پاکستان میں طلبہ کو سال میں دو دفعہ تعطیلات ہوتی ہیں۔ گرمیوں کی دو ماہ سے زائد طویل تعطیلات کے بعد دسمبر کے آخری عشرے سے جنوری کے پہلے عشرے تک موسمِ سرما کی مختصر تعطیلات ہوتی ہیں۔ بہت سے طلبہ ان تعطیلات میں وقت کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ واپس سکول جاتے ہیں تو ان کی تعلیمی قابلیت‘ کارکردگی اور ذہنی استعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے اس میں کمی واقع ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وقت کا ضیاع ہے۔ وقت کا درست استعمال یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی توفیق ہے اور اس سلسلے میں انسان کو اگر درست رہنمائی مل جائے تو وقت کے درست استعمال میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو تعطیلات میں وقت ضائع کرتے دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں لیکن ان کیلئے ایک مربوط نظام الاوقات مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ طلبہ کو تعطیلات کس طرح گزارنی چاہئیں‘ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
نماز کا اہتمام کرنا: نماز مسلمانوں کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک اہم فریضہ ہے جس کا تسلسل سے التزام انتہائی ضروری ہے۔ بہت سے نوجوان اس مسئلے میں کوتاہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے اور مختلف قسم کی مشغولیات کی آڑ لے کر نماز پنجگانہ کی عدم ادائیگی کیلئے عذر تراشتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز کو ہماری پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ نماز میں پختگی کیلئے تعطیلات ایک اہم موقع ہیں۔ اس دوران اگر انسان مسلسل نمازِ باجماعت کی ادائیگی کیلئے کوشاں رہے تو یہ عادت بعد ازاں پختہ ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے کہ جب وہ خود نماز ادا کرتے ہیں تو اپنی اولاد کو بھی نماز کی تلقین کرنی چاہیے۔
ذکرِ الٰہی کا التزام: کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اٹھتے بیٹھتے ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی عادت پختہ کرنے کیلئے تعطیلات ایک اہم موقع فراہم کرتی ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے متعلق اذکار اور دعائوں کے اہتمام کے ساتھ صبح وشام کے اذکار سے نہ صرف یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے بلکہ انسان بہت سے شرور اور فتن سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔
قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کو پڑھنا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے موسم سرما کی 20 دن کی چھٹیاں بھی قرآن فہمی کیلئے بہت بڑا موقع ہیں۔ قرآن مجید کی کسی ایک بڑی سورۃ یا ایک پارے کا فہم حاصل کرنا ان چھٹیوں میں یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سورۃ المائدہ جیسی سورتیں جو تقریباً ایک پارے پر محیط ہیں‘ ان کا ترجمہ اور تفسیر کو خوب سمجھ کر پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب جیسی سورتوں کے ترجمہ وتفسیر پر گرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔اگر کوئی آخری پارے کی سورتوں کے ترجمہ وتشریح کو اچھے طریقے سے پڑھنا چاہے تو ان چھٹیوں میں اس حوالے سے بھی بھرپور امکانات ہوتے ہیں۔
احادیثِ طیبہ کا مطالعہ کرنا: نبی کریمﷺ کے ارشاداتِ عالیہ کا مطالعہ ایمان‘ علم اور حکمت کی بڑھوتری کا سبب بنتا ہے۔ احادیث طیبہ کے مطالعہ کیلئے سردیوں کی چھٹیاں ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ صحیح بخاری کے کسی ایک باب کو پڑھ لینا یا ریاض الصالحین کی منتخب احادیث کا مطالعہ کرنا چھٹیوں میں یقینا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے احادیث شریف سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے تاکہ علم وآگہی کے نئے دروازوں کو کھولا جا سکے۔
سیرت اور تاریخ پر کسی اچھی کتاب کا مطالعہ: سردیوں کی چھٹیوں میں سیرتِ رسولﷺ اور صحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت پر کتب کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ''الرحیق المختوم‘‘ ایک عالمی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے جس میں نبی کریمﷺ کی سیرت کا نہایت خوبصورت انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے طلبہ کو ان چھٹیوں میں الرحیق المختوم کا مکمل مطالعہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اہلِ علم کے لیکچرز سے استفادہ کرنا: دنیا کے بہت سے ممتاز اہلِ علم کے لیکچرز تک سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں رہا۔ ان چھٹیوں میں ممتاز اہلِ علم کے لیکچرز سن کر اپنے علم وفہم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح علمی اور فکری موضوعات پر ہونے والے مذاکرات کو سن کر اپنی بصیرت کو بڑھانا چاہیے۔
انگریزی زبان کی استعداد کو بہتر بنانا: اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں انگریزی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں بھی اس کو پڑھایا جاتا ہے لیکن بہت سے طلبہ انگریزی زبان کو صحیح طریقے سے بولنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سردیوں کی چھٹیوں میں انگریزی کی گرامر کو بہتر بنانا اور بول چال کی مشق کرنے سے یقینا انگریزی کی استعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے طلبہ کیلئے بہت سے مضامین کے مندرجات کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اس سے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ مختلف امور پر بات چیت اور مکالمہ کرنے کیلئے خود اعتمادی اور صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
والدین کا ہاتھ بٹانا: والدین ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ہر آن اور ہر لحظہ ان کی ضروریات کا خیال کرنا چاہیے اور ان کی خدمت کر کے دنیا وآخرت کی سعادتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سال بھر تعلیمی مصروفیات کے دوران والدین کے کام آنا ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہمیں چھٹیوں کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہمیں ان کے امور سے آگہی ملتی ہے بلکہ ہم ان کی دعائوں کے حصول میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ورزش کرنا: جسم کو تندرست رکھنے کیلئے ورزش کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دن میں بیس پچیس منٹ ورزش کیلئے نکالنا انسان کی صحت وتندرستی کیلئے انتہائی مفید ہے۔ چنانچہ انسان کو ان چھٹیوں میں ہر روز ورزش کرنی چاہیے تاکہ اس کا جسم چاق وچوبند اور توانا ہو جائے۔ جسم کی صحت عقل کی صحت کیلئے بھی انتہائی مفید ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی جسمانی مضبوطی اور نشوونما پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بزرگ اعزہ واقارب کی خبر گیری کرنا: ہمارے بزرگ رشتہ دار اپنے بچوں‘ پوتوں اور نواسوں سے ملنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ مضبوط رابطہ رکھنا سال بھر ممکن نہیں ہوتا۔ تعطیلات کے دوران فارغ وقت میں ان کی خبرگیری اور ملاقات کر کے ان کو خوش کرنے کی کوشش کرنا یقینا کارِ خیر ہے اور جو شخص بھی ایسا کرتا ہے اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اور سعادتیں حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہمیں چھٹیوں میں اپنے بزرگوں کے ساتھ روابط کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔
ضرورت مندوں کے کام آنا: انسان کو اپنے گرد وپیش پر نظر رکھنی چاہیے اور اگر کوئی ضرورت مند نظر آئے تو اس کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کی زندگی میں کشادگی پیدا ہو۔ احادیث طیبہ کے مطابق بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ چھٹیوں کے دوران کسی کی مالی یا جسمانی خدمت کر دینا یقینا ایک سعادت کی بات ہے۔ کسی ایک غریب یا محتاج کے کام آنا ان چھٹیوں میں کچھ مشکل نہیں۔
اگر ہم ان امور پر توجہ دیں تو تعطیلات کے ختم ہونے پر ہماری علمی اور ذہنی استعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے اور ہم اپنے وقت کے ضیاع سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں درست طریقے سے زندگی گزارنے کی توفیق دے تاکہ ہم دنیا وآخرت کی سعادتوں کو حاصل کر سکیں‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved