جداگانہ شخصیت اور منفرد لب و لہجے کے شاعر جون ایلیا نے ایک جگہ لکھا کہ اْن کی نوجوانی کے دور میں انقلابی سوچ کے حامل نوجوان جواں مرگی کی خواہش رکھتے تھے۔ یہ عجیب سی خواہش تھی مگر وہ بھی باقی نوجوانوں کی طرح سوچا کرتے کہ طبعی عمر کی موت صرف مسلم لیگی، احراری اور خاکسار تحریک کے لوگوں کوہی اچھی لگتی ہے، انقلابی سوچ کے نوجوان یہ ذلت برداشت نہیں کر سکتے۔ جواں مرگی میں ایک حْزن ، ایک حُسن اور ایک رومانس چھپا ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی اس عجیب خواہش کا خیال پنجاب یونیورسٹی کی ماس کمیونی کیشن کی ذہین طالبہ، بیس سالہ علیشا کی ناگہانی موت کی خبر پڑھ کر آیا۔ علیشا اپنے وجود میں گھر بھر کی رونقیں سمیٹے ہوئے تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد۔ ذہین طالبہ۔ کلاس میں میرٹ کے لحاظ سے رول نمبر ون رکھنے والی، جانے زندگی کے بارے میں کیسے کیسے خواب آنکھوں میں بسائے ہوئے ہو گی۔ بی ایس آنرز میں داخلہ لینے والی علیشا یقینا مستقبل میں میڈیا پرسن بننا چاہتی ہو گی۔ اخبار یا پھر ٹی وی چینلز ۔ پتہ نہیں اْس کی ترجیح کیا ہو گی! ابھی اس خواہش کی تکمیل میں بہت سا وقت تھا، مگر اْسے جانے کی جلدی تھی۔ اور اْس کی موت کی خبر اگلے روز کے سبھی اخبارات میں موجود تھی۔ ٹی وی چینلز نے بھی علیشا کی ناگہانی موت کو خبروں میں شامل کیا۔! خبروں کے فالواپس ابھی تک آ رہے ہیں۔
خوابوں سے بھری ہوئی، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر ایک ترو تازگی اور عزم تھا، جو اس عمر کے نوجوانوں کی خوبصورتی ہوتی ہے۔اور تصویر کے ساتھ یہ خبر تھی کہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ یونیورسٹی بس پر سوار ہوتے ہوئے گر پڑی اور بس کے پچھلے ٹائروں کے نیچے کچلی گئی۔ ایک ماں کے لئے قیامت کا لمحہ اور کیا ہو گا کہ اْس کی اکلوتی اولاد اْس کی آنکھوں کے سامنے اس بے دردی کے ساتھ لہولہان ہو جائے۔! ہاں
علیشا کی ماں، بیٹی کو یونیورسٹی پوائنٹ پر خود سوار کرانے آتی تھی۔ ماں تھی ناں۔گھر سے اکیلے بیٹی کو رخصت نہیں کیا۔ اور چاہا کہ اس کو بحفاظت بس پر سوار کرائے۔ مگر تقدیر بھی ماں کی اس خواہش پر اس روز ہنس دی ہو گی۔!! کیوں کہ علیشا... اْس کی بیٹی گھر سے نہیں زندگی کے میلے سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو رہی تھی اور ماں خود اْسے رخصت کرنے آئی تھی۔
علیشا کی آخری صبح ویسی ہی ہو گی جیسی روز ہوتی تھی۔ دیر تک بستر پر لیٹی ہوئی بیٹی کو ماں نے آوازیں دے دے کر جگایا ہو گا۔ اس عمر میں نیند ہی اتنی بے فکری کی ہوتی ہے کہ علیشا کو اٹھنے میں دیر لگی ہو گی۔ پھر ماں نے ناشتہ کروایا۔ نصیحتیں کر کر کے ۔خالی پیٹ یونیورسٹی جائو گی تو خاک پڑھو گی۔ دودھ کا گلاس ہی پی لو۔ ماں کو کیا خبر تھی کہ آج بیٹی کو آخری بار اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروا رہی ہے۔
ماں نے دعائیں پڑھی ہو ں گی۔ نظر بدسے بچائو۔ اور حفاظت کی دعائیں۔ ہر ماں کی طرح علیشا کی ماں کو بھی یہ وہم ہی رہتا ہوگا کہ میری بیٹی کو نظر نہ لگ جائے۔ اکلوتی اولاد ہو تو ماں کے وہم بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ خدشے، وسوسے، باہر کے حالات، آئے دِن حادثات کی دل دہلا دینے والی خبریں سن سن کر دل زرد پتے کی طرح سہما رہتا ہے! ماں کی زندگی ربّ نے عجیب لکھی ہے۔ مائیں اپنی جوانی، طاقت اور خوبصورتی اولاد کو پالنے میں صرف کر دیتی ہیں۔ اور اس ریاضت میں اْن کا وجود کمزور، بے رنگ اور بوڑھا ہو جاتا ہے ۔اولاد کو جوان ہوتے دیکھ کر اْن کی تھکن اترتی ہے۔ پھر ایسی بھری جوانی میں اکلوتی اولاد کو موت چھین کر لے جائے تو والدین کا حشر کیا ہوتا ہو گا۔!!
بس کے ٹائروں کے نیچے کچلی جانے والی علیشا کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ تو بہت پہلے ہی عدم کے سفر پر جا چکی تھی۔
اْس کا پْرعزم ترو تازہ چہرہ سرد ہو چکا تھا۔ خوابوں سے بھری آنکھیں بجھ چکی تھیں!
علیشا کی سہیلیوں اور کلاس فیلوز نے بھی اس روز اس کا الگ روپ دیکھا تھا۔ ہر وقت چہکنے والی علیشا اْس روز خاموش تھی!
اس عمر میں موت کتنی اجنبی سی چیز ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے سامنے تو زندگی اور خوبصورت زندگی کے ہزاروں رنگ ہوتے ہیں۔ ایسے میں موت... ان کی کسی ہم جولی کو چھین کر لے جائے تو یہ حادثہ کبھی نہ بھولنے والا ہوتا ہے!جیسے میں آج تک اپنی ایک سہیلی سعدیہ کلثوم کی موت کو نہیں بھلا سکی جو فرسٹ ایئر میں ایک حادثے کا شکار ہو کر جان ہار گئی تھی۔ آج تک اْس کا سرد چہرہ اور کفن میں لپٹا اْس کا وجود میری یادداشت کا حصہّ ہے۔
علیشا کی سہیلیاں بھی اْسے ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ کبھی اْس کے مسکراتے چہرے کو اور کبھی اْس کے لہولہان سرد وجود کو!
علیشا !تم میڈیا پرسن بن کر عوامی مسائل کو اجاگر کرنا چاہتی تھی ناں۔ تو دیکھو یہ کام تم نے اس دنیا سے جاتے جاتے بھی کر دیا۔ علیشا کی موت، یونیورسٹی بس کی Over Crowdingکی وجہ سے ہوئی، سینکڑوں طلبہ، طالبات کے لئے صرف 56بسیں ناکافی ہیں۔اس ناگہانی حادثے نے یونیورسٹی انتظامیہ کو مجبور کیا کہ فوری طور پر مزید بسیں چلائے تاکہ کوئی اور علیشا اس غفلت کا شکار نہ ہو جائے۔
علیشا کی موت نے ایک اور ایشو کو بھی اُجاگر کیا کہ طلباء کو فری لیپ ٹاپس کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اچھی ٹرانسپورٹ کی ہے۔ علیشا کے والد نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ پنجاب حکومت طلباء کو اچھی اور مزید بسیں مہیا کرے۔ بسوں کو سڑکوں پر اندھا دھند بھگاتے ڈرائیوروں اور بس کنڈکٹرز کی تربیت کی بھی شدید ضرورت ہے۔ بس پر سوار ہونے والوں کو بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ تاخیر سے پہنچنا نہ پہنچنے سے تو بہتر ہے۔!