تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     26-12-2025

کون سیکھا ہے صرف باتوں سے

بابائے قوم محمد علی جناحؒ کا 149واں یومِ پیدائش روایتی انداز میں منایا جا چکا۔ صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘سمیت سبھی اہم ریاستی و حکومتی شخصیات نے درجہ بدرجہ قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہیں یقینِ محکم اور اَنتھک محنت پر زور دیا تو کہیں ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کو درخشاں مستقبل کا ضامن قرار دیا۔ قائداعظمؒ کے سنہری اصولوں کو مشعلِ راہ بنانے اور قومی وحدت اور جمہوری اقدار کے عزم کا اعادہ کیا گیا ۔ بانیٔ پاکستان کی تعلیمات کتابوں اور خطابوں کے علاوہ حکمرانوں کے خصوصی پیغامات ہی میں دکھائی اور سنائی دیتی ہیں۔ ان کا عملی نمونہ تو ملک کے طول و عرض میں کبھی دیکھا نہ سنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مملکتِ خداداد کی قائد سے رفاقت تقریباً 13ماہ ہی چل سکی۔ اس قلیل عرصہ میں بیماری کے وہ ایام بھی شامل ہیں جو زیارت کے مقام پر قائد گزارتے رہے۔ جو ریاست قائد کی موجودگی میں ان افکار میں نہ ڈھل سکی وہ ان کے بعد بھی اپنی مستقل مزاجی پر بدستور قائم ہے۔
حکمران ہوں یا عوام سبھی اقوال و فرمودات سے بے نیازی میں ایک سے بڑھ کر ایک پائے گئے ہیں‘ یعنی نہلے پہ دہلے۔ قائد بھی خلدِ بریں میں حیران و پریشان ہوں گے کہ مجھے تو مانتے ہیں لیکن میری ایک نہیں مانتے۔ تاریخِ انسانی کی دلخراش ترین ہجرت کے نتیجے میں ملنے والے اس خطے میں کیسا اُدھم مچا رکھا ہے‘ میرے فرمودات اور تعلیمات کے حوالے دے کر کس ڈھٹائی سے ان سبھی سے انحراف کے ریکارڈ بھی توڑے چلے جا رہے ہیں۔ بانیٔ پاکستان کو کیا خبر تھی کہ طویل جدوجہد اور ہولناک خونریزی کے بعد جو خطہ حاصل کیا ہے وہ کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ تیرہ بختی عوام کا مستقل مقدر بنا کر سرکاری وسائل اور قومی خزانے کو اس قدر بے دردی سے لوٹا اور بھنبھوڑا جائے گا۔ جمہوریت کے نام پر جبر اور آمریت کے دردناک مناظر کو حکمرانی کے جوہر ثابت کرنے کیلئے سبھی حربے اور ہتھکنڈے بے دریغ آزمائے جائیں گے۔
اس خطۂ آزاد کے سماج سیوک نیتا کئی دہائیوں تک نسل در نسل اور باریاں لگا کر شوقِ حکمرانی پورے کر کے بھی عوام کی کئی نسلوں کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھیں گے۔ حب الوطنی‘ آئین‘ قانون‘ ضابطے‘ سماجی انصاف‘ اخلاقی قدریں‘ تحمل‘ وضع داری‘ بھرم شرم سبھی کے معانی بھی اُلٹا کے رکھ دیں گے۔ بابائے قوم کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ان کی قوم حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے لیے آئین کی بے توقیری سمیت قانون اور ضابطوں کو گھر کی باندی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی باکمال صلاحیت رکھتی ہے۔ آزادی کا 79واں سال جاری ہے‘ ایوانوں سے لے کر فیصلہ ساز دفاتر میں قائد کی تصویر تلے ان کی نافرمانیوں کے کیسے کیسے کھیل تماشے جاری و ساری ہیں۔ کہیں املاک کو بیچنے کے لیے لوٹ سیل جاری ہے تو کہیں قومی ادارے فروخت کیے جا رہے ہیں۔
ملک بھر میں ایک ایسی حکمرانی نظر آتی ہے جس کے بیشتر ایجنڈے اور دھندے ملک و قوم کے مفادات سے کوسوں دور ہیں۔ جو آج ایوانوں میں براجمان ہیں وہ کل تک پسِ زندان تھے‘ جو آج زندان کے مکین ہیں وہ کل تک ایوانوں میں حکمرانی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کی یہ جادوگری کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ملک بھر کو توشہ خانہ بنانے والے حکمرانوں نے مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کے لیے کیسے کیسے قانون اور معیار بنا ڈالے ہیں۔ ہر دور میں توشہ خانہ سے بالحاظ عہدہ حسبِ توفیق سبھی مستفید ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں پاناما جیسے کیس میں نااہلی اور سزاؤں کی آندھی نے اندھیر مچائے رکھا تو چند روز قبل توشہ خانہ کیس ٹُو میں 17؍17 سال کی قید سنا دی گئی ہے جبکہ وزیر اطلاعات و نشریات نے سزاؤں کی مزید تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نئی سزا پرانی سزا ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی۔ اسی طرح ماضی میں جن مقدمات اور گرفتاریوں پر بانی تحریک انصاف سمیت ان کے وزیر اور مشیر شادیانے بجایا کرتے تھے‘ آج کم و بیش سبھی پسِ زندان اور عتاب سے دوچار ہیں۔
ماضی قریب و بعید سے لے کر لمحۂ موجود تک بڑے پیمانے پر سرکاری وسائل سے خطیر رقوم ان مقدمات‘ گرفتاریوں اور سزاؤں پر خرچ ہو رہی ہے جن کا دورانیہ اقتدار میں آتے ہی ختم ہو چاتا ہے۔ 2018ء میں سزاوار ٹھہرانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ پی ڈی ایم کی حکومت آتے ہی نہ صرف ختم ہو گیا بلکہ آج الٹی گنتی اس طرح زوروں پر ہے کہ مخالفین کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر بھنگڑے ڈالنے والے سبھی مقدمات اور سزاؤں سے دوچار ہیں۔ ایسے میں میوزیکل چیئر اور مکافات کا پہیہ یونہی چلانے کے بجائے ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ خطے میں رونما ہونے والی واقعاتی تبدیلیوں سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ حالیہ چند ماہ سے بنگلہ دیش کن حالات سے مسلسل گزر رہا ہے‘ ان حالات کی پرورش جو حکمران سالہا سال سے کرتے چلے آئے تھے‘ آج وہ سبھی اس کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ایوانِ اقتدار نے اس طرح دھتکارا کہ ملک کے کسی کونے کھدرے میں بھی پناہ نہیں ملی۔ قبل ازیں سری لنکا میں بھی اس قسم کے مناظر دیکھے جا چکے ہیں۔ سری لنگا اور بنگلہ دیش میں ان حالات کے اسباب کے نقطے ملائیں تو بننے والی اشکال جانی پہچانی اور اردگرد ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اقتدار کی دھینگا مشتی میں خیال رہے کہ حکمرانی کے لیے ملک کی بقا اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رعایا بھی چاہیے ہوتی ہے۔ جس طرح مسلسل درد دوا بن جاتا ہے اسی طرح جبر مسلسل بھی بالآخر سہنے والوں کیلئے طاقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور یہ طاقت اس قدر منہ زور ہوتی چلی جاتی ہے کہ سبھی زنجیریں توٹتی چلی جاتی ہیں۔ بعض اوقات چھوٹا سا واقعہ بھی بڑی تحریکوں کو جنم دے ڈالتا ہے۔ مذکورہ ممالک کے حالات اور واقعات کھلی کتاب کی طرح دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔ جون ایلیا نے کہا تھا:
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے
ان واقعات سے بچنے کیلئے سب کو انہی واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے اردگرد ہو رہے ہیں اور ہم ان سے اس طرح انجان بنے بیٹھے ہیں جیسے ان واقعات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہ ہو۔ اسباب اور وجوہات مشترک ہوں تو نتائج بھی خاکم بدہن ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔ خدارا! خلدِ بریں میں بے چین قائد کی روح کا ہی خیال کیجئے! وہ ہمارے حالاتِ پریشاں کی وجہ سے کس قدر نالاں اور خفا ہو گی۔ ان کے اقوال اور فرمودات کو الٹا کر پڑھنے کا نتیجہ ہم پون صدی سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے دانشور قائداعظمؒ کے یومِ پیدائش سے منسوب خوب دانشوری کر رہے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ''قائد ہم شرمندہ ہیں‘‘ لیکن یقین مانیں قائد کو ہماری شرمندگی کا بخوبی اندازہ ہے۔ ہمارے اعمال اور کرتوت سے تو کہیں بھی شرمندگی کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا اور اسی ڈھٹائی پر شاید بانیانِ پاکستان شرمندہ ہوں کہ ہم نے کس قوم کے لیے کیسے کیسے جتن کیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved