10محرم الحرام کو راولپنڈی میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے ایک ہی دن بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف دستور کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو باقاعدہ تحریری گزارش بھجوا دی گئی کہ وہ مختلف ہائی کورٹس کے ان تین ججوں کے نام تجویز کر دیں، جن کو کریمنل ایمنڈمنٹ (سپیشل کورٹ) ایکٹ 1976ء کی دفعہ 4 کے تحت اس مقدمے کی سماعت کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے فوری طور پر تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ایک ایک جج کا نام تجویز کرنے کے لئے کہا اور اگلے ہی دن تعمیل کر دی گئی۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے یہ پانچوں نام (جوں کے توں) وفاقی حکومت کو بھجوا دیے تاکہ وہ کوئی بھی تین منتخب کر لے۔ وفاقی حکومت نے اپنی روایتی سست روی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوراً تین ناموں کا انتخاب کر کے خصوصی عدالت کی تشکیل کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر کو اس مقدمے کی سماعت کرنا ہو گی، جو پاکستان کی 66 سالہ تاریخ کا پہلا مقدمہ ہے۔ مارشل لاء تو یہاں کئی بار لگے اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی کئی نصیب ہوئے، لیکن مقدمہ کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ یہ شرف جنرل پرویز مشرف ہی کے حصے میں آ رہا ہے: یہ اس کی ''دین‘‘ ہے جسے پروردگار دے۔
جنرل موصوف کے بعض بہی خواہوں نے نکتہ اٹھایا کہ قانون میں سپریم کورٹ یا اس کے چیف جسٹس کے اس کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے، جو وفاقی حکومت نے ان کو سونپ دیا۔ اسے تو اپنی آزادانہ مرضی سے ججوں کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے یقیناً وفاقی حکومت کو خود یہ کام کرنا چاہیے تھا، لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ ہائی کورٹس پانچ ہیں جبکہ جج تین درکار تھے۔ اس لئے یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا گیا۔ 76ء میں یہ ترمیمی ایکٹ جاری کیا گیا تو اس وقت ہائی کورٹس کی تعداد تین تھی۔ ایک لاہور ہائی کورٹ، دوسری پشاور ہائی کورٹ اور تیسری سندھ، بلوچستان ہائی کورٹ۔ بلوچستان کو صوبائی درجہ دیا گیا تو ایک عرصہ تک اس کی علیحدہ ہائی کورٹ قائم نہ کی جا سکی تھی۔ اس دوران سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس یک جان ہو کر کام کرتی رہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا بھی اس وقت کوئی وجود نہیں تھا، اسے تو گزشتہ دورِ حکومت میں قائم کیا جا سکا۔ برسوں لاہور ہائی کورٹ کا راولپنڈی بنچ ہی اسلام آباد کے مقدمات نبٹاتا رہا۔ 1976ء میں قانون سازوں نے جب خصوصی عدالت کو تین ارکان تک محدود کیا تو ان کی منشا یہی تھی کہ ہر ہائی کورٹ سے ایک ایک جج کا انتخاب کیا جائے۔ اب جبکہ ان کی تعداد پانچ ہو چکی ہے، ایکٹ میں ترمیم کر کے تین کے ہندسے کو پانچ کر دیا جانا چاہیے تھا، تاکہ ہرصوبہ اس انتہائی اہم مقدمے کی سماعت میں شریک ہو سکتا۔ اس کے بجائے تین ججوں کے انتخاب کے لئے سپریم کورت سے رجوع کر لیا گیا۔ اس سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے محض ڈاک خانے کا کردار ادا کیا اور خصوصی عدالت کے قیام کو آسان بنا دیا۔
پرویز مشرف صاحب کے وکلاء اس نکتے کو سپریم کورٹ میں لے جا کر چند دنوں یا ہفتوں کی مہلت تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ شریف الدین پیرزادہ ہوں، ابراہیم ستّی یا احمد رضا قصوری ان کو اپنے موکل کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ جہاں جب چاہیں، کوئی درخواست دے سکتے اور کسی بھی نکتے سے دل بہلا سکتے ہیں، لیکن تاریخ کے دھارے کو موڑنے کے لئے شریف الدین پیرزادہ کے تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
یہ نکتہ بھی زور شور سے اٹھایا گیا کہ حکومت نے سانحہ راولپنڈی سے توجہ ہٹانے کے لئے شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ وقت کے انتخاب کے حوالے سے اس بات میں وزن ہو سکتا ہے‘ لیکن شوشے چھوڑنا اور ایک مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا مسئلہ کھڑا کر دینا اہل سیاست اور صحافت کا ''آئینی اور قانونی‘‘ حق ہے، یہ ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے آپ کو ''مردِ بحران‘‘ کہتے تھے تو ان کے اس دعوے کا تجزیہ یہی کیا جاتا تھا کہ وہ ایک بحران سے نبٹنے کے لئے دوسرا بحران پیدا کرنے کے فن میں طاق ہیں۔ اگر چودھری نثار علی خان نے بھی اس کا مظاہرہ کر دیا تو اس پر ان کو داد دینی چاہیے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ شوشہ انہوں نے نہیں چھوڑا، ایک سنجیدہ معاملے سے نبٹنے کے لئے پوری سنجیدگی سے قدم آگے بڑھایا۔
ممتاز بلکہ بہت ممتاز قانون دان محمد اکرم شیخ وفاقی حکومت کی طرف سے خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے ہیں۔ خبر عام ہے کہ مقدمے کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے انہوں نے وزیر اعظم سے براہ راست یقین دہانی حاصل کی ہے کہ سماعت کے دوران کوئی دخل اندازی نہیں ہو گی اور حکومت معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکے گی۔ گویا کوئی بین الاقوامی یا بین الاداراتی مصلحت کارروائی میں خلل نہیں ڈالے گی۔ فیصلہ آنے کے بعد حکومت جو چاہے کرے، اس سے پہلے پرویز مشرف جناب شیخ کے حوالے رہیں گے۔ موصوف مقدمہ اس تندہی سے لڑنے کی شہرت رکھتے ہیں کہ وکیل کی بجائے موکل بن جاتے ہیں۔ میمو کمیشن میں انہوں نے اپنی وکالت کے جوہر دکھائے تو اپنے بعض دوستوں سے اس لئے ناراض ہو گئے کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق حسین حقانی سے عہدہ برآ کیوں نہیں ہو رہے؟ لاکھ عرض کیا گیا کہ جناب والا، آپ ایک فریق کے وکیل ہیں، خود مدعی نہیں ہیں، اس لئے اپنے دوستوں کی آزادیء اظہار سلب نہ کریں، لیکن آخری خبریں آنے تک وہ مان کر نہیں دیے... وزیر اعظم سے جو شرائط (مبینہ طور پر) انہوں نے منوائی ہیں، وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اب مقدمہ اکرم شیخ بنام پرویز مشرف ہو گا، ان کے ڈرون سے ملزم کو بچایا نہیں جا سکے گا۔ اس کام کے لئے اس سے بہتر انتخاب ممکن نہیں تھا۔
پرویز مشرف کے ایسے حامی موجود ہیں جو ان کو ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرتا دیکھ رہے ہیں، ان کا خیال ہے وہ مظلوم بن کر دلوں میں جگہ بنا لیں گے، ایسا ہو یا نہ ہو، قانون کو اس سے کوئی سروکار نہیں، اس لئے ان کے جملہ حامی فی الحال اپنے وکیلوں کے لئے گھی اور شکر اکٹھا کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے لواحقین ان کا قانونی معاملہ سیاسی طور پر طے نہیں کرا سکے تو پرویز مشرف کے وکیل اور ان کے ہم نوا یہ معرکہ کیسے سر کر لیں گے؟ وہ غور سے سنیں، تاریخ آواز دے رہی ہے...ملزم پرویز مشرف حاضر ہو!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)