دسمبر کی 25 تاریخ میرے لیے ہمیشہ بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک تو یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا یومِ ولادت ہے‘ دوسرا مسیحی برادری اسی روز اپنا تہوار‘ کرسمس مناتی ہے۔ بچپن سے اس تہوار میں مجھے کشش محسوس ہوتی ہے۔ ہم جب کارٹون دیکھتے تھے تو اس میں کرسمس اتنا رنگین ہوتا تھا‘ ہر طرف برف‘ روشنیاں‘ کرسمس درخت اور سینٹا کی آمد اور تحائف‘ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت اچھا لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس دن جو چاہو وہ مل جائے گا کیونکہ ہالی وُڈ فلموں میں اس تہوار کو ایسے ہی پیش کیا جاتا ہے۔ میں اپنے مسیحی کلاس فیلوز اور اساتذہ کو کارڈ بنا کر دیا کرتی تھی۔ بچپن بھی کیا حسین دور تھا‘ جس میں کوئی نفرت یا دکھ نہیں تھے۔ کوئی طبقاتی تفریق نہیں تھی۔
ہر سال کرسمس پر بہت ساری فلمیں ریلیز ہوتی ہیں‘ جن میں اس تہوار کو بہت رومانوی‘ محبت سے بھرپور اور پُرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سارا سال شاید سب اچھا نہ بھی ہو تو کرسمس پر ضرور کچھ اچھا ہوگا۔ ہالی وڈ کے کارٹون ہوں یا موویز‘ آپ کو ایک جادوئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جہاں صرف پیار ہے‘ امن ہے اور بہت سارے تحائف۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں مسیحی برادری طبقاتی تفریق کا شکار ہے اور زیادہ تر افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے انہیں 25 اور 26 دسمبر کو چھٹی مل جائے تو تنخواہ اور بونس نہیں ملتا۔ نہ ہی ان کیلئے تفریحی مواقع ہوتے ہیں‘ نہ ہی تحائف ملتے ہیں۔ مجھے آج بھی ایسٹر کے موقع پر لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والا دھماکہ اور پشاور کا چرچ بلاسٹ یاد ہیں۔ کرسمس جس کو ایک محبت سے بھرپور تہوار ہونا چاہیے‘ ہم پاکستانی اپنی مسیحی برادری کو یہ تہوار اس انداز میں دینے سے قاصر ہیں۔ وہ غربت‘ ناانصافی‘ غیر منصفانہ تقسیم‘ تعلیم کی کمی‘ طبی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہیں‘ اچھی رہائش اور اچھی نوکریوں سے محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں وہ چند مخصوص شعبوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ وہ بھی بطور پاکستانی دیگر شہریوں کی طرح ہر چیز پر پورا حق رکھتے ہیں۔ ان کے تہور پرانہیں تین دن کی چھٹی‘ بونس اور ایڈوانس تنخواہ دینی چاہیے۔ ان کیلئے فیسٹیولز کا انعقاد کرنا چاہیے۔ مگر شاید ابھی ہم اس منزل سے بہت دور ہیں۔ آج کل تو کچی بستیوں کے خلاف سرکاری مہم بھی تیزی سے جاری ہے جہاں بہت سے مسیحی برسوں سے مقیم ہیں۔ اگر متبادل جگہ پر رہائش دی جارہی ہے تو ٹھیک لیکن کسی غریب کے سر سے چھت چھین لینے سے آپ شہر کو خوبصورت اور آباد نہیں بنا سکتے۔ ان بستیوں میں نہ ہی صاف پانی میسر ہے‘ نہ گیس‘ نہ گلیاں پکی ہیں نہ ہی نکاسی کا نظام ہے۔ ان کو اچھی متبادل رہائشیں دی جانی چاہئیں یا ان بستیوں کے مکانوں کے مالکانہ حقوق ان کو دے دئیے جائیں۔ ایک اور 25 دسمبر گزر گیا مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ کاش کہ ان کے بچوں کے ہاتھ سے جھاڑو لے کر کوئی انہیں قلم پکڑا دے۔ نجانے کب اقلیتوں کی فلاح کیلئے کام کا آغاز ہوگا۔ ہمارے قائد نے اقلیتوں کو پاکستان میں ہر قسم کی آزادی دینے کا اعلان کیا تھا‘ ہمارے پرچم میں سفید رنگ ان کی موجودگی کی علامت ہے مگر شاید قبولیت کی گھڑی ابھی کوسوں دور ہے۔
25 دسمبر قائداعظم کی افکار کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ ان جیسا لیڈر دوبارہ پاکستان کو نصیب نہیں ہوا۔ ہماری بدقسمتی کہ پاکستان بنانے والے قابل لیڈر جیسا حکمران دوبارہ ہمیں نصیب نہیں ہو سکا۔ ہم نے انہیں صرف روایتی تصویر یا تہنیتی پیغامات تک محدود کررکھا ہے۔ اگر ان کی زندگی کو مشعل راہ بنا لیا جاتا‘ ان کے افکار پر عمل کیا جاتا تو آج شاید پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔ ہماری اشرافیہ نے ان کی دیانتداری‘ بصیرت اور افکار سے کچھ نہیں سیکھا۔ قائد امیر ترین وکیل تھے مگر سیاست میں آ کر کم پر گزارہ کیا۔ ہماری اشرافیہ خود تو امیر ہوتی گئی لیکن ملک غریب سے غریب تر ہوگیا۔ کاش کوئی تو بانیٔ پاکستان کے نقش قدم پر چلتا۔ آج نظریے اور اصول سے زیادہ پیسے‘ طاقت اور عہدے کی اہمیت ہے۔ اس لیے بانیٔ پاکستان سے وابستہ چیزوں کو میوزیم کی زینت بناکر وہیں تک محدود کردیا گیا ہے۔ قائداعظم نے جب تک وکالت کی وہ چوٹی کے وکیل رہے۔ کوئی ان کو ڈرا یا جھکا نہیں سکا۔ ان کے دلائل لاجواب تھے۔ خوش لباسی ان کی شخصیت کو مزید چار چاند لگا دیتی۔ ان کے قانونی نکتے سامنے والے کو بے بس کردیتے تھے۔ جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ وہ پہلے ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے لیکن آہستہ آہستہ انہیں اندازہ ہوا کہ ہندو مسلمانوں سے تعصب رکھتے ہیں اس لیے برصغیر میں مسلمانوں کا الگ ملک ہونا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانانِ ہند کے حقوق پر کام شروع کیا۔ وہ انہیں تعلیمی‘ سیاسی‘ سماجی طور پر مضبوط دیکھنے کے خواہاں تھے۔ قائداعظم کی کرشماتی شخصیت‘ ایمانداری‘ ذہانت اور محنت کی وجہ سے تحریکِ آزادی نے جنم لے لیا۔ ان کی صحت تیزی سے گررہی تھی لیکن انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور مسلمانوں کے مفادات پر کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کیا۔ ایک نڈر اور ایماندار لیڈر ہی ایسی تحریکوں کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ قائداعظم میں وہ تمام اوصاف تھے جو ایک رہبر رہنما میں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کا درس دیا۔ وہ دیکھنے میں لبرل اور ماڈرن تھے لیکن ساتھ ہی وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ جتنا انہوں نے مسلمانوں کے مفاد کیلئے کام کیا شاید ہی دورِ حاضر میں کسی رہنما نے کیا ہو۔ قائداعظم نے فرمایا: وہ کون سا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہوکر جسدِ واحد کی طرح ہوجاتے ہیں۔ وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔ ایک اللہ‘ ایک رسول اور ایک امت کا رشتہ ہے۔ قائداعظم کیلئے مذہب قومیت سے بھی پہلے تھا۔ قائداعظم پاکستان میں صرف جمہوریت دیکھنے کے خواہاں تھے۔ وہ جمہوریت اور اسلام کے نام پرایک فلاحی ریاست کے قیام کے خواہاں تھے‘ جہاں اصل حاکم عوام ہوں۔انہوں نے 1948 میں سبی میں خطاب کے دوران فرمایا کہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبر اسلامﷺ نے ہمارے لیے چھوڑا ہے۔ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیاد سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا: پاکستان میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں گے۔ قائداعظم نے مارچ 1948ء میں ڈھاکہ ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو مکمل آزادی ہے کہ آپ اپنی آئینی حکومت بنائیں اور کوئی بھی گروہ غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو ختم نہیں کرسکتا نہ ہی اپنی رائے منتخب حکومت پر مسلط کرسکتا ہے۔ قائداعظم پاکستان میں تمام لوگوں کے مساوی حقوق چاہتے تھے۔ انہوں نے اقلیتوں کے حقوق پر خاص زور دیا۔ تاہم پاکستان نہ ہی مکمل اسلامی‘ نہ فلاحی اور نہ ہی جمہوری ریاست بن سکا۔
آج ملک کے حالات دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ غربت‘ ناانصافی‘ بے چینی عروج پر ہے۔ اقربا پروری اور کرپشن نے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کرڈالا ہے۔ امیر جرم کرے تو قانون بھی اس کے سامنے جھک جاتا ہے مگر غریب پر جھوٹے پرچے ہوجاتے ہیں۔ میرٹ کے قتل عام اور موروثیت نے جمہوریت کو گہنا دیا ہے۔ لوگوں کو نہ ملک میں جینے دیا جارہا ہے نہ ہی سکون سے باہر جانے دیا جاتا ہے۔ آف لوڈ کے نام پر شہریوں کے لاکھوں روپے ضائع ہورہے ہیں۔ سڑک اپنی تعمیر کے ایک ہفتے کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے تو بھی کوئی جواب طلبی نہیں۔ سیاسی اختلافات پر لیڈران جیلوں میں بند ہیں اور ایک ٹویٹ کرنے پر جیل ہوجاتی ہے۔ درخت کاٹ کاٹ کر فضا کو آلودہ کیا جا رہا ہے ۔ برین ڈرین‘ صحافت کی زبوں حالی‘ صنعتوں کی بندش ‘ کتنے ہی مسائل ہیں‘ کس کس کا ذکر کریں۔ ایک اور 25 دسمبر گزر گیا مگر کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ سب ویسا کا ویسا ہے جیسا قائداعظم کے جانے کے بعد پاکستان کا حال تھا۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved