حضرت جابرؓ نے طویل عمر پائی۔ آپؓ کا حلقۂ تلامیذ بہت وسیع تھا۔ نوجوان اکثر آپؓ سے آنحضورﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے دور کے واقعات اور ان سے متعلق سوالات پوچھا کرتے تھے۔ ان مجالس میں مختلف جنگوں کے حالات و واقعات آپ کی زبانی سن کر شاگرد بہت خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے سریۂ ابوعبیدہ کا تذکرہ کیا۔ اس کو سریہ سیف البحر اور جیش الخبط کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس میں آنحضورﷺ نے امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ کی سربراہی میں تقریباً تین سو صحابہ پر مشتمل ایک لشکر سمندر کی طرف بھیجا تھا تاکہ قریش کی نقل وحرکت کا جائزہ لیا جائے۔ یہ فتح مکہ سے دو ماہ قبل رجب 8ھ کا واقعہ ہے۔ اس مہم کے دوران جب کھانے پینے کا سارا سامان ختم ہو گیا تو صحابہ کرامؓ درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ اسی لیے اس کو سریہ الخبط بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ جب بھوک سے ہم سب کا برا حال ہو گیا تو امیرِ لشکر حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ اللہ پر توکل کرو‘ اللہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ حسنِ اتفاق سے سفر کے دوران ہمیں ایک بہت بڑی مچھلی سمندر کے کنارے پڑی ہوئی ملی۔ اس مچھلی کو عنبر کہا جاتا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ اس کی آنکھ کے خول میں مَیں اور میرے بعض دیگر ساتھی بیٹھ گئے۔ اس مچھلی کا گوشت سب صحابہ نے کئی دن پیٹ بھر کر کھایا اور اس کے تیل سے بھی قوت حاصل کی۔ جب ہم واپس چلنے لگے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے اس مچھلی کے ڈھانچے کی ایک پسلی کھڑی کی اور لشکر کے سب سے بلند قامت شخص کو اونٹ پر بٹھا کر اس کے نیچے سے گزرنے کیلئے کہا تو وہ اس کے نیچے سے بہ آسانی گزر گیا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری اور مسند احمدکے علاوہ احادیث کے دیگر مجموعوں اور کتب تاریخ میں بھی بیان ہوا ہے۔
نبی اکرمﷺ کے وصال پر حضرت جابرؓ بہت غمزدہ ہوئے۔ کئی دن تک آپؓ سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمت بخشی اور آپ مسجد نبوی میں بیٹھ کر تشنگانِ علم کو قرآن وسنت کی تعلیم دینے لگے۔ آپؓ معروف محدث صحابہ میں سے ہیں۔ آپ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد 1540 بیان ہوئی ہے۔ آپؓ کو احادیث جمع کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ کئی مرتبہ محض ایک حدیث سننے کیلئے مدینہ سے شام‘ فلسطین اور مصر تک کے اسفار کیے۔ امام بخاری نے تاریخ الصغیر میں بیان کیا ہے کہ حضرت جابرؓ کو معلوم ہوا کہ شام میں مقیم صحابی رسول حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے پاس قصاص سے متعلق ایک حدیث ہے جو حضرت جابرؓ تک نہیں پہنچی تھی۔ اس حدیث کو سننے کیلئے حضرت جابرؓ نے مدینہ سے دمشق تک کا سفر کیا۔
جب حضرت عبداللہ بن انیسؓ کو حضرت جابرؓ کا پیغام ملا تو وہ جلدی سے اپنے گھر سے نکلے اور آپؓ کا استقبال کیا۔ دونوں صحابہ نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ آنحضورﷺ کے دور کو یاد کر کے دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر حضرت جابرؓ نے اپنا مقصدِ آمد بیان کیا تو حضرت عبداللہؓ نے پوری حدیث بیان کر دی۔ حدیث سننے کے بعد آپؓ نے فوراً واپسی کیلئے رختِ سفر باندھ لیا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان سے رک جانے کیلئے درخواست کی مگر انہوں نے معذرت کی اور تھوڑا بہت کھانے پینے کے بعد واپس روانہ ہو گئے۔ یہ حدیث قیامت کے روز ہر شخص کو اس کے حقوق کی ادائیگی (قصاص) کے مضمون پر مشتمل ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں جس کسی نے کسی دوسرے کا حق غصب کیا یا اسے کوئی ناحق تکلیف پہنچائی تو ظالم کی نیکیوں سے مظلوم کا حق ادا کیا جائے گا۔ نیکیاں ختم ہو گئیں تو مظلوم کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نے مصر کا سفر کیا۔ وہاں آپ کے انصاری بھائی حضرت مسلمہ بن مخلدؓ کے پاس ایک حدیث تھی جس میں مسلمان کے عیوب کی ستر پوشی کا تذکرہ اور اس کا انعام بیان ہوا ہے۔ سماعتِ حدیث کیلئے آپؓ لمبا سفر طے کر کے جب مصر میں پہنچے تو حضرت مسلمہؓ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ آپ نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا اور انہوں نے بلاتاخیر وہ حدیث آپؓ کے سامنے بیان کر دی۔ اس میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کی تو اس نے گویا زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو زندگی بخش دی۔ اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ دنیا میں اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کر کے دے گا۔ یہ حدیث سننے کے بعد آپؓ مصر میں رکنے کے بجائے فوراً واپس مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
خلفائے راشدین حضرت جابرؓ سے مختلف امور پر مشورے بھی کرتے تھے اور احادیث بھی پوچھتے تھے۔ جب حضرت علی المرتضیٰؓ خلیفہ بنے تو دیگر صحابہ کے ساتھ حضرت جابرؓ نے بھی ان کی بیعت کی۔ حضرت علیؓ مدینہ سے کوفہ چلے گئے مگر حضرت جابرؓ نے مسجد نبوی ہی کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ البتہ جب صفین کی جنگ میں دونوں اطراف کی فوجوں میں لڑائی شروع ہوئی تو آپؓ نے فرمایا کہ سیدنا علیؓ خلیفہ راشد ہیں اور ان کے خلاف بغاوت جائز نہیں۔ حضرت جابرؓ اس موقع پر مدینہ سے نکلے اور جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی فوجوں میں شامل ہو کر شامی فوجوں کا مقابلہ کیا اور ان کی شکست کے بعد کوفہ میں نہیں رکے بلکہ واپس مدینہ آ گئے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت جابرؓ نے آزمائشوں کا بھی سامنا کیا ۔ بنو امیہ کے گورنر بسر بن ابی ارطآ نے آپؓ کو رسوا کرنے کیلئے اعلان کر دیا کہ جابر بن عبداللہ خلیفہ وقت (حضرت امیر معاویہؓ) کے خلاف بغاوت کے مجرم ہیں‘ انہوں نے شامی فوجوں کے خلاف (صفین میں) جنگ بھی لڑی تھی اور اب تک خلیفہ کی بیعت سے انکاری ہیں۔ اگر وہ بیعت نہیں کریں گے تو ان کا پورا قبیلہ بنوسلمہ ختم کر دیا جائے گا۔ حضرت جابرؓ اس صورتحال کو دیکھ کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے رہنمائی چاہی۔ ام المومنینؓ نے فرمایا کہ ازراہِ حکمت تم معاویہ کی بیعت کر لو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت معاویہؓ کی بیعت کر لی۔ واضح رہے کہ بہت سے کبار صحابہ بالخصوص اہلِ حجاز نے حضرت علیؓ کی حیات میں حضرت امیر معاویہؓ کی بیعت سے گریز کیا تھا۔ البتہ بعد میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت معاویہؓ کی صلح ہو جانے کے بعد ان کی بیعت کر لی گئی تھی۔
بسر بن ابی ارطآ کے بارے میں امام ابن الاثیر الجزری نے لکھا ہے کہ بعض لوگ اسے صحابی پر محمول کرتے ہیں مگر یہ صحابی نہیں تھا۔ اس کی پیدائش آنحضورﷺ کی رحلت کے دو سال بعد ہوئی تھی۔ یہ تھا بھی علاقہ شام سے نہ کہ حجاز سے۔ سیرت نگاروں نے اس کے بدترین مظالم کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ بے شمار لوگوں کا ظالمانہ قتل اس کے کارناموں میں درج ہے۔ حضرت علیؓ کی طرف سے یمن میں مقرر کردہ گورنر حضرت عبیداللہ بن عباسؓ جو آنحضورﷺ کے چچا زاد تھے‘ بسر بن ابی ارطآ کی فوجوں کی آمد سے قبل یمن سے کہیں اور چلے گئے تھے۔ بسر نے یمن میں بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور حضرت عبیداللہ بن عباسؓ کے دوکم سن خوبصورت بچوں عبدالرحمن اور قثم کو بڑی سنگ دلی کے ساتھ ان کی والدہ عائشہ بنت عبدالمدانؓ کے سامنے شہید کیا۔ معصوم بچوں کی غمزدہ والدہ نے اپنے بچوں کی موت پر دردناک مرثیے لکھے اور آخر اس جان کاہ صدمے سے وہ ذہنی مریضہ بن گئیں (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ حصہ اول)۔ ابن الاثیر الجزری نے یہ بھی لکھا ہے کہ بسر بن ابی ارطآ آخری عمر میں خود بھی ذہنی مریض بن گیا تھا اور عجیب وغریب مضحکہ خیز حرکتیں کرتا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved