کارکردگی کیا بیانیے کا توڑ ہو سکتی ہے؟ مریم نواز صاحبہ کا خیال تو یہی ہے۔ آئیے اس خیال کا تجزیہ کرتے ہیں۔
کارکردگی اور بیانیے میں فرق یہ ہے کہ کارکردگی کا ثبوت علم بالحواس سے فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اگر حواس سلامت ہوں‘ آنکھیں دیکھتی اور کان سنتے ہوں‘ حسِ شامہ بھی بیدار ہو تو ایک پیکرِ محسوس کا اثبات ممکن ہے۔ بیانیہ ایک نظری معاملہ ہے۔ یہ ذہن کی مشقت ہے۔ حواس اس باب میں معاون تو ہو سکتے ہیں‘ فیصل نہیں۔ فیصلہ عقل کی عدالت میں ہونا ہے۔ بیانیہ دلیل کا محتاج ہوتا ہے اور یہ جنس جذبات کے بازار میں نہیں ملتی۔ اس کی جائے قیام عقل وخرد کی وادی ہے۔
حواس سلامت ہوں تو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں کوئی منتظم ہے جسے یہاں کی صفائی کا خیال ہے۔ جسے راہوں اور شاہراہوں کی تعمیر سے دلچسپی ہے۔ جسے عوام کے جان ومال کی فکر ہے اور جو چاہتا ہے کہ یہاں بسنے والوں کو موسمی آفات کے حوالے نہ کیا جائے۔ جو برسرِ پیکار ہے کہ موجود ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو اور نئے شفاخانے بھی تعمیر ہوں۔ نئی نسل کی صلاحیتوں کو جلا ملے اور ان کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں۔ جو خواتین کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ جو شب وروز اپنے وجودکا احساس دلاتا ہے اور حواس کا علم اس کی تصدیق کرتا ہے۔
مریم نواز صاحبہ کا سامنا ایک ایسے گروہ سے ہے جس کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ اس کے پاس ایک بیانیہ ہے۔ وہ کارکردگی کے مقابلے میں بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اس کے پاس بارہ برس سے ایک صوبے کی حکومت ہے۔ اپنے اور بیگانے‘ سب متفق ہیں کہ کارکردگی کے باب میں اس کے دامن میں ایسا کچھ نہیں ہے‘ علم بالحواس جس کی تصدیق کرتے ہوں۔ یہ گروہ چاہتا تو گندم کا جواب گندم سے دے سکتا تھا۔ اس کے پاس گندم مگر ہے نہیں۔ اس لیے وہ اس کے جواب میں چنے پیش کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 'چنے‘ خوب بک رہے ہیں۔ اس گروہ کی دکان پر گاہکوں کا رش ہے۔ عوام کو 'گندم‘ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ماہرینِ خوراک بتا رہے ہیں کہ ان کی 'غذائی ضرورت‘ گندم ہی سے پوری ہو گی۔ وہ اس کی ایک نہیں سن رہے۔
میں بھی خیال کرتا تھا کہ یہ مقدمہ درست ہے۔ دوسرے گروہ کے پاس بیانیہ ہے۔ گندم نہ سہی‘ چنے تو ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ چنے بھی نہیں ہیں۔ بیانیہ نام کی کوئی شے اس دکان میں نہیں پائی جاتی۔ بیانیے کی تشکیل کے لیے جو لوازم ہیں‘ وہ یہاں میسر نہیں۔ یہاں تو وہ ٹیکسال ہی نہیں جہاں بیانیے ڈھلتے ہیں۔ ایک بیانیہ جس ذہنی مشقت کو لازم کرتا ہے‘ اسے اٹھانے کی کسی میں سکت نہیں۔ یہ ایک واہمہ ہے جو بعض دانشوروں نے پیدا کیا اور سب نے دہرانا شروع کر دیا۔ یہاں جو خام مال موجود ہے‘ اس سے صرف کلٹ بن سکتا ہے اور وہ بن گیا۔ ہیجان کی فضا میں بیانیے نہیں بنتے۔ جسے بیانیہ کہا جا رہا ہے‘ یہ ایک رزمیہ ہے۔ ایک المیہ ہے۔ ایک موقف بھی ہے۔ کچھ شکایات ہیں جو جائز ہو سکتی ہیں۔ کچھ مطالبات ہیں جن کے حق میں آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ بیانیہ اور شے ہے جس کا یہاں کوئی گزر نہیں۔ اس لیے مقابلہ کارکردگی اور بیانیے میں نہیں‘ کارکردگی اور کلٹ میں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا کارکردگی سے کلٹ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کو دیکھنے کے دو زاویے ہیں۔ ایک حکومتی اور دوسرا سیاسی۔ مریم نواز صاحبہ ایک صوبے کی منتظمِ اعلیٰ ہیں۔ ان کو تو ایک ہی میدان میں بروئے کار آنا ہے اور وہ ہے کارکردگی۔ صوبائی حکومت کو عوام کے بعض بنیادی مسائل حل کرنا ہوتے ہیں۔ جیسے تعلیم‘ صحت‘سڑکیں‘صفائی اور اس نوعیت کے دوسرے کام۔ اس کے اقدام سیاسی اور دیگر شناختوں سے ماورا‘ سب کے لیے ہوتے ہیں۔ سڑک بنتی ہے تو اس کے لیے یہ حکم جاری نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں جماعت کے ہمنوا اس پر سفر نہیں کر سکتے۔ مفروضہ یہ ہے کہ کارکردگی ایک سیاسی تائید میں ڈھل جاتی ہے جب اس کے فوائد عوام تک پہنچتے ہیں۔ یہ مگر ایک نارمل معاشرے میں ہوتا ہے۔ جہاں سامنا کسی کلٹ سے ہو‘ کیا وہاں بھی یہ نتائج نکل سکتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں اگلے انتخابات تک انتظار کرنا ہو گا۔ صوبائی حکومت کے پاس مگر کارکردگی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ یہی میدان ہے جس میں اسے بروئے کار آنا ہے۔
دوسرا دائرہ سیاسی ہے جہاں (ن) لیگ کو اپنے جوہر دکھانے ہیں۔ اسے کلٹ کے مقابلے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اپنانی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ سوال مگر پھر وہی ہو گا کہ کیا بیانیے سے کلٹ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟کیا یہ بھی گندم اور چنے کا مقابلہ نہیں؟واقعہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے دائرے ہی میں متحرک ہونا ہے۔ سیاسی عمل اصلاً عقل وخرد کا میدان ہے۔ یہ سیاسی حرکیات کے ادراک کو لازم کرتا ہے۔ یہاںسوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا سامنا اگر ایک کلٹ سے ہو تو اس کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے؟ میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کا کوئی تیار شدہ جواب میسر ہے۔ مذہب میں کلٹ بنتا ہے تو اس کی ایک بنیاد ہوتی ہے جو ما بعد الطبیعیاتی ہے اور اس کے پس منظر میں ایک طویل تاریخ ہے۔ مذہبی کلٹ کا مقابلہ حقیقی مذہب سے ہوتا ہے جس میں بنائے استدلال یکساں ہونے کی وجہ سے جواب دینا ممکن ہوتا ہے۔ سیاست میں کہا جا تا ہے کہ سٹالن ایک کلٹ تھا۔ اس کی بھی ایک نظریاتی بنیاد تھی جو اشتراکیت کے رومان میں تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام چونکہ سفاکی کی حد تک حقیقت پسندانہ ہے‘ اس لیے وہ رومان نہیں بن سکتا تھا۔ اسے مذہب کی ضرورت پیش آئی۔ یہی سبب ہے کہ جب اشتراکی انقلاب کے رومان کے مقابلے میں ایک اسلامی انقلاب کا رومان سامنے آیا تو سرمایہ داری نے اسے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھا اور اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جہادِ افغانستان اس معرکے کا آخری میدان تھا۔
(ن) لیگ کو جس کلٹ کا سامنا ہے‘ اس کا کوئی مذہبی پس منظر ہے نہ سیاسی۔ اس کلٹ سے وابستہ اگر مذہبی پس منظر رکھتا ہے تو یہاں ایک مرشد تلاش کر لیتا ہے۔ اگر غیر مذہبی ہے تو ایک ہیرو دریافت کر لیتا ہے جو پہلے کرپشن اور اب مقتدرہ کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اس پہ مستزاد سوشل میڈیا پر مہارت ہے۔ یہ ایک تباہ کن امتزاج ہے جس کا مقابلہ محض سیاسی حکمتِ عملی سے کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوصف میرا خیال ہے کہ (ن) لیگ کو کارکردگی اور سیاسی حکمتِ عملی ہی پہ ارتکاز کرنا چاہیے۔ شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ عوام کے سوچنے کا زاویہ بدلے۔ وہ سیاسی واجتماعی معاملات میں عقل وخرد سے فیصلے کریں اور اس کے لیے تعلیم اور آگہی پر ساری توجہ مرتکز کرنی چاہیے۔ کلٹ کے مقابلے کی واحد صورت یہ ہے کہ عوام کی شعوری سطح بلند ہو اور وہ زندگی اور سماج کے بارے میں علمی اور عقلی بنیادوں پر سوچ سکیں۔ اس کا فائدہ (ن) لیگ کے ساتھ معاشرے کو بھی ہوگا۔
(ن) لیگ کارکردگی کے محاذ پر کامیابی سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کے لیے اسے کارکردگی کی بنیاد پر ایک سیاسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو کہیں موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرِ دست کارکردگی کلٹ کے قلعے میں کوئی شگاف ڈالنے میں کامیاب نہیں ہے۔ (ن) لیگ کو چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی سے ایک سیاسی روڈ میپ پر بات کرے اور اس کے ان مطالبات پر کان دھرے جن کا تعلق سیاسی حقوق سے ہے۔ اس میں اجتماع کی آزادی سرِفہرست ہے۔ اس کی ایک پیشگی شرط ہے کہ ایک کلٹ کو سیاسی جماعت میں ڈھالا جائے۔ یہ کام کیسے ہو اور کون کرے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved