اس ملک میں ویسے تو ہر کام پر ہی اعتراض ہوتا ہے لیکن جہاں معاملہ پیسوں کا آن پڑے وہاں تو ایسی دھما چوکڑی مچتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس ملک میں پیسے سے متعلق جتنے کام بھی ہوتے ہیں وہ ہیر پھیر اور گڑ بڑ گھوٹالے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ نجکاری ایک ایسا موضوع ہے کہ دو طرفہ طور پر اس کے فوائد اور نقصانات پر لمبی گفتگو ہو سکتی ہے۔ ہر فریق اس سلسلے میں ایسے ایسے نادر دلائل دے گا کہ بندہ پہلے حیران ہوگا اور پھر پریشان ہو جائے گا۔
نجکاری کا تازہ ترین واقعہ پی آئی اے کی فروخت ہے۔ قومی ایئر لائن کی فروخت کا موضوع ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے اور یہ عاجز اس پر خامہ فرسائی کی کوشش بھی کرے گا مگر فی الوقت تو حالیہ فروخت ہونے والے نئے نکور سودوں سے کچھ پرانے سودے یاد آ گئے ہیں اور ان سے حاصل وصول ہونے والی رقم کے ساتھ جو وارداتیں ہوئی ہیں‘ وہ بھی یاد آ گئی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ نابغہ وہ ہے جو دوسروں کے تجربوں سے سبق حاصل کرے، عقلمند وہ ہے جو اپنے تجربے سے سبق حاصل کرے اور احمق وہ ہے جو تجربوں سے بھی سبق حاصل نہ کرے۔ اور ہماری سرکار وہی احمق ہے۔
فی الوقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق سرکار نے پی آئی اے کے 75فیصد حصص مبلغ 135 ارب روپے میں فروخت کر دیے ہیں۔ اب ان 135 ارب روپوں کی کیا حقیقت ہے‘ یہ بات حسبِ وعدہ آئندہ کسی کالم میں بیان کروں گا۔ تاہم اس فروخت‘ اس کی رقم اور اس سلسلے میں فریقین کے الگ الگ بیانات سے قطع نظر کم از کم میں اس بارے میں کسی شک وشبہ کا شکار نہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری ناگزیر تھی۔ قومی فلیگ کیریئر وغیرہ جیسا ایموشنل بلیک میلنگ والا نام استعمال کرنا ایک الگ چیز ہے اور حقائق بالکل مختلف۔ آپ مجھے غلط کہیں یا صحیح سمجھیں لیکن میں نہ صرف پی آئی اے بلکہ گھاٹے میں چلنے والے اور کئی سرکاری کاروباری اداروں کی فروخت کے حق میں ہوں کہ کاروباری ادارے چلانا حکومتوں کا کام ہی نہیں۔ حکومتوں کا کام عوام کو ان کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا، انہیں بنیادی حقوق مہیا کرنا اور ان کے جمہوری حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ کاروبار کرنا عوام کا‘ پرائیویٹ اداروں کا اور نجی کارپوریشنوں کا کام ہے۔ سرکار کا کام عوام کو تعلیم‘ صحت‘ عدل وانصاف اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی حکومت کیلئے نفع بخش نہیں ہے۔ یہ سارے کام ایسے ہیں جن میں سرکار کو عوام پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور کاروباری زبان میں یہ سب کچھ سراسر گھاٹے کے کام ہیں۔ کارِ سرکار کاروباری بنیادوں پر نہیں، فلاحی بنیادوں پر چلتاہے۔ سرکار ملک میں اس سارے نظام کو چلانے کے عوض عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور پھر اس ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کو دوبارہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دیتی ہے۔ ٹیکسوں یعنی محاصل کی وصولی اور ملک کے قدرتی وسائل اور ان سے جڑے ہوئے زمینی خزانوں کے علاوہ اور کوئی ایسا کاروبار نہیں جسے چلانے کی سرکار میں اہلیت ہو۔ اور ہماری سرکار خواہ اب والی ہو یا اس سے پیشتر والی کوئی بھی حکومت‘ اس میں یہ کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں‘ اور ہو بھی کیسے؟ کاروبار کیلئے ضروری ہے کہ اسے چلانے والا اس کے نفع نقصان میں براہِ راست حصہ دار ہو۔ بے ایمان سرکاری بابو سے یہ امید کار لاحاصل ہے۔ پی آئی اے وغیرہ جیسے اداروں کو چلانے والے تنخواہ دار ملازم اور ان کی نگرانی پر مامور سرکاری بابو مالِ مفت دلِ بے رحم والا معاملہ کرتے ہوئے موج میلہ تو کر سکتے ہیں کاروبار کو منافع میں نہیں چلا سکتے۔ سو یہ عاجز پی آئی اے کی فروخت پر ایک سطری تبصرہ کرے تو صرف یہی کہے گا کہ خس کم‘ جہاں پاک۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم کوئی کمرشل ادارہ چلا بھی نہیں سکتے اور اسے سلیقے سے فروخت بھی نہیں کر سکتے۔ جب ہم اپنا کوئی ادارہ بیچنے لگتے ہیں تو ہماری حالت اس فقیر کی سی ہوتی ہے جو کچھ بھی مل جانے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اب پی آئی اے 135 ارب روپے میں بیچی ہے اور اس 135 ارب روپے کا فیصلہ خریدار نے کیا ہے کہ اس نے اس 135ارب روپے میں سے کتنے پیسے کس کو دینے ہیں اور کتنے پیسے کہاں خرچ کرنے ہیں۔ خرچ کرنے بھی ہیں یا نہیں‘ اس پر اب کم از کم ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد آئی کہ خریدار پارٹی چیز خریدنے کے بعد اس کی شکل کو تبدیل کرنے‘ حکم امتناع لینے اور عدالتی جادوگریاں دکھانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔
1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتیں قومیانے والی حماقت کے دوران سرکاری قبضہ میں لی گئی پرائیویٹ سیمنٹ فیکٹریوں کا انتظام چلانے کیلئے سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن قائم کی گئی۔ دیگر بہت سی سیمنٹ فیکٹریوں کی طرح جب ولیکا سیمنٹ فیکٹری قومیائی گئی تو اس کا نام جاوداں سیمنٹ رکھ دیا گیا۔ دیگر اداروں کی مانند جاوداں سیمنٹ کمپنی کو بھی پرائیویٹ سیکٹر میں فروخت کر دیا گیا۔ 2006ء میں یہ سیمنٹ کمپنی کسی حاجی غنی عثمان اینڈ گروپ نے 96.34فیصد حصص کی نجکاری کے تحت خرید لی۔ بعد ازاں عارف حبیب گروپ نے اس سیمنٹ کمپنی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس کے اکثریتی حصص خرید کر اس کی حصولیت (Acquisition) حاصل کر لی۔ چند سال بعد اس سیمنٹ کمپنی کو معاہدے سے ہٹ کر سیمنٹ کمپنی کی ایک ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زمین کو پلاٹ بنا کر فروخت کر دیا گیا۔ سیمنٹ فیکٹری گئی بھاڑ میں اور ورکر گئے جہنم میں۔ سرکار نے واویلا مچاتے ہوئے عدالت سے رجوع کر لیا۔ سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے اس پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔ اس کے بعد راوی چین اور سکون لکھتا ہے۔
اللہ جانے کل کلاں پی آئی اے کا کیا بنتا ہے۔ اس کے دفاتر میں بینک کھلتے ہیں‘ اس کے جہاز علیحدہ فروخت ہوتے ہیں‘ ہوٹل کہاں جاتے ہیں، ملازموں کا کیا مستقبل ہے اور جائیداد کا کیا بنتا ہے؟ اونٹ کے منہ میں زیرہ ٹائپ 10 ارب بھی حکومت کو ملتے ہیں یا اس پر بھی پھڈا ڈال کر دبا لیے جاتے ہیں‘ کچھ علم نہیں۔ آخر ہم لوگوں نے 2005ء میں اپنی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی پی ٹی سی ایل بھی تو متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی کو 26 فیصد حصص اور انتظامی کنٹرول کے ساتھ تقریباً 2.6ارب ڈالر میں فروخت کی تھی۔ کل 2025ء بھی گزر جائے گا اور عالم یہ ہے کہ 2.6ارب ڈالر میں سے تقریباً 1.8 ارب ڈالر وصول ہوئے اور تقریباً 800 ملین ڈالر‘ جو آج کے ریٹ کے مطابق 224ارب روپے بنتے ہیں‘ بیس سال سے واجب الوصول ہیں اور ہم اپنے خارجہ تعلقات کے خراب ہونے کے خوف سے متحدہ عرب امارات سے معاملہ مذاکرات اور گفتگو سے طے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ درمیان میں مسئلہ پی ٹی سی ایل کی پراپرٹی کی ملکیت اور ٹرانسفر پر آن پھنسا ہوا ہے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ سب کچھ ٹرانسفر ہو چکا ہے مگر دوسری طرف کا مؤقف ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ بہرحال گزشتہ بیس سال سے معاملہ حل طلب اور 800ملین ڈالر واجب الوصول ہیں۔ شنید ہے اب متحدہ عرب امارات کو ہی اس کے ادھار میں دیے گئے تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر کے عوض فوجی فاؤنڈیشن کے حصص فروخت کیے جا رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس سودے کیلئے طے شدہ رقم ہم پیشگی ہی وصول کر چکے ہیں‘ وگرنہ یہ بھی پھڈے میں پڑ جاتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کے دعوے کے مطابق معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں تو پھر قومی اثاثے کیوں بیچے جا رہے ہیں؟ اور اگر قومی اثاثے بیچ کر معاملات چلائے جا رہے ہیں تو معیشت کیسے بہتر ہے؟ میری تو عقل فیل ہو گئی ہے اگر کسی سیانے کو جواب معلوم ہو تو بتا کر اس عاجز کی پریشانی رفع فرما دے‘ اس کی مہربانی ہوگی۔ بس ایک جواب کا سوال ہے بابا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved