اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نرالے رنگ ہیں کہ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ جو بہت بڑے عالم تھے اور 1857ء کی جنگ آزادی کا آغاز انہی کے فتوے سے ہوا تھا۔ وہ کردار کے اتنے بڑے غازی تھے کہ جج کی جانب سے یقین دہانی تھی کہ مولانا صاحب اتنا کہہ دیں کہ میں فتوے والا فضل حق نہیں ہوں تو وہ عدالت سے رہا ہو کر گھر چلے جائیں گے مگر عدالت میں انہوں نے صاف کہا کہ ''ہاں! میں ہی وہ فضل حق ہوں جس نے خود بھی فتویٰ دیا اور علماء سے بھی فتویٰ دلایا‘‘ چنانچہ کالے پانیوں کی سزا کاٹتے ہوئے وہ اپنے اللہ کے پاس جا پہنچے۔ علامہ فضل حق کی صاحبزادی کی شادی فارسی کے شاعر مولوی احمد حسن رسوا بجنوری سے ہوئی تھی۔ مولوی سید احمد حسن کے بیٹے تھے افتخار حسین‘ جو لکھاری اور شاعر تھے اور مضطر خیرآبادی کے نام سے شہرت پائی۔ مضطر کے بیٹے جانثار اختر بھی شاعر تھے اور گلوکار بھی۔ اسی طرح ان کی بیوی بھی گلوکارہ اور شاعرہ تھیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے 1945ء میں ایک بیٹا عطا کیا‘ جس کا نام جاوید رکھا گیا۔ یہ بچہ رشتے میں حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی کے نواسے کا پوتا ہے۔ اس بچے نے بڑے ہو کر بڑا نام کمایا‘ بالی وُڈ کی فلمی دنیا میں اور بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا فلمی شاعر‘ ادیب اور کہانی نویس بن گیا۔ اس نے پانچ فلموں میں نیشنل ایوارڈ اور 16 فلموں میں دیگر ایوارڈز جیتے۔ امیتابھ بچن انہی کی لکھی فلموں دیوار‘ شعلے اور زنجیر وغیرہ سے ٹاپ سٹار بنے۔
جاوید اختر 2010ء سے 2016ء تک بھارت کی راجیہ سبھا (قومی اسمبلی) کے ممبر بھی رہے۔ پہلی شادی ایک ایکٹریس سے ہوئی۔ ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے مگر یہ شادی ناکام ہو گئی۔ پھر دوسری شادی بھی ایک معروف اداکارہ سے کی‘ جو اَب تک چل رہی ہے۔ یہ اپنی کتابوں‘ شاعری اور گفتگو میں خالقِ کائنات کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار نہیں کرتے۔ الحاد ان کا عقیدہ ہے۔ ٹی وی شوز میں ان کا سامنا کرنے کی کوئی ہمت نہ کر پاتا تھا۔ اب ان کی عمر 80 سال ہو چکی ہے۔ اب بھی سائنسی اپروچ کیساتھ مذہبی سوچ اور فکر کو لتاڑتے رہتے ہیں۔ نریندر مودی کے حمایتی ہیں۔ انگریزی‘ اردو‘ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں کے اچھے زبان دان ہیں۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ قدرت کا اب اگلا نرالا رنگ ملاحظہ ہو!
7جون 1998ء کو کلکتہ (کولکتہ) میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ شمائل احمد نام رکھا گیا۔ یہ بچہ اب ستائیس سالہ نوجوان ہے۔ اس بچے نے سکول‘ کالج کی تعلیم کیساتھ ساتھ لکھنؤ شہر کے '' دارالعلوم ندوہ‘‘ سے درس نظامی کیا۔ یہ اب مفتی شمائل احمد ندوی بن چکے ہیں۔ ملائیشیا سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سائنس پر بھی عبور ہے‘ انگریزی مادری زبان کی طرح بولتے ہیں‘ دینی ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔ آج سے تین ماہ قبل اردو اکیڈمی کولکتہ میں جاوید اختر صاحب کو بطور صدر ِمجلس بلایا جا رہا تھا۔ اس موقع پر مفتی شمائل صاحب نے اپنے لوگوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ اگر جاوید اختر صاحب تیار ہوں تو ہم ان کیساتھ ''Does God Exist‘‘ (کیا خدا کا کوئی وجود ہے؟) کے عنوان پر مذاکرے کیلئے تیار ہیں؛ چنانچہ شرائط طے پا گئیں اور نیو دہلی کے ''کانسٹیٹیوشنل کلب‘‘ میں دو گھنٹے کا مباحثہ رکھا گیا۔ اہتمام اُسی ہندی چینل نے کیا جس پر جاوید اختر اکثر مہمان ہوا کرتے ہیں۔ آغاز مفتی شمائل کی گفتگو سے ہوا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اور جاوید اختر کو ایک ایسے ترازو کیساتھ باندھ دیا‘ جو دلائل کے اعتبار سے انصاف پر مبنی تھا۔ مفتی صاحب نے کہا: وحی اور الہام میرے نزدیک علم کا اہم ذریعہ ہے مگر جاوید صاحب چونکہ اس کے قائل نہیں لہٰذا میں کوئی بات مذہبی سرچشموں سے نہیں کروں گا۔ 2: خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی کیلئے سائنس کا حوالہ بھی نہیں چلے گا کیونکہ (امریکہ کی) نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے سائنسدانوں کا فیصلہ ہے کہ سائنس کا تعلق مشاہداتی اور تجرباتی میدان سے ہے جبکہ خدا کا معاملہ اس میدان سے باہر ہے۔ 3: مشاہدے اور تجربے کا تعلق مادی دنیا سے ہے جبکہ خدا غیر مادی اور عظیم فطری (سپر نیچرل) حقیقت ہے‘ لہٰذا عظیم فطری حقیقت کو ایسے آلے سے چیک نہیں کیا جا سکتا جس کا کام مادی حقیقتوں کی تلاش ہے؛ چنانچہ یہاں سائنسی ثبوت نہیں چلیں گے۔ 4: اگر کوئی کہے کہ دھات تلاش کرنے والے آلے کے ذریعے پلاسٹک کو ڈھونڈو اور اگر اس آلے نے نہ بتایا کہ یہ پلاسٹک ہے‘ تو میں پلاسٹک کو نہیں مانوں گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر آلہ یا ٹول مادی ہوگا۔ مادی ٹول کسی ایسی حقیقت کا نہیں بتا سکتا جو غیر مادی ہو۔ 5: عقلی دلائل سے ہی خدا کے وجود کو یا عدم وجود کو ثابت کرنا ہوگا۔ یہی سٹینڈرڈ اور میزان ہے‘ اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
اتنی بڑی‘ منظم اور ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کائنات کیسے وجود میں آئی۔ کیوں وجود میں آئی اور کون ہے جو اسے وجود میں لایا؟ ملحدوں کے پاس اس سوال کا جواب یا تو یہ ہوگا کہ ہمیں علم نہیں۔ تب یہ جواب لاعلمی ہے۔ (اب سوال پیدا ہوتا ہے لاعلمی کی دعوت کیوں دیتے ہو؟) دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ خود بخود بن گئی ہے‘ تو یہ جواب Dogmatic یعنی ہٹ دھرمی اور ضد پر مبنی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملحد آدمی اپنی ضد کو علم بنا کر شور ڈالتا ہے کہ اسے مانا جائے۔ الحادی لوگوں کی جانب سے جذباتی دلائل بھی شروع ہو جاتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو شیطان کیوں ہے؟ میں کہتا ہوں کہ شیطان کی موجودگی بذاتِ خود خدا کی موجودگی کی دلیل ہے۔ اگر خدا ہے تو ہمارا احتساب بھی ضروری ہے۔ احتساب لازم ہے تو اس کیلئے شیطان کا وجود بھی لازم ہے۔ اسی طرح ملحد لوگ ظلم کی بات کریں گے کہ خدا ہے تو پھر زمین پر ظلم کیوں ہے؟ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ کوئی صحیح لکھے یا غلط‘ یا صاف کاغذ بغیر لکھے چھوڑ دے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہاں! کہیں تھوڑی بہت سرزنش ہو سکتی ہے۔ اگر آگے اصل زندگی پڑی ہے جو نہ ختم ہونے والی ہے۔ کائنات کا خالق آزاد ہے۔ اگر وہ کسی پر انحصار کرتا ہو تو نہ خالق چل سکتا ہے نہ کائنات چل سکتی ہے۔ خالق کا علم اور معلومات کا کامل ترین ہونا لازم ہے۔ اب دیکھئے یہ کائنات علمی اور سائنسی قوانین کے مطابق چل رہی ہے تو خالق کا ہونا لازم ہے۔ اللہ اللہ! دو گھنٹوں کی مجلس میں جاوید اختر صاحب کیا کرتے کیونکہ انہوں نے جو دلائل دینے تھے وہ تو وہی تھے جن کا ناطقہ مفتی شمائل نے پہلے ہی بند کر دیا تھا چنانچہ وہ کہیں معذرت کرتے نظر آئے۔ کہیں وہی ظلم اور شیطان کی بات کرتے نظر آئے کہ یہ کیوں موجود ہیں۔ ایک جگہ تو انہوں نے Contingent کا مفہوم پوچھنا شروع کردیا۔ دوسری بار پھر پوچھا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ پھر کہا: میری انگریزی کمزور ہے۔ ایک بار کہا: میں سائنس کو تھوڑا بہت ہی جانتا ہوں۔ واہ میرے رب رحمن! آپ کی قدرت کا نرالا انداز دکھائی دیا کہ جو تیرا بندہ اسّی سال تک کسی کو بولنے نہ دیتا تھا‘ 27 سالہ نوجوان عالم کے عقلی اور فطری دلائل کے سامنے بے بس ہو گیا۔
اس مباحثے کی خاص اور رہنما بات یہ تھی کہ جناب جاوید اختر صاحب نے بھی حلم اور برداشت کا خوب اظہار کیا۔ اختتام پر کہا: اب ہم اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ مفتی شمائل احمد تو نوجوان تھے مگر کمال کا حوصلہ اور برداشت تھی۔ انہوں نے ہر جگہ جناب جاوید اختر کے نام سے پہلے Respected یعنی معزز ومکرم کا سابقہ لگا کر صاحب کا لاحقہ بھی لگایا۔ مباحثے کے اختتام پر خود اٹھ کر گئے اور جاوید اختر صاحب کو ملے۔ وہ بزرگی کی وجہ سے کرسی پر بیٹھے رہے۔ مفتی صاحب جھک کر ان کو ملے۔ اس انداز کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اللہ کرے یہ انداز اہلِ علم کا زیور بن جائے۔ بھارتی ریاست بہار کا وزیراعلیٰ مسلمان ڈاکٹر نصرت پروین کے گھر جائے اور اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر معذرت کرے کہ میں نے نقاب کھینچ کر غیر انسانی حرکت کی۔ وہ مذہبی لوگ بھی اپنے کردار کا جائزہ لیں‘ جو ٹوکے ساتھ رکھ کر تقریر کرتے ہیں۔ سخت ترین فتوے لگاتے ہیں۔ سخت اور گالم گلوچ سمیت بہتان آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ اللہ کرے دنیا بھر میں انسانی رویوں کا احیا ہو جائے۔ زندگی کی خوبصورتی اسی میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved