تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     31-12-2025

عرفان بھائی: اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے … (7)

عرفان بھائی کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کا عمدہ شعری ذوق تھا۔ وہ اوائل عمری سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔ شاعری کا یہ ہنر انہوں نے والد صاحب سے ورثے میں پایا تھا جو اردو‘ پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے۔ عرفان بھائی لیکن اپنی شاعری کا کبھی چرچا نہ کرتے‘ صرف ان کے چند قریبی دوستوں کو معلوم تھا کہ وہ بہت اچھے شاعر ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی شاعری کی کتاب کی اشاعت میں دلچسپی نہیں لی۔ آخر ان کے ایک دوست حافظ عبدالخالق صاحب نے پہل کی اور خود ہی اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ کتاب کا نام تھا ''محبت کی نظمیں‘‘۔ اس کتاب میں اکیس نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کا سرورق معروف آرٹسٹ حمید ساغر نے بنایا تھا۔ کتاب کا انتساب ''بارشوں کے نام‘‘ تھا اور حرفِ آغاز میں غالب کا یہ شعر درج تھا:
کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم
آپ اُٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے
کیسا عجیب اتفاق ہے کہ تقریباً تین دہائیوں بعد 2021ء میں چھپنے والی ان کی شاعری کی دوسری اور آخری کتاب ''گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ کے سرِ آغاز میں بھی غالب کا یہی شعر درج ہے۔ شاید اس شعر کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہو کہ اس میں عرفان بھائی کو اپنی زندگی کی جھلک نظر آتی تھی۔ کتاب کے آغاز میں ''پہلی بات‘‘ کے عنوان سے عرفان بھائی اپنی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں: ''میں نے شعر عمر کے اس حصے میں کہنے شروع کیے جب بڑوں کو اپنے اس وصفِ حمیدہ سے آگاہ کرنا گناہ خیال کیا جاتا ہے؛ چنانچہ بچپن کے عہدِ معصومیت میں نمو پانے والا یہ احساسِ جرم رفتہ رفتہ پختہ ہوتا چلا گیا اور میرے لیے شاعری پیرایۂ اظہار بننے کے بجائے پردۂ اسرار بن کے رہ گئی۔ غالباً اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ میرے دل میں کبھی سننے سنانے‘ مشاعروں میں جانے اور چھپنے چھپانے کا شوق پیدا نہ ہوا بلکہ میرے بہت قریب کے حلقۂ احباب کے سوا گنتی کے چند افراد کو میری ذات کے اس پہلو کا علم ہے۔ اپنی شاعری کو سات پردوں میں چھپا کے رکھنے کی یہ واحد وجہ نہیں ہے‘ دراصل اخفا اور پردگی کے احساس کے سبب شاعری میرے لیے کلیتاً ایک خالص ذاتی مشغلہ بن کے رہ گئی ہے۔ جس طرح انسان سلسلۂ روز و شب میں کبھی ہنستا‘ کبھی روتا‘ کبھی تنہائیوں کی جستجو میں ہنگامے سے دور نکل جاتا اور کبھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کسی ہمدم دیرینہ کی تلاش میں دستکیں دیتا پھرتا ہے بالکل اسی طرح میرے لیے شاعری ایک پناہ گاہ بن کر رہ گئی۔ جلتے بجتے بلتے صحراؤں کی بے کراں وسعتوں میں ایک نخلستان‘ سمندروں کی طوفان خیزیوں کے درمیان عافیت کا ایک جزیرہ‘ بیچارگی کے لمحوں میں ایک ہمدرد رفیق اور تیز دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کا سائبان۔ میری ذات کی حد تک شاعری کا وظیفہ بس اسی قدر رہا اور قدرت کی یہ دین احساس کی شدتوں میں آنسو اور مسکراہٹوں کی طرح میرا وسیلۂ اظہار بھی ٹھہری اور ہمدم و ہم راز بھی‘‘۔
اپنی نظموں کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ''یہ خوابوں‘ رنگوں اور خوشبوؤں کی شاعری ہے۔ تنہائیوں اور سچائیوں کی شاعری‘ محبت کے اس سادہ جذبے کی شاعری جس کی منزل ہر دل میں پوشیدہ ہے۔ اس دھندلی دھوپ میں چھپی چاندنی کی شاعری جو ہر دل کے آئینے میں ضرور اُترتی ہے۔ ان شعری لہروں کی شاعری جو خوابوں میں ہر پل ہلچل پیدا کرتی ہیں۔ اس جذبے کی ہمہ گیری ہر انسان کی سانسوں میں رس گھولتی اور اس کی آنکھوں میں خوابوں کے دیے جلاتی ہے۔ یہ جذبہ بدلے ہوئے موسموں کی قید سے آزاد کبھی چلچلاتی دھوپ میں خنک ہوا کے جھونکے کی طرح اترتا اور کبھی سردیوں کی طویل یخ بستہ راتوں میں آگ کا الاؤ بن کر بھڑکتا ہے۔ کبھی زندگی کے دشتِ بے اماں میں خوش رنگ منظروں کے دیے کھولتا اور کبھی کاروبارِ زندگی کی اُکتا دینے والی یکسانیت میں طلسماتی نیرنگیوں کے باب وا کرتا ہے‘‘۔
کتاب میں ایک نظم ''اس کی پہلی نظم کے جواب میں‘‘ کی کچھ سطریں ملاحظہ کریں۔
تمہیں خبر ہے مرے مسلک ِرفاقت میں
گریز پائی کوئی راستہ نہیں رکھتی
جو دور ہونا بھی چاہیں تو دور ہو نہ سکیں
کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دائروں میں چلتے ہیں
زمیں کو چھوڑنا چاہیں تو پر بکھر جائیں
سمندروں کا سفر ہو تو بادباں نہ کھلیں
نواحِ شہر سے دشتِ جنوں کو نکلیں بھی
تو اک قبیلہ پس ماندگاں بھی ساتھ چلے
کسی سے ایک گھڑی روٹھنا بھی چاہوں میں
تو اپنے آپ کو صدیوں منانا پڑتا ہے
وہ روشنی جو مرے حجلۂ خیال میں ہے
بجھا بھی دوں تو نہاں خانۂ تصور میں
گئے دنوں کی جواں سال ساعتیں پل پل
کبھی دیا‘ کبھی جگنو‘ کبھی ستارہ بنیں
تمہارے لمس کی خوشبو ہر ایک موسم میں
ہر ایک رُت میں تری آہٹوں کی بارش ہے
وصال و ہجر کے سب موسموں کے ماتھے پر
تمہارے نام کا ایک ایک حرف کندہ ہے
تمہیں بھلاوں تو خود کو کہاں تلاش کروں
اب ایک آزاد نظم ''وہ ایک شام‘‘ کی کچھ سطریں ملاحظہ کریں:
آؤ دو چار قدم ساتھ چلیں
اس سے پہلے کہ دل اندوہِ وفا سے بھر جائیں
آؤ دو چار قدم ساتھ چلیں
وقت کا دائرہ پھیلے گا تو لمحہ لمحہ
فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے
پھر نہ یہ شام نہ یہ رُت نہ یہ موسم ہوں گے
تُو کسی اور جزیرے کے سفر پر ہو گا
اور میں؍ رات کی دہلیز پہ تنہا بیٹھا
آتی جاتی ہوئی ہر شام کے پیراہن سے
تیری خوشبو کا پتا پوچھوں گا
ہجر تیں اپنا مقدر ہی سہی
''ایک سے ہاتھ ہیں ہم دونوں کے‘‘
آؤ تھوڑی سی مسافت کے لیے
ایک ہی ان کی لکیریں کر لیں
عرفان بھائی کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو کا مطالعہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کا شعری آہنگ ان کی بے مثل نثر میں رچ بس گیا تھا۔ وہی ایمایت‘ وہی رمز وکنایہ‘ وہی وارفتگی‘ وہی بے ساختگی‘ وہی مٹھاس‘ وہی دلبری اور وہی اثر آفرینی۔ اس سحر انگیز طرزِ نگارش کو اپنی نمود کے لیے اب ایک تازہ آسمان کی تلاش تھی جو انہیں جلد ہی میسر آ گیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved