تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-11-2013

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے‘ پا بہ گِل بھی ہے

حسنِ عمل حسنِ نیت کا پھل ہے مگر افسوس کہ کم ہی لوگ اس پر غور کرتے ہیں۔ کم ہی لوگ! ایک طالبِ علم کی حیثیت سے جنرل اشفاق پرویز کیانی میری زندگی کا ایک نادر تجربہ ہیں۔ ہر شخص سے آپ سیکھ سکتے ہیں، اگر آ پ اس کی بات سنیں، مگر ہم سنتے کہاں ہیں۔ 
مسلم برصغیر کے امراض میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ہیجان کا شکار ہیں اور سننے کی بجائے بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی ایک سننے والے آدمی ہیں؛ چنانچہ سیکھنے والے۔ طلبِ علم کا دعویٰ ہم سب کرتے ہیں، ایک جعلی انکسار کے ساتھ۔ جنرل واقعی ایک طالبِ علم ہے اور امید ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ 
ایک بار میں نے انہیں ایک چھوٹا سا واقعہ سنایا۔ 41 برس ہو گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے مجھے ایک انٹرویو کرنا تھا۔ درحقیقت میرا کام اتنا ہی تھا کہ اسے لکھ ڈالوں۔ سوالات میرے مرحوم مدیر مصطفی صادق نے مرتب کیے تھے۔ شب اپنی میلی قمیض میں نے دھو لی اور صبح سویرے استری کیے بغیر پہنی اور ان کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔ ان کے اس کمرے میں، جو ہمیشہ مرتب نظر آتا، اپنے مرتب مکین کی طرح‘ کتابوں سے بھری الماریوں کے درمیان ایک متین اور سنجیدہ آدمی۔ 
اس انٹرویو کی اہمیت یہ تھی کہ امیرِ جماعتِ اسلامی کی حیثیت سے یہ ان کی آخری گفتگو تھی۔ جانشین کا انتخاب کیا جا چکا تھا اور چند روز میں انہیں دستبردار ہو جانا تھا۔ جب ان کی آئندہ زندگی کے بارے میں پے در پے سوالات کیے جاتے رہے تو جہاندیدہ آدمی یکایک سنبھلا اور اس نے یہ کہا: ''میں جماعتِ اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہو رہا ہوں، زندگی سے نہیں‘‘۔
جنرل صاحب کو یہ جملہ خوش آیا۔ اس وقت موضوعِ بحث یہی تھا کہ کارِ سرکار سے نجات پانے کے بعد وہ کن اشغال میں مصروف ہونا پسند کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس بارے میں انہوں نے اپنے ملاقاتیوں سے بہت زیادہ غوروفکر کیا ہو گا مگر اظہارِ خیال اتنا بھی نہ کیا، جتنا کہ استفسار کرنے والوں نے۔ یہ بھی آشکار ہے کہ خود ان کا تجسس اور اس تجسس سے پھوٹنے والے سوالات بہت زیادہ رہے ہوں گے۔ ابھی مگر وہ غوروفکر میں مبتلا تھے اور فیصلہ انہوں نے صادر نہ کیا تھا؛ لہٰذا امکانات کے تمام دروازے کھلے تھے۔ ایک اچھا لیڈر ایسا ہی کرتا ہے۔ اچھا لیڈر کیا ہوتا ہے؟ وہ خود کو اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ پاتا ہے۔ وہ شخص جو عزتِ نفس کا احساس رکھتا ہے۔ لیڈروں کے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا: What is character? It is self respect.۔ کردار کیا ہے ؟ عزتِ نفس کا شعور!
مسلم برصغیر کی گزشتہ دو صدیوں کے بہترین مردانِ کار وہ ہیں، جنہوں نے مغرب سے سیکھا۔ سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبالؒ اور خود قائد اعظمؒ۔ کسی نہ کسی پہلو پر ان کے اندازِ فکرونظر سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے مگر وہ لوگ، جن کی دیانت اور دردمندی میں کوئی شبہ نہیں۔ 
ان تاریخ ساز شخصیات سے جنرل کا موازنہ مطلوب نہیں۔ وہ عوامی زندگی کے لوگ تھے؛ اگرچہ سر سید اور علامہ سیاست کے نہیں تھے اور سچ پوچھیے تو مولانا محمد علی جوہر بھی نہیں۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی تھی، وہ ایک جذباتی وجود تھے۔ انسانوں کی تقدیر رقم کرنے والے رب نے شاید انہیں اس لیے پیدا کیا تھا کہ برصغیر کے خس و خاشاک میں آگ بھڑکائیں۔ خوف اور احساسِ کمتری کو دھو ڈالنے کی کوشش کریں۔ 
سرکارؐسے منسوب ہے: دانا وہ ہے، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ ان سنہرے ادوار میں، جب اقبالؔ کی زبان میں وہ غالب و کار آفریں، کارِ کشا اور کارساز تھے۔ 
قرۃ العین حیدر نے کہا تھا: لکھنا ایک ما بعدالطبعیاتی عمل ہے۔ جملے جب بارش کی طرح کاغذ پر برستے رہتے ہیں۔ ایک ذرا سا غور کیجیے تو واقعہ یہ ہے کہ سبھی کچھ ما بعدالطبعیاتی ہے۔ اگر وہ ایک انہماک اور خلوص کے ساتھ برپا ہو۔ ایک معمولی کام بھی علمی اور روحانی تجربے میں ڈھل سکتا ہے، اگر اس میں اخلاقی احساس کارفرما ہو۔ 
میرے دل میں یکایک ایک خواہش اُبھری۔ اگر مہلت میسر آئے تو جنرل سے استفسار کیا جائے۔ وہ جو ایک اخلاقی ادراک آپ کے ہاں کارفرما ہے، اس کی بنیاد کیا ہے؟ مادرانہ و پدرانہ شفقت یا کوئی اور استاد؟ تین برس ہوتے ہیں، اس گنوار نے انہیں ایک ملازمت پیشہ آدمی کہا تھا۔ طنز اور تحقیر کے ساتھ نہیں بلکہ اس خیال سے کہ وہ خود کو اپنے فرائض تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دخل در معقولات کے اس معاشرے میں، جہاں اکثر لوگ سب سے زیادہ غفلت اپنے فرائض میں برتا کرتے ہیں۔ زیادہ توانائی وہ ان چیزوں میں لگاتے ہیں، جن سے دور کا واسطہ بھی انہیں ہوتا نہیں۔ جن کے لیے وہ خدا کو جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ بندگانِ خدا کو۔ 
جنرل ایک مختلف آدمی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا مگر ا س بے دلی کے ساتھ نہیں، جو ہمارا شعار ہے بلکہ غوروفکر اور احساس و شعور کے ساتھ۔ یہی گجر خان کے اس دیہاتی کی غیرمعمولی کامیابی کا راز ہے‘ جو پاک فوج کا ایک روایتی افسر، پوٹھوہار کی زمین کا فرزند ہے جو معلوم نہیں کب تک سپاہی جنتی رہے گی۔ وہ سرزمین جو کبھی خراسان کا حصہ تھی۔ دو ہزار برس ہوتے ہیں، فاتح ایرانیوں نے اس خطے کو پنجاب کا نام دیا تھا۔
جنرل کا امتیاز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاک فوج میں پیشہ ورانہ فرائض کو پھر سے اولین ترجیح بنانے کی کوشش کی۔ ان کا اعجاز مگر دوسرا ہے۔ وہ ایک بہت سوچ بچار کرنے والے آدمی ہیں۔ اس فوج نے اگرچہ ان سے پہلے بھی ایسے بہت سے افسر اور کئی سربراہ پیدا کیے، جن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، ان کے بعض مداح مگر انہیں پاک فوج کا پہلا Thinking General کہتے ہیں۔ 
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اپنی ذات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرنے والا جنرل، شب بھر جاگتا ہے۔ پابندی سے ورزش کرنے والا سپاہی اپنی رات مطالعے میں بسر کرتا ہے یا اس کا کچھ حصہ ملاقاتوں اور ٹیلی ویژن دیکھنے میں۔ اس وسیع و عریض گھر میں، جو تزئین و آرائش کے جدید تقاضوں سے محروم سپاہیانہ سادگی کا مظہر ہے، جنرل کا بہت سا وقت لائبریری میں گزرتا ہے۔ قدیم ادب اور جدید ترین مطالعے میں۔ وہ عصرِ رواں کا آدمی ہے۔ اپنے طرزِ زندگی میں مگر وہ ایک سادہ سا وجود ہے۔ دانشور عام طور پر پیچیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ وہ مختلف ہے۔ جیسا کہ ابھی ابھی میں نے عرض کیا تھا، منطق اور دلیل کا آدمی مگر ایک ذرا سے فرق کے ساتھ، وہ عملی واقع ہوا ہے کہ اس سے زندگی کا مطالبہ یہی تھا۔ 
آدمی اپنی تقدیر خود نہیں لکھتا۔ اپنی ترجیحات وہ خود مرتب نہیں کرتا۔ وہ اپنے والدین کا انتخاب کرتا ہے اور نہ اساتذہ اور ماحول کا۔ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ اس کا پیشہ بھی۔ قرآنِ مجید میں لکھا ہے، زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو۔ ایک دوسری آیت یہ کہتی ہے: زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جس کا رزق ہمارے ذمہ نہ ہو۔ 
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے 
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے 
کچھ چیزیں طے شدہ ہیں، ابنِ آدم کے تحفظ کے لیے۔ کچھ آدمی کے اختیار میں۔ انہی کی جواب دہی کرنی ہے۔ پھر یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ بندے سے اس کا پروردگار چاہتا کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ صرف دیانت دارانہ غوروفکر اور اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں زندگی کو ڈھالنے کا عمل۔ بخاری شریف کی اولین حدیث یہ کہتی ہے: انما الاعمال بالنیّات۔ اعمال کا تمام تر دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ 
حسنِ عمل حسنِ نیت کا پھل ہے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ اس پر غور کرتے ہیں۔ کم ہی لوگ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved