تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     28-12-2025

شبِ نیا سال

ہماری ہر دلعزیز طلبہ تنظیم جو اپنی زورآوری کے لیے مشہور رہی‘ اپنا فرضِ اولیٰ سمجھتی تھی کہ نیا سال آیا نہیں اور بڑے ہوٹلوں کے سامنے پہرہ دینا شروع کر دیا کہ کہیں نئے سال کی خوشی میں کوئی تقریب منعقد نہ ہو جائے۔ کئی دفعہ ایسے بھی ہوتا کہ جوشِ جنون میں ڈنڈے چل جاتے اور اکابرینِ تنظیم کے لیے راہِ حق کے راستے میں ایک اور عظیم کامیابی رقم ہو جاتی۔ عذرِ جذبات یہی ہوتا کہ نیو ایئر نائٹ تقریبات منانا ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ اس نکتے پر دھیان ذرا کم ہی جاتا کہ رشوت اور دیگر بے ایمانیاں‘ جن کا روزمرہ کا ارتکاب وطنِ عزیز میں معمول بن چکا ہے‘ دین سے کہاں مطابقت رکھتی ہیں؟ ان بے ایمانیوں پر تو جوش کم ہی اُٹھتا لیکن نیو ایئر تقریبات پر لڑنے مرنے کی تیاری ہو جاتی۔
ہر دلعزیز تنظیم کے کارکنان اور قائدین یہ سمجھنے سے تھوڑا قاصر ہوتے کہ پیارے دیس میں آسودہ حال لوگ نیو ایئر منانے ہوٹلوں میں تو جاتے ہی نہیں۔ ان کی رنگ رلیاں تو چار دیواری کے پیچھے ہوتی ہیں۔ ان کا جہاں اور‘ عوام الناس کے حالات بالکل مختلف۔ ہوٹلوں میں تو بھولے بھٹکے ہی جاتے جن کے لیے اس مخصوص شام تفریح کے کوئی دوسرے ذرائع نہ ہوتے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے دیہات اور چھوٹے شہروں میں ویسے ہی نیو ایئر نائٹ کا تصور کچھ کم ہی ہے اور بڑے شہروں میں بے سر و سامان نوجوانوں کے لیے یہی رہ جاتا ہے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار اور بھونپو بجاتے لاہور کے مال پر آ جائیں اور جب تک تھک نہ جائیں ہڑبونگ مچاتے رہیں۔
پوری دنیا میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے۔ نئے سال کی خوشی میں لوگ عجیب سی کیفیت میں آجاتے ہیں۔ انگلینڈ کے لوگ پورا سال اپنے میں ہی رہتے ہیں اور کسی نائٹ کلب میں بھی بغیر تعارف کے کسی اجنبی سے بات کرنا بڑا عجیب سمجھا جاتا ہے لیکن نئے سال کی شب وہ ایک موقع ہوتا ہے کہ انگریزوں کا موڈ بدل جاتا ہے اور سڑکوں اور چوراہوں پر مکمل اجنبیوں سے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔ پنجاب پولیس کا لندن میں کوئی تھانہ ہو تو اس شب اتنے پرچے درج کرنے پڑیں کہ کاغذ اور سیاہی ختم ہو جائے۔ لیکن ہم تو نرالے لوگ ہیں ساری دنیا سے ہمار ے طور طریقے مختلف ہیں۔ جیسے عرض کیا گزرے وقتوں میں کسی نے ہوٹل میں بھی چھوٹی موٹی تقریب کی جسارت کی تو ڈنڈا چلانے ہمارے نوجوان دوست موجود ہوتے تھے۔ اس سال دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ بسنت منانے کی نوید سنائی جا چکی ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس شب پارسائی کے محافظوں سے تحفظ کا کوئی انتظام ہوگا یا نہیں۔
جوانی کا جب زعم تھا اور اسلام آباد میں ہوا کرتے تھے تو نیو ایئر نائٹ کی ایک کیا کئی دعوتیں ملا کرتی تھیں۔ جہاں کہیں منہ دکھانا ہوتا وہاں پہلے چلے جاتے اور پھر جہاں نئے سال کو خوش آمدید کرنا ہوتا وہاں آخر میں جاتے۔ مردِ حق کے زمانے کی ایک نیو ایئر نائٹ ہی تھی کہ میرے ساتھ ایک انگریز سفارت کار بیٹھے ہوئے تھے۔ سفارتی محفلوں میں اس سفارت کار کے بارے میں مشہور تھا کہ برطانیہ کی MI-6 کا نمائندہ ہے۔ ہمارا تو جاننے والا تھا اور اس سے خاصی بے تکلفی تھی۔ خاصا وقت گزرا اور ہم وہیں گپیں مار رہے تھے کہ اچانک میری طرف دیکھتے ہوئے اُس نے کہا 'ایاز تم پاکستانیوں کو سمجھ ہے کہ اپنے لیے کس بربادی کا سامان افغانستان میں پیدا کررہے ہو؟‘ کیا کہتا‘ بس یہی کہہ سکا کہ ہمارے حکمرانوں کی یہی ترجیحات ہیں۔ اب گئے وہ زمانے اور ہمیں بھی اسلام آباد چھوڑے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔
تب جی کرتا تھا نئے سال کی آمد کی خوشی میں کوئی بھری محفل ہو۔ خوش لباس خوش گفتار لوگوں کی محفل۔ پرانا اسلام آباد رہا نہیں‘ ہم بھی وہاں کے نہیں رہے۔ اب تو جی یہی چاہتا ہے کہ گاؤں کے مسکن میں آگ ہو اور خود سے ہی کلامی کر رہے ہوں۔ کچھ اداس موسیقی‘ کچھ گزرے سال کی یادیں‘ کچھ پرانی باتیں۔ زندگی میں کوئی حسیں لمحات گزرے ہوں تو یادیں اُن پر ٹِک جاتی ہیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر کھلنے لگتی ہے۔ اچھے موقعے جو آئے لیکن گنوا دیے گئے‘ دل میں ان کا ارمان اٹھتا ہے۔ بیکار کی گفتگو اب سہی نہیں جاتی اس لیے حکمت اسی کو سمجھتے ہیں کہ بیکار کی صحبت سے دور ہی رہا جائے۔ ملک میں کیا ہو رہا ہے کیا ہونے جا رہا ہے کیا ہونا چاہیے ایسی باتوں پر سر کھپانے کا بالکل دل نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسی شب ہوتی ہے کہ اپنے پر ہی خیال جاتا ہے کہ کیا کھویا کیا پایا۔
پی آئی اے کی نجکاری سے بات یاد آئی کہ 1983ء میں جب مردِ حق کے خلاف ایم آر ڈی موومنٹ جاری تھی تو میں اور ایک فرانسیسی جرنلسٹ‘ جن سے ہماری اچھی دوستی تھی‘ اچانک فیصلہ کرتے کہ لاہور فلاں مقام پر دوپہر کو ایم آر ڈی کا ایک جلسہ ہو رہا ہے اور اس میں جانا چاہیے۔ اسلام آباد میں تب ٹریفک بہت کم ہوا کرتی تھی ڈرائیونگ خاصی آسان تھی۔ دوپہر کو ایک فوکر فلائٹ اسلام آباد سے لاہور جاتی تھی۔ فلائٹ ٹائم سے پچاس منٹ پہلے ہم اسلام آباد سے نکلتے‘ بیس منٹ میں پرانے ایئر پورٹ پہنچتے‘ وہیں سے ٹکٹ خریدتے اور اڑان سے تیس منٹ پہلے جہاز میں قدم رکھتے۔ بھلے وقت تھے‘ پی آئی اے کی ایئر ہوسٹسوں کا معیار بہت مختلف ہوا کرتا تھا۔ 45منٹ کی فلائٹ میں چائے کی درخواست کرتے تو ایئر ہوسٹس بڑی اچھی چائے لے آتیں۔ کتنے سال گزر گئے ہیں لیکن اب بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک کپ پی کر فرمائش کی کہ اتنی اچھی بنی ہوئی ہے ایک اور کپ بنا دیجئے۔ مسکراتے ہوئے ایئر ہوسٹس دوسرا کپ لے آئی۔ عموماً یہ ہوتا کہ مرحوم سلمان تاثیر کی گاڑی ہمارے لیے ایئر پورٹ پر منتظر ہوتی۔ جلسے کوئی اتنے بڑے نہ ہوتے لیکن پھر بھی خواہشات کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ہم اندازہ لگانے کی کوشش کرتے کہ مردِ مومن کے خلاف صحیح معنوں میں کب تحریک زور پکڑے گی۔ وقت ہوتا تو سلمان تاثیر کے گھر کچھ رُک جاتے اور پھر ان کی گاڑی ہمیں ایئر پورٹ پہنچا دیتی۔ شام تک ہم واپس اسلام آباد پہنچے ہوتے۔ اُس زمانے میں بھی خاصی اچھی ایئر لائن تھی لیکن عجیب قسمت ہے یا کسی کی چشمِ بد کہ یہاں کوئی چیز صحیح حالت میں رہ نہ سکی۔ ہمارا کمال یہ ہی رہا کہ جس چیز پر ہاتھ پڑا اسے برباد ہی کیا۔
خیال جاتا ہے ان گزرے وقتوں پر تو پرانے ہندوستانی دوست یاد آتے ہیں جن سے بہت میل جول ہوا کرتا تھا۔ منسٹر کونسلر پٹ وردھن اور ان کی بیگم‘ بعد میں ہندوستان کے سفیر ویتنام میں رہے اور وہیں ایک جہاز کے حادثے میں ان کی موت واقع ہوئی۔ کتنی بار ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے۔ اشوک گپتا اور ان کی بیگم آڑھتی‘ بینر جی اور ان کی بیگم۔ کیپٹن سنیل اور ان کی بیگم ۔ نیول اتاشی تھے۔ بیگم اسلام آباد کلب میں سکواش کھیلنے آتیں تو توجہ کا مرکز بن جاتیں۔ اور بھی بہت تھے کن کن کا نام لیں۔ ہم ان کی دعوتوں پر جاتے لیکن اپنے گھر بلاتے نہیں تھے کیونکہ خیال آتا کہ کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو جائے۔ اپنے گھر نہ بلانے کا افسوس رہے گا لیکن ان میں سے کئی تھے جن سے ملاقات دِلی میں ہوئی جب ہم کسی دورے پر وہاں جاتے۔
اس لحاظ سے مردِ حق کا زمانہ اچھا تھا کہ ایک حد تک دونوں ممالک میں کچھ روابط تھے۔ دشمنی تب بھی تھی لیکن دشمنی کا انداز کچھ مہذب تھا۔ آج تو سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved