میرا تقریباً ہر روز پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں جانا ہوتا ہے جہاں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں۔ اگر اس وقت کوئی کام کی اپوزیشن پارلیمنٹ میں ہوتی تو یقین کریں کہ حکومت بہت مشکل میں ہوتی اور جس ترقی کے یہ دعوے کرتی ہے ان کا کچا چٹھا سامنے آچکا ہوتا۔ حد تو یہ ہوئی کہ عمران خان نے اپنے ارکان سے اُن پارلیمانی کمیٹیوں سے بھی استعفے دلوا دیے جہاں وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے تھے اور متعلقہ وزارتوں کا جینا مشکل کیا ہوا تھا۔ پی ٹی آئی ارکان کے پارلیمانی کمیٹیاں چھوڑنے کے بعد وزیروں اور وفاقی سیکرٹریز نے سکھ کا سانس لیا۔ اب اپوزیشن کا سارا بوجھ میڈیا کے کندھوں پر آ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان دو سال سے ہاؤس کے اندر عمران خان کے حق میں نعرے مارنے اور وہاں کاغذ پھاڑنے کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ جب سے نئی پارلیمنٹ وجود میں آئی ہے میں نے پی ٹی آئی ارکان کی یہی ڈیوٹی دیکھی ہے۔اس کام کی انہیں ہر مہینے پانچ سے چھ لاکھ تنخواہ مل جاتی ہے‘ بھاری مراعات الگ۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ جعلی پارلیمنٹ ہے‘ وہ اور کیا کریں لیکن اگر یہ جعلی بھی ہو تو وہ اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ اسی پارلیمنٹ میں انہوں نے وزیراعظم کا الیکشن لڑا‘ زرداری صاحب کے مقابلے پر محمود خان اچکزائی کو صدر کا الیکشن لڑایا۔ ابھی اپوزیشن لیڈر کیلئے محمود خان اچکزائی کا نام دیا ہوا ہے۔ ایک جعلی پارلیمنٹ میں بھلا کون وزیراعظم یا صدر کا الیکشن لڑتا اور اپوزیشن لیڈر بنتا ہے۔ اس پر تو وہی جواب ہے جو سپیکر ایاز صادق نے ہمارے ملتانی دوست عامر ڈوگر کو دیا تھا کہ اگر یہ جعلی اسمبلی ہے تو پھر آپ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں‘ تنخواہیں کیوں لے رہے ہیں؟ ہاؤس کے اندر اور باہر احتجاج ضرور کریں لیکن حکومت کیلئے جگہ خالی نہ چھوڑیں۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ پی ٹی آئی ارکان ایوان میں صرف وقفۂ سوالات کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ وقفۂ سوالات ختم ہوتے ہی وہ ہاؤس میں آئیں گے‘ عمران خان کے حق میں چند تقریریں ہوں گی‘ کاغذ پھاڑے جائیں گے اور پھر نعرے مارتے باہر نکل جائیں گے۔ اس سے حکومت کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اثر تب پڑتا جب آپ وقفۂ سوالات میں بھرپور حصہ لیتے کیونکہ اس میں حکومتی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ وزیروں کی نالائقیوں اور حکومتی کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ وزیروں کو میڈیا کی موجودگی میں رگڑا لگتا ہے۔ لوگوں کو بتائیں کہ یہ نالائق اور جعلی حکومت کیسے اپنی نالائقیوں سے ملک کا بیڑا غرق کررہی ہے۔ ساتھ ہی عمران خان کے حق میں آواز بھی اٹھاتے رہیں۔ آپ اسمبلی کو جعلی قرار دیتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کے اندر جس کام کی آپ کو تنخواہ عوام کے پیسوں سے مل رہی ہے‘ وہ بھی پورا کریں۔ حکومت بہت خوش ہے کہ پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ میں بس نعرے مار کر اور سرکاری کاغذ پھاڑ کر چند منٹ کے بعد بائیکاٹ کرکے باہر نکل جاتے ہیں۔ باقی وقت میں حکومت آرام سے اپنے بلز اور باقی کارروائی مکمل کر لیتی ہے۔ ابھی دو روز قبل ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس کے اجلاس کو ہی دیکھ لیں جہاں شوگر سکینڈل کی شاندار رپورٹ ایم این اے مرزا اختیار بیگ نے پیش کی لیکن اس میں کوئی پی ٹی آئی ارکان موجود نہیں تھا جو سوال اٹھاتا۔ وہ ان اجلاسوں میں اس لیے شریک نہیں ہوتے کہ عمران خان کا حکم ہے۔ مجھے خان کے حکم کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے انہیں یا ان کی پارٹی کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ الٹا ان کے اپنے ایم این ایز اور سینیٹرز کو مالی نقصان ہورہا ہے۔ ایک ایک اجلاس کا جو ہزاروں روپے الاؤنس ملتا ہے‘ وہ ملنا بند ہوگیا ہے جس پر وہ عمران خان سے ناخوش ہیں۔ دو تین نے مجھے بتایا کہ دراصل جو لوگ اس وقت عمران خان کے قریب ہیں‘ وہ نان الیکٹڈ ہیں۔ انہیں یہ برداشت نہیں کہ ہم کیوں پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہیں اور ہر ماہ پانچ چھ لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں‘ اور ہمارے نام کے ساتھ سینیٹر یا رکنِ قومی اسمبلی بھی لگا ہوا ہے۔ ہمارا سیاسی پروفائل ان سے بہتر ہے کیونکہ ہم الیکٹڈ ہیں۔ لہٰذا الیکٹڈ ارکان کے خلاف عمران خان کے کان بھرکر کمیٹیوں سے استعفے دلوائے گئے۔ اس اقدام سے حکومت پر عمران خان کی رہائی کیلئے کیا دباؤ پڑا‘ ہاں محض چند لوگوں کی دلی تسلی ہوئی ہے جو خان کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اور جن کی باتوں میں آکر انہوں نے اپنے چھ ایم این ایز کو میر جعفر‘ میر صادق اور غدار قرار دے دیا تھا۔ حالانکہ اگلے روز وہی چھ لوگ عمران خان کی تصویریں گلے میں لٹکائے اسمبلی اجلاس میں شریک ہونے کیلئے آگے آگے تھے۔ عمران خان کی ایک خوبی کا میں قائل ہوں کہ وہ اپنے پارٹی لیڈروں کے ساتھ جیسا چاہتے ہیں سلوک کرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے ان میں اتنی سکت یا جرأت نہیں کہ آگے سے کوئی ردعمل دے سکیں کہ سب کو ایم این اے کی سیٹ عزیز ہے۔ عزت‘ وقار اور خاندانی پس منظر بعد میں دیکھا جائے گا۔
اب ایک اور کام دیکھ لیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ پی ٹی آئی کے جنید اکبر کے پاس تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے جنید اکبر سے توقع کم تھی کہ وہ اس اہم عہدے سے انصاف کر سکیں گے کیونکہ وہ پہلی دفعہ اس کمیٹی کے چیئرمین بنے تھے۔ اس سے پہلے وہ اس اہم کمیٹی کے ممبر تک نہ تھے۔ لہٰذا مجھے خدشہ تھا کہ وہ اس اہم کمیٹی‘ جس کے تیس ممبران ہیں اور چالیس وزارتوں کے سیکرٹریز ان کے سامنے پیش ہوتے ہیں‘ ایسے میں ایک ناتجربہ کار بندہ کیسے کرپشن معاملات کو سمجھ اور ہینڈل کر پائے گا۔ مگر ایمانداری کی بات ہے کہ جنید اکبر نے بہت کم وقت میں ایشوز کو سمجھا اور اپنے آپ کو تیار کیا اور اچھے انداز میں کمیٹی چلائی۔ ان کی مختلف ایشوز اور کرپشن پیروں کی انڈر سٹینڈنگ ‘آبزرویشن اور فیصلے بہت بہتر تھے۔ کامل تو کوئی نہیں ہوتا لیکن اتنے کم عرصے میں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی پرفارمنس بہت اچھی رہی اور حکومت اور پوری بیوروکریسی دباؤ میں تھی کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے حکومت کی اس کمیٹی میں دھلائی شروع کی ہوئی تھی۔ میڈیا کو خبریں مل رہی تھیں جو ہر طرح سے رپورٹ ہورہی تھیں۔ شاید حکومت پچھتا رہی تھی کہ ہم نے اس اہم کمیٹی کی چیئرمینی پی ٹی آئی کو کیوں دے دی۔ جونہی جنید اکبر کی چیئرمینی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی اہمیت کھل کر سامنے آنے لگی‘ تبھی عمران خان کو جیل میں یاد دلایا گیا کہ جناب! یہ کیا ہو رہا ہے۔ خان صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ صبح سویرے جو بندہ ان کے کان میں پھونک مار جائے وہی سچا ہوتا ہے۔ خان نے بغیر سوچے سمجھے فوراً حکم جاری کر دیا کہ سب لوگ کمیٹیاں چھوڑ دیں۔ جس روز اڈیالہ جیل سے یہ حکم نامہ پارلیمنٹ پہنچا اس روز پی اے سی کا اجلاس ہونا تھا اور اس دن ٹاپ ایجنڈے پر ایشو تھا کہ سکیورٹیز اینڈایکسچینج کمیشن کے چیئرمین سمیت چار کمشنرز چپکے سے اپنی تنخواہیں اور الاؤنسز بڑھا کر سترہ ماہ پرانی تاریخ سے چالیس کروڑ لے اڑے تھے‘ اور اب حکومت کے یہ لاڈلے پھنس چکے تھے۔ کمیشن کے چیئرمین پسینے میں شرابور بیٹھے اجلاس شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے کہ آج ان سے یہ پیسے واپس لینے کا حکم جاری نہ ہو جائے لیکن اسی دوران ثنا اللہ مستی خیل وہاں آئے اور کمیٹی کو بتایا کہ خان صاحب کا حکم ہے اور ہم کمیٹیوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ چیئرمین سکیورٹیز اینڈایکسچینج کمیشن کے چہرے پر اطمینان ابھرا۔ وہ سکون سے وہاں سے نکل گئے اور اس کے بعد آج تک دوبارہ پی اے سی کا اجلاس نہیں ہوا۔ ہاں! جنید اکبر جو سب کمیٹیاں بنا گئے تھے وہ دھڑا دھڑ آڈٹ پیرے سٹیل کررہی ہیں۔ اصل تماشا تو یہ ہے کہ یہ آڈٹ پیرے حکومت کے خلاف ہیں جبکہ ایک سب کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری ہیں جو اکیلے ہی دھڑا دھڑا پیروں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ بتائیں اب شکریہ کس کا ادا کرنا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved