ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ ان ہائبرڈ والوں کا ہو چلا ہے اور پریشانی ختم نہیں ہو رہی۔ پسِ زنداں تو کر دیا لیکن اعصاب پر ایک بوجھ سوار جس کا علاج ان کے ہاتھ نہیں آ رہا۔ تین سال میں تو نپولین اور ہٹلر نے یورپ پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جب سے رجیم چینج کا تماشا لگا ان کا اعمال نامہ کیا ہے۔ آئین کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا‘ عدلیہ کی توقیرپر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مقدمات قائم ہوئے‘ سزائیں سنائی گئیں‘ ایسی سختیوں کا سلسلہ رائج ہوا جس کی مثال کم از کم ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن حاصل کیا ہوا؟ پریشانی بدستور قائم ہے‘ نیندیں بدستور برباد ہو رہی ہیں۔
افسانہ یہ سنایا جاتا ہے کہ استحکام لائے ہیں۔ جو آج وطنِ عزیز کی حالت ہے اسے استحکام کا نام دیا جا سکتا ہے؟ ادھوری نیند سے بیدار ہوں تو نعرہ لگتا ہے کہ معیشت مشکل حالا ت سے نکل آئی ہے۔ مہنگائی اور قوتِ خرید کی کمی سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں اور نوید سنائی جاتی ہے کہ معیشت سنبھل گئی ہے۔ مذاق کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ بربادیٔ حالات تو پہلے ہی تھی لیکن ترقی کے نام پر پانچ دریاؤں کی سرزمین پر عجیب تماشے لگے ہوئے ہیں۔ کیا سوجھی ہے انہیں کہ غریب اور دیہاڑی دار مزدوروں کے پیچھے لگ جائیں۔ جن کی گزر اوقات ریڑھیوں یا ٹھیئوں سے ہو اُن کے پیچھے پڑ جانا۔ ٹریفک چالان اتنے ہو رہے ہیں‘ پہلے سے بے حال لوگوں کی مزید چیخیں نکل رہی ہیں۔ مخصوص وزیر ہیں جن کا کام یہی لگتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر بے تُکے اور اشتعال دلانے والے بیانات دیتے رہیں۔ بنیادی مسئلہ البتہ یہ ہے کہ حکومتیں ایک خلا میں چل رہی ہیں اور عوام کی بھاری اور واضح اکثریت دوسری طرف کھڑی ہے۔
پراپیگنڈے کی انتہا ہو گئی لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ سرکاری سچ کو کوئی سچ مانتا ہی نہیں اور معتوب جماعت اور اُس کے لیڈر کے خلاف تمام تر دشنام طرازی کا اثر یہ ہوا ہے کہ رائے عامہ وہیں کھڑی ہے جہاں تین سال پہلے تھی۔ نہ سختی کا کوئی اثر نہ پراپیگنڈے کا کوئی فائدہ۔ قوم کو پھر اتنا تو بتایا جائے کہ آپ نے کرنا کیا ہے۔ سیاسی اثر اور مقبولیت جو دوسری طرف ہے اس کا آپ کچھ کر نہیں سکے۔ سوائے غیر ملکی دوروں کے جو طمطراق سے کیے گئے ہیں ان سے کچھ ہو نہیں رہا۔ کوئی ایسی افسانہ سازی کو مانے تو سہی لیکن سوشل میڈیا پر سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے اور رہبروں کا مذاق اڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ معیشت سنبھل جاتی‘ لوگوں کی حالت بہتر ہوتی بازار میں مہنگائی کی آگ کچھ ٹھنڈی ہوتی پھر تو بات تھی۔ پھر آپ جو چاہے افسانے گھڑتے لوگ مان جاتے۔ لیکن کارکردگی وہ جو قوم سے ڈھکی چھپی نہیں اور اوپر سے بے جا کی سختیاں۔ قبولِ عام پھر آپ کیسے ہوں گے اور جن کا طلسم توڑنے آپ چلے تھے وہ طلسم کیسے ٹوٹے گا؟
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا نجی دورۂ لاہور آپ سے ہینڈل ہوتا نہیں۔ کہیں کا رخ انہوں نے کیا نہیں آپ کی حالت یہ کہ بازار کے بازار بند کر دیے گئے‘ اس ڈر سے کہ لوگ اکٹھے نہ ہو جائیں نعرے نہ لگ جائیں‘ عوام کا اصل موڈ کیا ہے سامنے نہ آ جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سہیل آفریدی لاہور آتے اور آپ میں اتنا ظرف ہوتا کہ انہیں کچھ پروٹوکول دیتے۔ پنجاب پولیس کی طرف سے ان کو سکیورٹی فراہم کی جاتی۔ پی ٹی آئی کے پسِ زنداں لیڈروں کے گھروں میں جانے کی خواہش ظاہر کرتے تو پنجاب پولیس کی معیت میں وہ جاتے۔ اس میں آپ کی عزت کم نہ ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی۔ لوگ آپ کے ظرف کی تعریف کرتے۔ لیکن ذہن اور دل پتا نہیں کن جذبات سے بھرے ہیں‘ ایسا تو ہونا نہیں تھا۔ امیج کس کا خراب ہوا؟ سہیل آفریدی تو آیا اور چلا گیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سلوک نے البتہ اچھا اثر نہیں چھوڑا۔
لیکن سوال وہی کہ حضور آپ کے ذہنوں میں مستقبل کا کوئی خاکہ ہے کہ آپ لوگوں نے کرنا کیا ہے؟ ساڑھے تین سال اس ہائبرڈ تجربے کے ہو گئے‘ آگے اسے کتنا چلانا ہے؟ معاشی بہتری تو آئی نہیں اور اب حالت یہ ہے کہ وزیرخزانہ کے خلاف سرگوشیوں کی ایک مہم شروع ہو گئی ہے۔ جو اس مہم میں شامل ہیں ان کی باتیں تو سنیے۔ اس ہائبرڈ بندوبست نے ڈیلیور کرنا ہوتا تو اب تک کر دیا ہوتا۔ لیکن مانگے تانگے پر ہر چیز چل رہی ہے‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ ایکسپورٹ وہیں کی وہیں ہیں اور امپورٹ بل پتا نہیں کہاں تک پہنچا ہوا ہے۔ بڑی دھوم دھام سے انویسٹمنٹ کے آپ نے ادارے بنائے‘ اتنا تو بتائیے حضور کہ انویسٹمنٹ آئی کتنی ہے۔
ذاتی نوعیت کی تنقید اچھی نہیں لگتی لیکن وزیراعظم ملک کے وزیراعظم ہیں۔ جس انداز سے بھی اس عہدے پر بٹھائے گئے اس بات کو رہنے دیجیے۔ جب تک وزیراعظم ہیں کہیں جائیں تو ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر چیز کا ایک اسلوب اور طریقہ کار ہوتا ہے‘ لباس کا ایک خاص انداز۔ یہ کیا کہ آپ رنگ برنگے اور اپنی طرز کے لباس زیبِ تن کرتے پھریں۔ کسی کانفرنس میں چھ یا آٹھ لیڈر کھڑے ہوں تو لباس کے لحاظ سے ہمارے وزیراعظم صاحب الگ ہی لگیں۔ رنگ برنگی ٹائیاں‘ ڈبل برسٹڈ سوٹ‘ جہاں بلیزر پہننا جچتا نہیں آپ نے ضرور بلیزر پہننا ہے۔ اور آپ کی تقلید میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی بڑے فارمل موقعوں پر بلیزر پہنے ہوتے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ انگریزی بلیزر سے اِن کی آشنائی اب ہوئی ہے۔ خدارا کسی سے پوچھ لیجیے‘ لباس ایسا ویسا ہو تو اس کی عکاسی ملک پر پڑتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ وزیراعظم کے فرزندِ ہونہار جب عرصۂ مختصر کیلئے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو ان کو رنگ برنگے واسکٹوں کا بڑا شوق تھا۔ دن میں کئی بار رنگ برنگے واسکٹ تبدیل ہوتے۔ اس سے عجیب سا تاثر پیدا ہوتا۔
چلیں ڈبل برسٹڈ سوٹوں اور بلیزروں کا شوق ہے تو ضرور پورا کیا جائے لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ آپ کی رہنمائی میں ملکی کارواں کا حشر کیا ہو رہا ہے۔ کہاں جا رہے ہیں اور منزل کون سی ہے۔ معیشت کا جو حال ہے وہ تو ہے ہی کیا سیاست نے بھی اسی جمود کا شکار رہنا ہے؟ اپنے میں کچھ حوصلہ تو پیدا کیا جائے۔ مخصوص قیدی سلاخوں کے پیچھے اپنی مرضی سے نہیں گیا۔ مقدمات قائم ہیں‘ طرح طرح کے الزامات عائد ہیں لیکن دانا کیا بچے بھی سمجھتے ہیں کہ گرفتاری کے پیچھے اصل وجہ فکر اور اضطراب ہے۔ کہ باہر آئے تو یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ اضطراب کا اندازہ تو ہم لگا سکتے ہیں لیکن پسِ زنداں رکھنا ہی ہے تو اس کے ساتھ جڑے لوازمات تو پورے کیے جائیں۔ قیدی کی آزادی تو سلب ہوتی ہی ہے لیکن اسے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ ملاقاتوں کی اجازت ہوتی ہے لیکن یہاں اضطراب کا یہ عالم کہ ملاقاتوں پر پابندی۔ سیاسی کشیدگی میں کمی آپ کے فائدے کی بات ہے لیکن سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کیلئے کچھ اپنے میں ہمت اور ظرف پیدا کریں۔ بہنیں بھائی سے ملیں جو اُن کا قانونی حق ہے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved