تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-12-2025

آج کا کالم بے نام سہی

جسٹس غلام صفدر شاہ کی جعلی ڈگری کے پینتالیس سال بعد ایک اور جج کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر رخصتی سے معلوم ہوا کہ مملکت خداداد پاکستان نااہلی اور قابلیت‘ نالائقی وہوشیاری‘ حماقت وچالاکی‘ کاہلی وپھرتی اور بیوقوفی وعقلمندی کا ایسا حسین امتزاج ہے جو کہیں اور دیکھنے میں نہیں آ سکتا۔ دنیا جہان کی خبریں رکھنے والے‘ اڑتی چڑیا کے پر گننے پر قادر اور بند کمروں کے اندر والے معاملات سے مکمل آگاہی رکھنے والوں کو دکھائی نہ دے تو ناک کے نیچے ہونے والی غیر قانونی اور غیر آئینی حرکات دکھائی نہ دیں اور دکھائی دینے پر آئے تو چالیس چالیس سال پرانی ڈگریاں‘ تیس تیس سال پرانی ایف آئی آر اور بیس بیس سال پرانے بیانات یاد آ جائیں۔ بھولنے پر آئیں تو کل کی باتیں‘ پرسوں کی دھمکیاں اور گزشتہ ہفتے والی تقریریں ذہن سے اُتر جائیں۔
آج کل میڈیا کا سارا زور فیض حمید اور اس کی چودہ سالہ سزا پر چل رہا ہے۔ جو لوگ اس کی زور آوری کے زمانے میں اس سے فیض حاصل کر رہے تھے ان کو چپ لگی ہوئی ہے اور جو اس زمانے میں طاقت کے مرکز جناب فیض حمید سے فیض یاب ہونے سے محروم تھے وہ اب اپنے دل کے پھپھولے جلا کر ماضی کی محرومیوں کی تلافی کرنے میں مصروف ہیں۔ سچ پوچھیں تو میں اس معاملے میں کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں کہ ملتان میں بیٹھے ہوئے اس گوشہ نشیں قلم کے اس مزدور کے ساتھ دو معاملات ہیں‘ پہلا یہ کہ اس فقیر کو اپنی گوشہ نشینی پر نہ کوئی ملال ہے اور نہ ہی کوئی افسوس ہے۔ یہ عاجز اپنی مرضی اور خوشی سے ملتان میں مقیم ہے اور پرانی طرز کی آہستہ روی پر مبنی زندگی والے اس شہر کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس گوشہ نشینی سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ میں گھر سے نہیں نکلتا۔ نہ صرف گھر سے‘ بلکہ شہر سے اور ملک سے بھی نکلتا ہوں اور بہت زیادہ نکلتا ہوں مگر یہ سارا نکلنا دوستوں‘ عزیزوں‘ بچوں اور دنیا دیکھنے کے شوق کی تکمیل کے سلسلے میں ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یہ مسافر اپنے آپ کو گوشہ نشیں کیسے قرار دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسافر کی زندگی انہی چند جانے پہچانے لوگوں اور کاموں میں گزر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس دائرے سے نکلنا‘ تعلقات کو فروغ دینا‘ پبلک ریلیشننگ‘ سیاستدانوں‘ حکمرانوں‘ طاقت کے مراکز اور فائدہ مند قسم کے لوگوں سے تعلقات بنانا اور تعارف حاصل کرنا اس عاجز کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ‘اس لیے وہ ان کاموں سے دور ہے اور اپنی محدود سماجی دنیا کے باعث خود کو گوشہ نشین قرار دیتا ہے۔ اب آپ خود بتائیں بھلا آئندہ کون شخص اس فضول لکھاری پر اپنا وقت ضائع کرے گا۔ دوسری بات جو کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ جب ملتان میں بیٹھے ہوئے اس خود ساختہ گوشہ نشیں کو کوئی نہیں پوچھتا تو پھر اس گوشہ نشینی کا چرچا کس لیے؟ تو عرض ہے کہ یہ واقعی اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کو کبھی اس قسم کی آزمائش میں ہی نہیں ڈالا‘ لیکن اس کے باوجود اس فقیر کو بہرحال یہ ضرور معلوم ہے کہ کس کس نے کیسے کیسے ان معاملات میں سیندھ لگا کر اپنا راستہ بنایا اور کس طرح تعلقات کو فروغ دیا‘ جب اس عاجز نے پہلے ٹیلی فون پر ہی ٹکا سا جواب دے دیا ہو بھلا دوبارہ اس قسم کے ٹیلی فون کون کرتا ہے؟
زندگی کی اتنی بہاریں دیکھنے کے دوران اس قلم گھسیٹنے والے کو کم از کم اتنا ضرور علم ہو چکا ہے کہ تعلقات کیسے بنائے جاتے ہیں لیکن اسی دوران اس فقیر نے تعلقات خراب کرنے کا ہنر بھی جان لیا اور پھر اس فن میں یدطولیٰ بھی حاصل کیا۔ برسوں قبل ایک روز اس عاجز کے گھر ایک دفتری اہلکار آیا اور ایک لفافہ دے گیا۔ لفافے میں ملتان تا کراچی ریٹرن ٹکٹ‘ ہوٹل ریزرویشن اور گاڑی کو وی آئی پی پارکنگ میں لے جانے والا سٹیکر اور اسی قسم کی دو تین مزید سہولتوں کی تفصیل تھی۔ پھر ایک کال آ گئی کہ کیا آپ کو پیکیج مل گیا ہے؟ جواب دیا کہ مل تو گیا ہے مگر میں ایک بات آپ کو پیشگی عرض کر دوں کہ میں سرکاری تقریبات پر توصیفی وتعریفی کالم لکھنے کے فن سے قطعاً ناآشنا قلمکار ہوں اور آپ کے مطلب کا بندہ نہیں ہوں۔ کل کلاں آپ کی اپنے اس انتخاب پر جوابدہی ہو گئی تو یہ عاجز ذمہ دار نہ ہو گا۔ اس قسم کی دو چار حرکتوں کے بعد اس قسم کے دعوت نامے اور فون آنے بند ہو گئے۔
فیض حمید والا معاملہ میرے نزدیک گو 'جٹ جانے اور بجو جانے‘ والی پنجابی ضرب المثل جیسا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے سول حکومت جو ظاہر ہے اُس وقت عمران خان کی تھی وہ تو جناب فیض حمید سے فیض یاب ہو رہی تھی مگر تب اڑتی چڑیا کے پر گننے والے اور درون خانہ ہر کمرے کی اندرونی باتوں سے باعلم کیا کر رہے تھے؟ جب اسلام آباد کے رہائشی پوش علاقے سے اہلکار مطلوبہ شکار کو اٹھا کر لے گئے تھے تب داخلی احتساب کا نظام کہاں محو خواب تھا؟
مرضی کے معاملات پر عرصے بعد خوابِ گراں سے اٹھنے پر یاد آیا کہ مرحوم ومغفور جسٹس غلام صفدر شاہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب احمد خان قصوری کے قتل کیس میں ہونے والی سزائے موت کے خلاف دائر اپیل میں تب جسٹس غلام صفدر شاہ‘ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس محمد حلیم نے اختلافی نوٹ میں ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کرنے کا لکھا۔ یہ نوٹ تب کی سخت سیاسی صورتحال میں جب پاکستان میں مارشل لاء نافذ تھا اور عدالتی آزادی پر سوالات اٹھ رہے تھے‘ بڑا حیران کن بلکہ پریشان کن تھا۔ معاملہ بھٹو صاحب کی پھانسی پر منتج ہوا۔ تاہم تب اچانک ہی اختلافی نوٹ لکھنے والے جج غلام صفدر شاہ کی تعلیمی اسناد پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ چند ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنی ایف اے یا میٹرک کی سند میں عمر کے سلسلے میں گڑبڑ کی تھی جو جعلی ڈگری کے شوشے میں بدل گئی۔ اس سارے شور شرابے اور پروپیگنڈے نے صورتحال اس حد تک خراب اور کشیدہ کر دی کہ معاملہ ایف آئی اے سے ہوتا ہوا سپریم جوڈیشنل کونسل میں چلا گیا۔ مئی‘ جون 1980ء میں یعنی آج سے پینتالیس سال قبل بھی یہی صورتحال اور یہی طریقے تھے جو آج دہرائے جا رہے ہیں۔ جسٹس غلام صفدر شاہ زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھے اور انہیں اپنا مستقبل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے کسی متوقع انتقامی کارروائی سے بچنے کیلئے اکتوبر 1980ء میں استعفیٰ دیا اور ولایت چلے گئے۔ ان کے استعفے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی دھری کی دھری رہ گئی۔ ملک چھوڑ کر چلے جانے کے بعد جسٹس غلام صفدر اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران گمنامی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
جسٹس غلام صفدر شاہ کی میٹرک کی سند میں تاریخ پیدائش کا ہیر پھیر‘ فیض حمید کی اب سامنے آنے والی وارداتوں کی تفصیل اور طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری کے جعلی ہونے کا معاملہ آن پڑا اور ان کو شتابی سے اس طرح فارغ کیا گیا ہے کہ ججوں کو فارغ کرنے کے طے شدہ طریقہ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی بالا بالا فارغ کر دیا گیا۔ مجھے جسٹس غلام صفدر شاہ‘ فیض حمید اور اب طارق محمود جہانگیری کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کچھ لینا دینا نہیں تاہم یہ سوال ضرور بے چین کر رہا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے تب سرکار کیوں سو رہی ہوتی ہے اور اس کے کان اور آنکھیں ہونے کے دعویدار ادارے کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ اور جنہیں پچیس تیس سال بعد اچانک ڈگریوں کے جعلی ہونے والے الہام ہوتے ہیں‘ وہ وقت پر ڈگریاں کیوں چیک نہیں کرتے؟ جو ججوں کی کلیئرنس دیتے ہیں مجھے تو ان افسروں کی ڈگریوں کے اصلی ہونے پر بھی شک ہے مگر کسی کی کیا مجال کہ ان کی ڈگریاں چیک کرنے کا خیال بھی دل میں لائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved