر بھارت میں سیاسی پناہ لے لی جس پر چین نے شدید احتجاج کیا تھا۔ یہ تنازع اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب جنوری 2000ء میں بھارت نے دلائی لامہ (تبتی بدھوں کے روحانی پیشوا) کے بعد کرمپا (کرمپا بھی تبتی بدھ ازم میں ایک اعلیٰ روحانی لیڈر ہوتا ہے) کو بھی سیاسی پناہ دے دی جس پر چین اب تک بھارت سے ناراض ہے۔ چین بھارت تنازع کا تیسرا پہلو بھارت کی جانب سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کی مخالفت ہے۔ مئی 2017ء میں بھارت نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین کی دعوت رد کر دی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہی نہیں بھارت کی جانب سے چین کے اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں بھی ڈالی جاتی رہیں۔ چین بھارت اختلافات اور تنازعات کا چوتھا پہلو بھارت کا چین کے عالمی اقتصادی طاقت بن کر ابھرنے کے خلاف بننے والے چار ممالک کے گروپ کا حصہ بننا ہے جسے کواڈ (Quadrilateral Security Dialogue) کا نام دیا گیا اور جس میں بھارت کے علاوہ امریکہ‘ آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔ اگرچہ کواڈ تاحال تو چین کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا سکا ہے یا چین کی ترقی کی رفتار کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے لیکن چین پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارت کبھی اس کے حق میں بہتر نہیں سوچ سکتا اور چین کی یہ سوچ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید راسخ ہوتی جا رہی ہے۔
اور میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ کیا مسائل ہیں اور کس طرح بھارتی حکومتیں اور لیڈر ہر ہر موقع پر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششیں کرتے رہے اور اکثر منہ کی کھاتے رہے۔ آزادی کے وقت ڈالی جانے والی رکاوٹوں سے لے کر مکتی باہنی تک اور مسئلہ کشمیر سے لے کر مسئلہ سر کریک تک‘ پاکستان پر جنگیں مسلط کرنے سے لے کر یہاں جاسوس بھیجنے تک‘ فالس فلیگ آپریشن کر کے الزام پاکستان پر عائد کر کے اسے عالمی برادری میں رسوا کرنے کی کوششوں سے لے کر پاکستان کو ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل کرنے تک اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے سے لے کر افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے تک بھارت کی جانب سے پاکستان مخالفت کی ایک لمبی داستان ہے۔ آزادی کے بعد بھارت کی اولین قیادت نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے جلد ختم ہونے کی پیش گوئی تھی۔ آج 78برس بعد بھی بھارتی قیادت کی پاکستان کے بارے میں سوچ اور رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اور یہی جنوبی ایشیا کے اس خطے کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ امن سے رہنے کا خواہش مند ہے لیکن اس خواہش کو اس نے کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا‘ بھارتی پالیسیوں اور تیاریوں کے مطابق پاکستان نے بھی اپنے گھوڑے ہمیشہ تیار رکھے ہیں۔ لیکن چین کو چھوڑ کر خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ اسی تناظر میں اگلی قسط میں بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کی جانب سے مسلسل روا رکھی گئی پالیسیوں اور اقدامات پر بات کریں گے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved