نوٹ: ''مجلسِ اتحادِ امت پاکستان‘‘ کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں ہے کہ جس کے مرکزی اور ذیلی دفاتر اور عہدیداران ہوں‘ بلکہ یہ ایک ایسا فورم ہے کہ جس پر وقتاً فوقتاً قوم اور ملک وملّت کو پیش آنے والے مسائل پر تمام دینی مکاتبِ فکر‘ دینی تنظیمات‘ اہلِ علم اور اہلِ فکر ونظر کا متفقہ اجماعی مؤقف پیش کیا جاتا ہے اور حکومتِ وقت کی جانب سے جو بے اعتدالی ہوتی ہے‘ اس کی نشاندہی کی جاتی ہے‘ اس پر متنبہ کیا جاتا ہے اور اِنذار وتبشیر کا شرعی فریضہ ادا کیاجاتا ہے۔ اوّلاً مجلسِ اتحادِ امت پاکستان فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر پاکستان کی تمام دینی قوتوں‘ دینی مدارس وجامعات اور دینی تنظیمات کا مشترکہ فورم قائم کرنے کی صورت میں وجود میں آئی تھی اور اسے خیر سمجھتے ہوئے اس سلسلے کو جاری رکھا گیا ہے‘ کیونکہ وقتاً فوقتاً اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔
مجلسِ اتحادِ امت کا یہ اجتماع 22 دسمبر کو کراچی میں منعقد ہوا‘ اس کے داعیان مفتی محمد تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن تھے۔ اس اجتماع میں پاکستان بھر سے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن تنظیمات‘ وقیع دینی اداروں اور دینی تنظیمات کے سربراہان اور نمائندے شریک تھے۔ اس میں ایک متفقہ اعلامیہ جاری ہوا‘ جس کے پڑھنے کی ذمہ داری میں نے ادا کی‘ اس کے اہم نکات درجِ ذیل ہیں اور اس میں بعض نکات کی ضروری وضاحت بھی شامل ہے۔
تمام مکاتب فکر کے علماء اور مختلف دینی جماعتوں اور تنظیموں کا یہ اجتماع مندرجہ ذیل امور پر مکمل اتفاق رائے رکھتا ہے:
(1) دستورِ پاکستان کی دفعہ 227 کی رُو سے حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنائے اوراگر کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف موجود ہے یا بن چکا ہے‘ اسے تبدیل کر کے قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالے۔ اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی مکمل سفارشات تیار کی ہوئی ہیں‘ دستورکی رُو سے ان کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ سالہا سال گزرنے کے باوجود کسی بھی حکومت نے اب تک انہیں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا۔ یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ نفاذِ شریعت کو اولیت دے اور ان سفارشات کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ان کے مطابق قانون سازی کرے۔ قانون سازی سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی قراردادوں کی حیثیت سفارشات کی ہے‘ جبکہ اُن کو باقاعدہ قانونی طریقۂ کار سے منظور کرنا پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(2) ملک میں اسلامی قوانین کی شرعی حیثیت کے تعین اور غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کیلئے مؤثر ترین ادارہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ ہے۔ آئین کی رو سے وفاقی شرعی عدالت میں تین علماء جج ہونے چاہئیں‘ لیکن عرصہ دراز سے یہ عدالت علماء ججوں سے خالی ہے‘ نیز شریعت اپیلٹ بینچ میں بھی علماء کی موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان عدالتوں کی طرف رجوع کی شرح بہت کم ہو گئی ہے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ آئین کے مطابق علماء ججوں کا تقرر یقینی بنایا جائے۔
(3) آئین کی چھبیسویں ترمیم کا یہ ایک مستحسن فیصلہ تھا کہ ملک سے رِبا (سود) کے مکمل خاتمے کیلئے31 دسمبر 2027ء کی حتمی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی اور یکم جنوری 2028ء سے سودی نظام کو ختم کر کے مکمل اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کو نافذ کرنا تھا۔ اس سلسلے میں سٹیٹ بینک سے تمام بینکوں کو ہدایات بھی جاری کر دی گئی تھیں کہ وہ طے شدہ مدت کے اندر اپنے تمام مالی معاملات کو سود سے پاک کر لیں۔ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ بینکوں میں اس مقصد کیلئے مجالسِ نافذہ اور بااختیار کمیٹیاں بنائی جاتیں جو اس عمل کو مقررہ مدت کے اندر مکمل کرنے کی پابند ہوتیں۔ لیکن اس دوران اس مبارک عمل کو سبوتاژ کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزارتِ قانون کی طرف سے ایک یادداشت تیار کی گئی ہے‘ جس میں اُن بینکو ں کو اس حکم سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے‘ جن میں غیرملکی افراد کی حصے داری (Share Holding) ہے اور باوثوق ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑے بینکوں کی اکثریت کو بھی استثنا دے دیا گیا ہے اور اس استثنا کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ بعض بین الاقوامی معاہدات کا تقاضا ہے۔
ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کو برتری حاصل ہے اور جو کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں کام کرتی ہے‘ اسے پاکستان کے آئین اور قانون کے تابع رہ کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ بین الاقوامی معاہدات جب تک پارلیمنٹ کے ذریعے قانون نہ بن جائیں‘ انہیں دستور اور قانون پر بالا دستی حاصل نہیں ہوتی‘ لہٰذا یہ عذر کسی طرح قابل قبول نہیں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ سے جنگ جاری رکھنے کے مترادف ہے۔ ان حالات میں یہ اجتماع متفقہ طور پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دستور میں سود ختم کرنے کی جو مدت مقرر کی گئی ہے‘ اس پر لفظاً ومعناً مکمل طور سے عمل کیا جائے اور اس مقصد میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔
(4) حال ہی میں دستورِ پاکستان میں ستائیسویں ترمیم انتہائی عجلت میں منظور کی گئی ہے۔ اس ترمیم میں متعدد امور عدلیہ کی آزادی پر قدغن کے حکم میں ہیں‘ لیکن ایک بات قرآن وسنت سے صراحتاً متصادم ہے اور وہ یہ کہ بعض اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کو نہ صرف ان کی مدتِ کار میں بلکہ تاحیات ہر قسم کی فوجداری کارروائی سے مکمل استثنا دیا گیا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے کام چھوڑنے کے بعد بھی تاحیات وہ ہر قسم کے جُرم کی باز پرس سے آزاد رہیں گے۔ یہ استثنا قرآن کریم کی اس دو ٹوک ہدایت کے بالکل خلاف ہے: ''اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے (اور) اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو‘ خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین اور قرابت داروں کے خلاف ہو‘‘ (النسآء: 135)۔
شعارِ نبوت تو یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے غزوہ بدر میں عین حالتِ جنگ میں خود اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کیا‘ خلفائے راشدین حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما نے اپنے عہدِ خلافت میں اپنے آپ کو عدالت میں فریق ثانی کے ساتھ مساوی حیثیت میں پیش کر کے بلا امتیاز اور شفاف عدل کا نمونہ پیش کیا۔ جب قاضی نے امیر المؤمنین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا دعویٰ یہودی کے مقابلے میں حق ہونے کے باوجود اس بنا پر رد کیا کہ شریعت کی رو سے بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں نہیں ہے تو انہوں نے حق پر ہونے کے باوجود اسے خوشدلی سے قبول کیا اور اس کے نتیجے میں وہ یہودی مشرّف بہ اسلام ہوا۔
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ آرمی چیف وچیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکی قیادت میں ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کے موقع پر افواجِ پاکستان نے بھارت کے خلاف مثالی فتح حاصل کی‘ پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ تھی‘ ساری دنیا نے دفاعی اور سفارتی میدان میں پاکستان کی اس برتری کو تسلیم کیا ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ لیکن صدرِ پاکستان اور بعض اعلیٰ دفاعی مناصب کو تاحیات عدالتی جوابدہی سے استثنا دینا قرآن وسنّت کی صریح تعلیمات کے خلاف ہے اور ان مناصبِ جلیلہ کے شایانِ شان بھی نہیں ہے‘ لہٰذا دستور سے اس استثنا کو واپس لیا جائے۔بفضلہ تعالیٰ ہمارا آئین 1973ء سے ایک قومی میثاق کے طور پر متفقہ چلا آ رہا تھا‘ ستائیسویں ترمیم کی بنا پر آئین کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے‘ لہٰذا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ اس ترمیم کو منسوخ کیا جائے یا قومی مشاورت اور پارلیمنٹ کے اتفاق رائے سے اسے دستورِ پاکستان کی روح کے مطابق ڈھالا جائے‘ کیونکہ دستورہی کسی قوم وملت کا اجماعی میثاق ہوتا ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved