ہر کچھ دن بعد ادھر جاتا ہوں‘ کوئی اور گرتی دیوار‘ کوئی اور یاد‘ کوئی اور تصویر‘ کوئی اور بالاخانہ ‘ کوئی اور چھت منہدم ہوتے دیکھنے کے لیے۔ ہر بار ملبے کے کچھ نئے ڈھیر زمین سے اُگے ملتے ہیں۔ ہر بار کچھ نئے منظر جو کبھی نہیں دیکھے تھے‘ دکھائی دیتے ہیں۔ ان گلیوں‘ ان چوباروں‘ ان جھروکوں نے بھی یہ منظر اپنی تاریخ میں کہاں دیکھے تھے‘ سو وہ دیکھ رہے ہیں جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سارے منظر بدل گئے ہیں۔ اب مول چند سٹریٹ کے بیچ سے دور تک کا چوک اور منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ سب کہنہ دکانیں‘ سال خوردہ بام ودر‘ قدیم چھجے اور بوسیدہ کھڑکیاں جو ازل سے قائم لگتے تھے‘ اب قائم نہیں ہیں۔ یہ سب پہلے بلڈوزروں کے شور میں آہ وبکا کرتے زمین پر ڈھیر ہوئے ‘ پھر یہ ملبے کے ڈھیر بھی اس زمین سے اُٹھ کر کہیں اور چلے گئے۔ پرانی تعمیرات میں بس ایک پرانی عمارت باقی ہے اور ماضی سے زیادہ واضح انداز میں باقی ہے۔ ایک قدیم بوسیدہ مقبرہ جس کے سر پر نیلے رنگ کے گنبد کی دستار بندھی ہوئی ہے‘ اس گنبد نے اپنے نیلے رنگ سے اس چوک اور اس علاقے کو شہرت دی ہے۔ یہ لاہور کی نیلی دستار ہے۔ یہ لاہور کا نیلا گنبد ہے۔
یہ منظر بالکل نیا اور ناقابل یقین سا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہو گا کہ ساڑھے تین سو سال پرانے اس ہشت پہلو مقبرے کی عمارت کے چاروں اطراف بھی کبھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں؟ لیکن اب آپ اسے چاروں طرف سے گھوم کر دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر چہار طرف جو کچھ تھا‘ ڈھا دیا گیا ہے۔ صدیوں بعد ان سوئے در ودیوار پر دھوپ پڑی ہو گی۔ اس مقبرے نے کتنے عہد دیکھے ہوں گے۔ ابتدائی مغل دور‘ پھر شیر شاہ سوری‘ پھر مغل دور‘ پھر سکھا شاہی دور‘ پھر انگریز‘ اور پھر پاکستان۔ اور یہ تو محض چند پڑائو اور چند منزلیں ہیں۔ نجانے کتنے فاتح‘ کتنے صوبیدار‘ کتنے گورنر‘ کتنے کوتوال‘ کتنے قلعے دار اسی زمین پر دندناتے پھرتے ہوں گے۔ مغل بادشاہ ہمایوں کے دور میں آنے والے بزرگ شیخ عبد الرزاق مکی سہروردی جب غزنی سے لاہور تشریف لائے ہوں گے تو لاہور صرف ان عمارتوں کا نام تھا جن کے چاروں طرف فصیل کھنچی تھی اور فصیل کی مشرقی سمت دریائے راوی بہتا تھا۔ یہ انارکلی بازار اور یہ نیلا گنبد چوک تو محض ویرانے ہوں گے۔ شیخ مکی سیدھے لاہور نہیں آئے۔ غزنی میں وقت گزارا‘ پھر دہلی کی فوج میں بھرتی ہوئے۔ کئی سال وہاں رہے۔ آخر لاہور آئے اور سید میاں محمد شاہ بخاری کی نگاہ کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ اسی دہلیز پر بیٹھ گئے اور تاعمرا ٹھے نہیں۔ یہ سید میاں محمد شاہ بخاری کون تھے بھلا؟ وہی جن کا مقبرہ کسٹم ہائوس پرانی انارکلی کے پاس موج دریا بخاری کے نام سے معروف ہے۔ وہ جن کے ماننے والوں میں ہندوستان کا شہنشاہ اکبر بھی تھا اور ان سے دعا کا طالب رہا کرتا تھا۔ شیخ عبدالرزاق حضرت موج دریا کی چوکھٹ پر بیٹھے اور اسی دریاکی موج میں عمر بسر کر دی۔ بخارا کی نسبت رکھنے والا‘ مکہ کی نسبت کا امین۔ لیکن ایک ہی عشق حقیقی نے دونوں کو اپنی نادیدہ زنجیر میں باندھ رکھا تھا۔ اس دور کے صوفیا شہر سے باہر ویرانے میں کٹیا ڈال کر‘ حجرہ بنا کر رہا کرتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا‘ حضرت علی ہجویری‘ حضرت شاہ چراغ دہلوی‘ بابا فرید شکر گنج‘ سب ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے بزرگ تھے۔ حضرت موج دریا بخاری اور شیخ عبدالرزاق مکی بھی اسی قبیلے کے تھے۔ شہر سے باہر رہنے والے۔ اس وقت کے نجانے کتنے عوام اور خواص ان سے فیضیاب ہوئے۔ کتنے ہی دلوں کی حالت بدلی۔ آخر ہر سانس لینے والے کی طرح ان دونوں نے بھی مٹی اوڑھ لی۔ شیخ ومرید کے مقبروں میں ایک دو فرلانگ ہی کا فاصلہ ہوگا۔
میں نے بلامبالغہ اس نیلا گنبد کو سینکڑوں بار دیکھا۔ ایک تو اس لیے کہ اسی چوک کے قریب میرے والد کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ نیلا گنبد کے سامنے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ جو سڑک انارکلی کی طرف جاتی ہے‘ اسے ایونگ روڈ کہتے ہیں۔ اس سڑک پر بائیں ہاتھ ایک بند گلی ہے جس میں مسجد بھی ہے۔ سامنے جو گھر یہ گلی بند کرتا ہے‘ وہاں میرے والد کم وبیش دس سال رہے۔ ہم کئی بہن بھائیوں کی پیدائش اسی گھر کی ہے۔ ایونگ روڈ آگے مڑ کر دھنی رام روڈ بنتی اور انارکلی سے جا ملتی ہے۔ ہم گھر سے نکلتے تھے تو سامنے نیلا گنبد تھا۔ چھت پر پتنگ اڑانے جاتے تو نیلا گنبد سامنے ہوتا۔ اسی چوک میں قربانی کے بکرے ٹہلانے لے جاتے۔ عیدین کی نمازیں چوک میں صفیں بچھا کر نیلا گنبد کے سامنے پڑھتے۔ قریب انارکلی میں والد کی کتابوں کی دکان تھی اور اب میرا دفتر ذرا سا دور‘ مال روڈ پر موجود ہے۔ لہٰذا ہزاروں بار اس گنبد کو دیکھا لیکن ایک بچے کی آنکھ کا وہ منظر اب تک حافظے میں منجمد ہے جس میں وہ عید کی نماز کیلئے اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ چوک میں بچھی صف پر بیٹھا ہے۔ گنبد کے ساتھ نور محل ہوٹل کے سامنے ایک غبارے والا ایک بانس پر رنگ برنگ غبارے لیے کھڑا ہے اور بچہ سوچ رہا ہے کہ وہ جو سب سے بڑا اور حسین رنگ برنگ غبارہ بانس کی پھننگ پر ہے‘ نجانے کون خوش نصیب بچہ وہ خریدے گا۔ نیلا گنبد مقبرہ ایک احاطے میں تھا۔ اس احاطے کا ایک پرانا سا دروازہ تھا۔شاید کسی وقت یہ احاطہ سرائے رہا ہو۔ احاطے میں داخل ہوں تو پہلے بائیں ہاتھ پر مقبرے کی عمارت اور دروازہ تھا۔ یہاں اندر جاتے ڈر لگتا تھا۔ مزار پر چادریں پڑی رہتیں اور جلی ہوئی اگر بتیوں کے ٹکڑے فرش پر بکھرے ہوتے۔ پرانے طاق چراغوں کے دھویں سے سیاہ پڑ چکے تھے۔ احاطے میں کچھ مکانات تھے۔ شروع میں شجاع صاحب کا مٹھائی کا کارخانہ تھا۔ یہ بند گلی والا احاطہ تھا۔ بائیں ہاتھ یہ گلی مڑتے مڑتے آخری گھر پر پہنچ جاتی تھی۔ یہ گھر مقبرے کی بالکل بغل میں تھا اور اس کے صحن سے مقبرہ اور نیلا گنبد ایک بڑے پہاڑ کی طرح نظر آتا تھا۔ یہاں قاری فیوض الرحمن عثمانی کی بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ یہ ہماری عزیزہ بزرگ تھیں اور ہم انہیں تائی اماں کہتے تھے۔ ہم بہن بھائی ان سے قاعدہ اور سپارہ پڑھنے جایا کرتے تھے۔ تائی اماں کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ حروف تہجی ہم نے انہی سے سیکھے اور نیلا گنبد کا فیض ہے کہ اسی کے سائے تلے توتلی زبان سے پہلی بار یہ حروف ادا کیے۔ وہ دوربھی ختم ہوا اور اب یہ سب احاطہ‘ سب مکان‘ سب دکانیں ختم ہو چکی ہیں۔
حضرت شیخ عبدالرزاق مکی کا وصال اکبر کے عہد میں ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کا یہیں حجرہ اور دالان تھا۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی جگہ دفن کیا گیا۔ ایک زمانے تک قبر کچی تھی۔ پھر 1674ء میں اس پر عمارت بنائی گئی۔ ایک عجیب بات آپ کو معلوم نہیں ہو گی۔ ایک نیلا گنبد دہلی میں بھی ہے۔ وہ بھی ایک مقبرہ ہے۔اس کی ساخت بھی بالکل یہی ہے اور اس کا گنبد بھی نیلا ہے۔ دہلی کا نیلا گنبد ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں ہے‘ اور بادشاہ کے کسی اہم ملازم کا مقبرہ بتایا جاتا ہے۔ سکھ دور میں لاہور کے نیلا گنبد مقبرے اور مسجد کا تقدس بری طرح پامال ہوا۔ یہی صورت انگریز دورِ حکومت میں بھی رہی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ مغل ادوار تک لاہوری دروازے کے باہر کھلا میدان اور ویرانہ تھا۔ یہاں لشکری ٹھہرا کرتے تھے۔ سکھ دور میں اس جگہ کچھ دکانیں قائم ہونا شروع ہوئیں جو رفتہ رفتہ بازار میں ڈھل گئیں۔ قریب ہی انارکلی باغ کی وجہ سے اس کا نام بھی انارکلی پڑ گیا۔ یہ بات بھی بہت سے لوگوں کیلئے شاید نئی ہو کہ انارکلی بازار اور نیلا گنبد چوک شروع میں گوروں کی چھائونی تھی اور مقبرے کا کوئی احترام نہیں تھا۔ پھر خراب آب وہوا کی وجہ سے گوروں کو میاں میر چھائونی میں منتقل ہونا پڑا۔
نیلا گنبد میرے بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی اور ادھیڑ عمری کا دوست ہے۔ لیکن یہ دوست باقی رہے گا اور ہم ختم ہو جائیں گے۔ لوگوں کو بیس تیس سال بعد یاد بھی نہیں رہے گا کہ 2025ء میں اس کی صورت کیسی تھی۔ لیکن نیلا گنبد لاہور کا نشان رہے گا۔ لاہور کے سر پر نیلی دستار بندھی رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved