قائداعظم محمد علی جناحؒ کی149ویں سالگرہ (حسبِ روایت) دھوم دھام سے منائی گئی۔ صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ‘ اپوزیشن رہنماؤں نے انہیں زبردست الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے افکار و تصورات کے مطابق مستقبل کی تعمیر و تشکیل کے عہد دہرائے گئے۔ تقریبات منعقد ہوئیں‘ تقریری مقابلے ہوئے‘ اخبارات نے خصوصی مضامین شائع کیے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی چرچا رہا‘ جگہ جگہ کیک کاٹے گئے‘ مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے بلکہ یہ کہیے کہ اس سے بھی پہلے‘ تحریک پاکستان کے دوران ہی میں یہ سالگرہ منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پاکستان میں اور جہاں جہاں بھی پاکستانی بستے ہیں اس دن تقریباتِ مسرت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس سال برسوں بعد یہ دن بنگلہ دیش میں بھی منایا گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تقریب ہوئی‘ اور بانیٔ پاکستان کے نام کے بینر لہرائے گئے۔ تفصیلات میں اُلجھے بغیر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے زیر قیادت برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک وطن حاصل نہ ہوتا تو بنگلہ دیش بھی موجودہ شکل میں موجود نہ ہوتا۔ پاکستان کے قیام میں مشرقی منطقے (آج کا بنگلہ دیش) کا حصہ نمایاں سے نمایاں تر ہے۔ ڈھاکہ ہی میں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پورے برصغیر سے مسلمان زعما نواب سلیم اللہ کی میزبانی میں یہاں اکٹھے ہوئے اور اپنی ایک (سیاسی) جماعت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشرقی بنگال ہی کے وزیراعظم مولوی اے کے فضل الحق کو مارچ 1940ء کے اجلاسِ لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا‘ جس میں مسلمان اکثریتی منطقوں پر مشتمل الگ ریاست (یا ریاستوں) کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ یہ قرارداد منظور ہو کر برصغیر کے مسلمانوں کی منزل بن گئی۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد جب ہندوستان بھر کے مسلم لیگی منتخب نمائندوں کا کنونشن نئی دہلی میں طلب کیا گیا تو بنگال ہی کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1940ء کی قرارداد کی توضیح کرتے ہوئے ''ایک ریاست‘‘ کے قیام کو اپنی منزل ٹھہرایا‘ اور یوں مغربی اور مشرقی مسلمان اکثریتی علاقوں کو ایک لڑی میں پرونے کا فیصلہ کن عزم کر لیا گیا۔ کوشش تو یہ تھی کہ بنگال تقسیم نہ ہو اور متحدہ بنگال پورے کا پورا پاکستان کا حصہ بن جائے یا اپنا آزاد تشخص قائم رکھے لیکن دونوں میں سے کوئی بھی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ کانگرسی رہنماؤں کے عدم تعاون کے باعث بنگال متحد نہ رہ سکا‘ مشرقی حصے کو الگ کر دیا گیا۔ بنگال کے مسلم لیگی رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ جغرافیائی طور پر بھارت کے نرغے میں بنگال اگر تنہا ہوا تو تر نوالہ بن جائے گا۔ مغربی منطقے سے اس کا جڑے رہنا اس کے دفاع کے لیے لازم ہے۔ تقسیم کے بعد مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اقتدار کے کھیل میں کس کس نے کیا کیا کرتب دکھائے‘ معاملات کو کس طرح اُلجھایا گیا‘ اس کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ محل نہیں لیکن بے تدبیریوں اور عاقبت نا اندیشیوں نے یہ دن دکھایا کہ بھارتی معاونت (یا سازش) سے مشرقی بنگال بنگلہ دیش بن گیا۔ اس وقوعے کو پچاس سال سے زیادہ گزر چکے‘ بنگلہ دیش غوطے کھاتا‘ ڈوبتا اور اُبھرتا رہا۔ شیخ حسینہ واجد کے شر میں سے خیر یہ برآمد ہوئی ہے کہ اب بنگلہ دیش کا آزادانہ تشخص اپنے آپ کو منوا رہا ہے۔ وہاں کے نوجوانوں نے اپنا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اپنی تاریخ سے بھی اپنا ناتہ جوڑ لیا ہے۔ تحریک پاکستان کی افادیت اور معنویت کا ازسر نو اقرار و اعلان کیا جا رہا ہے۔ قائداعظمؒ زندہ باد کے نعروں سے فضائیں ایک بار پھر گونج رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ''فادر آف نیشن‘‘ کی تلاش تو اب بھی جاری ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران بھی اس حوالے سے شیخ مجیب الرحمن اور جنرل ضیا الرحمن کے حامیوں میں کشمکش ہوتی رہی ہے۔ کبھی شیخ صاحب کے سر پر تاج رکھا گیا تو کبھی ضیا الرحمن کا نعرہ بلند ہوا کہ مارچ 1971ء کی فوجی کارروائی کے بعد ان ہی نے ایک میجر کے طور پر علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے چٹا گانگ ریڈیو سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن تو اس وقت گرفتار کر کے (مغربی) پاکستان پہنچائے جا چکے تھے۔ اس لیے ان کو ''بابا‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا رہا‘ اور اب تو ان کے خلاف''اجماع‘‘ ہو چکا ہے‘ ان کے مجسمے تاراج ہیں‘ گھر جلایا جا چکا ہے اور ان کا نام کھرچ کھرچ کر مٹایا جا رہا ہے۔ جنرل ضیا الرحمن کے نواسے طارق رحمن آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور انقلابی نوجوان بھی میدان میں ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ''گرینڈ فادر‘‘ کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج کا بنگلہ دیش بھی کہیں دیکھنے میں نہ آتا۔ جوں جوں وقت گزرے گا یہ احساس گہرا ہوتا جائے گا۔
مغربی اور مشرقی پاکستان یا یہ کہہ لیجیے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے سامنے یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ اگر وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے افکار و نظریات سے وابستہ رہتے تو آج بھی ایک ہوتے۔ اگر عوام سے ووٹ کی طاقت نہ چھینی جاتی‘ اگر بار بار مارشل لا نہ لگائے جاتے‘ اگر دستورِ پاکستان کو پسِ پشت نہ ڈالا جاتا تو 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والا پاکستان آج بھی جوں کا توں ہوتا۔ اس بات کو یوں بھی دہرایا جا سکتا ہے کہ ''جوں کا توں‘‘ رہنے کے لیے دستور کی بالادستی آج بھی ضروری ہے‘ ووٹ کی طاقت کا اعتراف آج بھی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے یہ کل بھی ضروری تھا‘ اور آج بھی ضروری ہے۔ متحدہ پاکستان کے آخری ایام میں اہلِ سیاست ایک دوسرے سے جس طرح اُلجھے اور اقتدار پر قابض جنرل یحییٰ خان کی مدہوشی و خود فراموشی نے جو ستم ڈھائے‘ وہ تاریخ کے ہر طالب علم پر واضح ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو اگر ایک دوسرے کو تسلیم کر لیتے تو یحییٰ خان کو غیر مؤثر بنایا جا سکتا تھا۔ پاکستان بچایا جا سکتا تھا لیکن شیخ مجیب الرحمن اپنی مرضی کا آئین مسلط کرنے پر تل گئے تو ذوالفقار علی بھٹو اقتدار پر اکثریت کا حق تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ اپنی ذات کو بلند و بالا سمجھنے والے چند ہی سال کے اندر ''زمیں بوس‘‘ ہو گئے۔ ایک کو اپنی ہی فوج کے جوانوں نے گولیوں سے بھون دیا‘ تو دوسرا اپنے ہی مقرر کردہ چیف آف آرمی سٹاف کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے'' ہندوستاں والو‘‘
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved