آپ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی ملک سب سے بڑے خسارے سے کب دوچار ہوتا ہے؟ کسی ریاست کیلئے کون سا نقصان سب سے بڑا ہے؟ کسی سلطنت کیلئے سب سے کڑا وقت کون سا ہوتا ہے؟ شاید کچھ لوگ سمجھیں گے کہ خزانہ خالی ہونا سب سے بڑا زیاں ہوگا‘ یا کسی محاذ پر شکست بڑا نقصان ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مالی خسارہ اور شکست ایک وقتی چیز ہو سکتی ہے۔ یہ بادل قوموں کے سروں پر سے آتے جاتے رہتے ہیں لیکن جس خسارے اور جس زیاں کی بات میں کر رہا ہوں‘ اس کے سامنے مالی تنگی ترشی اور شکست و فتح کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سچ اور سو فیصد سچ یہ ہے کہ کسی ملک کا سب سے بڑا نقصان اور خسارہ یہ ہے کہ اس کے خیر خواہ ختم ہو جائیں۔ وہ لوگ یا تو ختم ہو جائیں یا ختم کر دیے جائیں جو ملک اور قوم سے محبت رکھتے ہوں اور اس کیلئے شب و روز دعائیں کرتے ہوں۔ کسی مملکت کیلئے وہ دن روزِ قیامت سے کم نہیں جب اس کے شہری کسی بھی وجہ سے اس سے محبت کرنا چھوڑ دیں‘ دلوں میں ریاست کی نہ خیر خواہی رہے‘ نہ اس سے محبت۔ اس سے بڑا نقصان کوئی ملک تصور نہیں کر سکتا۔ اور خدانخواستہ اس نقصان کے بعد ایسا ملک صرف ایک تنکوں کا ڈھیر رہ جاتا ہے جسے ہوا کا کوئی بھی جھونکا کسی بھی وقت بکھیر سکتا ہے۔
2026ء چند دنوں کے فاصلے پر ہے۔ 1947ء سے اب تک ان 78برسوں میں پاکستان نے طرح طرح کے زخم کھائے۔ ہر قسم کے مصائب کا سامنا کیا۔ تنگی ترشی بھی جھیلی۔ لیکن الحمدللہ اس نے یہ نقصان کبھی نہیں اٹھایا کہ ملک کی بہی خواہ قوتیں ختم ہو جائیں۔ اس سے محبت کرنے والے ناپید ہو جائیں اور ملک کی بہتری چاہنے والوں کی آوازیں بند ہو جائیں۔ یہ اثاثے ہمیشہ سے تھے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شمار آوازوں میں سب سے طاقتور آواز وہ ہوتی ہے جو نہ حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچنا چاہتی ہو‘ نہ خود اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھنے کی خواہاں ہو۔ اس کا کسی قسم کا مفاد نہ ہو لیکن جو پورے اخلاص کے ساتھ پورے ملک کی بہتری کیلئے تجویز دیتی ہو‘ مثبت تنقید کرتی ہو اور بہتری کی راہ میں حائل مسائل کی طرف بھرپور طریقے سے توجہ مبذول کراتی ہو۔ وہ پوری ذمہ داری سے اپنا فرض سمجھتی ہو کہ مقتدر حلقوں کو ملک کی ترقی کی طرف لایا جا سکے۔ ایسی آواز چونکہ نہ سیاسی مقاصد رکھتی ہے‘ نہ کسی بھی سیاسی گروہ سے اس کی وابستگی ہوتی ہے لہٰذا اسے قوم کا بھی بھرپور اعتماد حاصل ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک طاقتور آوازمجلسِ اتحادِ امت میں دینی رہنماؤں کی نشست میں 22دسمبر کو کراچی میں بلند ہوئی۔ یہ سیاسی‘ گروہی‘ مسلکی مفادات سے بالاتر اجتماع تھا جس میں پاکستان بھر سے ہر مسلک‘ مکتب فکر اور تمام دینی تنظیموں کے چوٹی کے رہنما موجود تھے۔ اجتماع کے محرک اور صدرِ مجلس مفتی محمد تقی عثمانی‘ جناب مفتی منیب الرحمن‘ جناب مولانا فضل الرحمن‘ مولانا محمد حنیف جالندھری‘ جناب مولانا یاسین ظفر‘ ڈاکٹر شجاع الدین‘ علامہ ریاض حسین نجفی‘ مولانا حامد سعید کاظمی‘ مولانا عبد الغفور حیدری‘ مولانا ابوالخیر محمد زبیر‘ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر‘ مولانا راشد سومرو‘ پیر نور الحق قادری‘ جناب انس نورانی اور بے شمار جید علما اور مشائخ۔ مجھے یاد نہیں کہ گزشتہ کئی عشروں میں دینی رہنماؤں اور چوٹی کے نمائندوں کا اتنا بڑا اجتماع کوئی اور ہوا ہو۔ یہ ہر مکتب فکر کے اُن لوگوں کا اجتماع تھا جن کا شفاف کردار اور حب الوطنی شکوک و شبہات سے بالا رہی ہے اور جن میں ایک ایک نام کے کروڑوں چاہنے والے اور ان پر اعتماد کرنے والے موجود ہیں۔ اس لیے اس اہم اجتماع اور اس کے اعلامیے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس دس نکاتی اعلامیے کا اعلان ہو چکا ہے۔ انٹر نیٹ اور میڈیا پر بھی موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں پاکستان اور عالم اسلام کے حوالوں سے ان معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے جن پر دینی حوالوں سے تشویش پائی جاتی ہے۔ بلکہ معاملہ تشویش سے آگے کا ہے۔ تشویش نئی ستائیسویں ترمیم کے حوالے سے بھی ہے‘ کچھ اعلیٰ عہدوں کے تاحیات استثنا کے معاملے پر بھی‘ کچھ سابقہ قوانین کے بارے میں بھی اور قانون پر عملدر آمد نہ ہونے کے حوالے سے بھی۔ مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے بھی ہے اور آئینی طور پر سود ختم کرنے کی شق کو پامال کرنے کے معاملے پر بھی۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ ہو‘ غزہ میں فوج بھیجنے کا معاملہ ہو یا افغانستان سے کشیدگی‘ اعلامیے میں ان سب پر بات کی گئی ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ معاملات نہ ذاتی ہیں‘ نہ کسی خاص مسلک سے متعلق ہیں۔ دینی تنظیموں اور رہنماؤں پر ہمیشہ یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے مسلکی اختلافات کی وجہ سے کس اسلام کو نافذ کیا جائے؟ یہ الزام بھی دراصل دستوری اور عوامی مطالبات سے بھاگنے کیلئے محض ایک جواز کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ 1951ء میں علما کی طرف سے دستور سازی کیلئے متفقہ بائیس نکات ہوں‘ 1973ء کی دستور سازی ہو یا حالیہ عشروں میں دہشت گردی کے معاملات ہوں۔ ہر مسلک کے علما نے ہمیشہ یکجا ہوکر اور ایک بیانیے پر متفق ہوکر اس الزام کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اس بے بنیاد اور بودے الزام کی حقیقت بس اتنی ہے کہ اہلِ اقتدار دینی فکر اور سوچ کو ساتھ لے کر چلنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ منشا زبانی جمع خرچ ہوتا ہے یا مشکل وقتوں میں اس طبقے سے اپنے مقاصد کی تائید حاصل کرنا اور پھر فراموش کردینا۔ہر دور میں ان سے کیے گئے زبانی اور تحریری معاہدے رد کیے جاتے رہے ہیں اور یہ اب بھی روز کا معمول ہے۔ ایسے میں شکوک و شبہات کی فضا پیدا ہو جانا اور اہم طبقات میں باہم اعتماد نہ رہنا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ اور پاکستان اس وقت بے شمار مسائل کے ساتھ ساتھ اس بے اعتمادی کی فضا سے بھی گزر رہا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے جو سنگین معاشی اور سماجی مسائل ہیں ان پر حکمرانوں کی پہلی توجہ کی ضرورت تھی۔ دفاعی لحاظ سے دشمن اس پر دو طرفہ یلغار کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس وقت پوری قوم جو جگہ جگہ سے منقسم ہے‘ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اسے یکجا کریں۔ اسے مزید تقسیم کرنے اور نئی خلیج پیدا کرنے سے بچانا وقت کا لازمی تقاضا تھا۔ نئے متنازع مسائل پیدا کرنے سے گریز ناگزیر تھا۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ نئی کشمکشوں کو جنم دیا جارہا ہے۔ نئے شگاف پیدا کرکے انہیں وسیع کیا جارہا ہے۔ متفقہ باتوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور نئے محاذ کھولے جارہے ہیں۔ یہ کسی دشمن کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے‘ کسی محب وطن کا ہرگز نہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ یہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ کوئی ایک وجہ ہو یا متعدد وجوہات ہوں۔ اس کا تاوان پورے ملک اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہر آنے والا پچھلوں کی غلطیوں سے نہ کچھ سیکھتا ہے نہ اس کی ذمہ داری لیتا ہے۔ ہم آج تک دہشت گردی کی شکل میں ان پالیسیوں کو بھگت رہے ہیں جو ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور سے جاری ہوئیں اور جنہوں نے ہماری سڑکیں خون سے رنگ دیں۔ اُس وقت بھی خیر خواہ آوازوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ چند اہلِ منصب نے اپنے مفاد کیلئے امریکی دباؤ کو قبول کرکے پوری قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کردیا۔ پاکستان بہت برے حالات سے گزرا اور خدا کرے جلد اس کے نتائج سے باہر آسکے۔ خدا کیلئے اس وقت بھی محب وطن لوگوں کو نظر انداز نہ کریں۔ خدا وہ وقت کبھی نہ لائے جب ملک سے محبت کرنے والے ختم ہو جائیں۔ سچ اور سو فیصد سچ یہ ہے کہ کسی ملک کا سب سے بڑا نقصان اور خسارہ یہ ہے کہ اس کے خیر خواہ ختم ہو جائیں۔ وہ لوگ یا تو ختم ہو جائیں یا ختم کر دیے جائیں جو ملک اور قوم سے محبت رکھتے ہوں اور اس کیلئے شب و روز دعائیں کرتے ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved