تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     30-12-2025

مزاحمت یا مفاہمت؟ پی ٹی آئی کا امتحان

ریاست کی بقا اور ترقی کا دار و مدار اس کے سیاسی ڈھانچے کے استحکام پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا‘ اس کے اثرات محض ایوانوں تک محدود نہیں رہے بلکہ عام آدمی کی زندگی‘ قومی سلامتی اور خاص طور پر ملکی معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پچھلے چند برسوں سے ملک ایسے ہی سیاسی بحران کی زد میں ہے جہاں ایک طرف حکومت اپنی عددی اکثریت اور مقتدرہ کی حمایت کے ساتھ استحکام کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے مزاحمت کا ایسا سلسلہ جاری ہے جس نے فضا میں بے یقینی پیدا کر رکھی ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال انتہائی اہم ہو گیا ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اپنی بقا اور ملکی مفاد کی خاطر مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر مفاہمت کی طرف آئیں گی یا یہ بحران کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گا؟
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں حکومت بظاہر مضبوط پوزیشن پر کھڑی ہے۔ ایوان کے اندر اس کی عددی گنتی پوری ہے اور اتحادی جماعتوں کے درمیان اعتماد کا ایسا رشتہ موجود ہے جو فی الحال ٹوٹتا ہوا نظر نہیں آتا۔ حکومت کو مقتدرہ کی تائید بھی حاصل ہے‘ جس کی وجہ سے اپوزیشن کی جانب سے شروع کی گئی مزاحمت وہ نتائج حاصل نہیں کر سکی جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم سیاست میں بظاہر نظر آنے والا سکون ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی مزاحمت اس وقت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اسکے کارکنوں اور قیادت میں موجود لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حکومت اور اسکے اتحادی بخوبی جانتے ہیں کہ سیاسی بے چینی جب عوامی سطح پر جڑیں پکڑ لے تو وہ کسی بھی وقت سیاسی بھونچال کی صورت اختیار کر سکتی ہے‘ یہی وہ فکر ہے جو حکومت کو مسلسل بے چین کیے ہوئے ہے۔
پیپلز پارٹی چونکہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے اس لیے اسے بھی سیاسی بحران کی اتنی ہی فکر ہے جتنی مسلم لیگ (ن) کو ۔ بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جہاں سیاسی بحران ہوتا ہے وہاں معاشی بحران بھی ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو نے جس طرف اشارہ کیا اس سے انکار کی گنجائش نہیں کیونکہ سرمایہ کار‘ چاہے وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی‘ ہمیشہ وہاں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں جہاں پالیسیوں میں تسلسل اور سیاسی ماحول میں ٹھہراؤ ہو۔ اس کے برعکس جب کسی ملک میں روزانہ احتجاج‘ گرفتاریاں اور سیاسی محاذ آرائی ہو رہی ہو تو معاشی اشاریے گرنے لگتے ہیں۔ مہنگائی‘ بیروزگاری اور روپے کی قدر میں کمی اسی سیاسی عدم استحکام کی پیداوار ہوتی ہے۔ سرمایہ کار ایسے ملک کا رخ کیوں کریں گے؟ بلاول بھٹو کا یہ کہنا بجا ہے کہ جب تک سیاسی تقسیم ختم نہیں ہو گی‘ ملک معاشی بحران کی دلدل سے نہیں نکل سکے گا۔ معیشت کی بحالی کیلئے پہلا قدم سیاسی جنگ بندی ہے تاکہ ریاست کی تمام تر توجہ ترقیاتی ایجنڈے پر مرکوز ہو سکے۔
سیاست میں اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے‘ لیکن جب یہ اختلاف دشمنی اور انتہا پسندی میں بدل جائے تو یہ رویہ سیاسی جماعتوں کیلئے زہرِ قاتل بن جاتا ہے۔ بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر جس سیاسی انتہا پسندی کی مذمت کی وہ دراصل اس طرزِ سیاست کی طرف اشارہ ہے جہاں اداروں کو گالیاں دینا یا نو مئی جیسے واقعات سیاست کے دائرے میں نہیں آتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جو سیاسی جماعتیں مسلسل ریاست اور اداروں سے تصادم کا راستہ اختیار کرتی ہیں‘ وہ نہ صرف اقتدار سے محروم ہوتی ہیں بلکہ ان کا سیاسی وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ سیاسی مزاحمت جب ریاستی مزاحمت میں تبدیل ہو جائے تو پھر قانونی اور انتظامی گرفت سخت ہونا لازمی ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سیاست کو انتہا پسندی کے لیبل سے کیسے پاک کرے اور دوبارہ جمہوری عمل کا حصہ کیسے بنے۔ بلاول بھٹو نے اپنی جماعت کی تاریخ پیش کر کے دراصل پی ٹی آئی کو اہم پیغام دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی‘ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت اور آصف علی زرداری کی طویل قید کے باوجود پیپلز پارٹی نے کبھی غیرجمہوری راستہ اختیار نہیں کیا۔ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ سیاسی انتہا پسندی کو رد کیا اور آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر ملک کو ٹوٹنے سے بچایا۔ یہ مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں زخم کھا کر بھی ریاست کے مفاد میں جھکنا سیکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے آمریت کا مقابلہ کیا لیکن کبھی اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی۔ یہ پیغام دراصل پی ٹی آئی کیلئے ہے کہ اگر اتنی مشکلات کے باوجود پیپلز پارٹی مفاہمت کے ذریعے قومی سیاست میں اپنا مقام برقرار رکھ سکتی ہے تو دوسری جماعتیں کیوں ملکی مفاد میں لچک نہیں دکھا سکتیں؟
موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے آصف علی زرداری کا نام ایک ممکنہ حل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ انہیں سیاسی حلقوں میں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ متضاد خیالات رکھنے والی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے کا فن جانتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ زرداری صاحب سیاسی بحران ختم کر سکتے ہیں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف بڑھیں۔ اگر پاکستان تحریک انصاف مزاحمت کا راستہ ترک کر کے مفاہمت کی جانب قدم بڑھاتی ہے تو اس کا بڑا فائدہ خود اس کی اپنی سیاسی بقا کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اس وقت تحریک انصاف ایک ایسی بند گلی میں کھڑی ہے جہاں اس کی آواز مؤثر طریقے سے ایوانوں اور مقتدر حلقوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ مفاہمت کا عمل اختیار کرنے سے نہ صرف مذاکرات کے ذریعے قانونی پیچیدگیوں کو سلجھا کر قیادت کی رہائی اور ریلیف کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے بلکہ اس سے پی ٹی آئی کی سیاسی تنہائی کا بھی خاتمہ ہو گا اور وہ دوبارہ قومی دھارے کی سیاست میں ایک فعال قوت بن کر ابھر سکے گی۔ اس مفاہمتی عمل کے ذریعے پارٹی اپنے تحفظات کو اقتدار کے تمام شراکت داروں کے سامنے احسن انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو جائے گی‘ کیونکہ جمہوری نظام میں اقتدار تک واپسی کا راستہ تصادم سے نہیں بلکہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر ہی طے کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ کسی بھی سیاسی مہم جوئی یا ہیجانی کیفیت سے گریز کیا جائے‘ کیونکہ وطن عزیز مزید عدم استحکام کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس نازک موڑ پر جہاں حکومت کی یہ آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی تلخیوں کے خاتمے کیلئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کیلئے مذاکرات کی راہ ہموار کرے‘ وہیں پاکستان تحریک انصاف کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ مسلسل محاذ آرائی اور تصادم کی روش اسے سیاسی تنہائی کے سوا کچھ نہیں دے گی۔ سیاست کے میدان میں پائیدار وجود کا راز جمود اور ضد میں نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق لچک اور تدبر اختیار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر فریقین نے دور اندیشی سے کام نہ لیا تو یہ سیاسی بحران ایک ایسے ہمہ گیر بھونچال کی شکل اختیار کر سکتا ہے جو نہ صرف موجودہ جمہوری بساط کو لپیٹ دے گا بلکہ کئی قد آور سیاسی شخصیات کے مستقبل کو بھی قصہ پارینہ بنا دے گا۔ اب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے‘ پی ٹی آئی کو انتخاب کرنا ہے کہ وہ مسلسل محاذ آرائی کی تپش میں رہنا چاہتی ہے یا سیاسی دانشمندی اور مفاہمت کا دامن تھام کر اپنی بقا اور قومی استحکام کی راہ اختیار کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved