عوامی بیداری کے بغیر کسی ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ بارِدگر التماس یہ ہے کہ حکومت اور افواج نہیں ، یہ اقوام ہیں جو ملک کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ افسوس کہ کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔ افسوس کہ کم ہی غور کرتے ہیں ۔ بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل اتنا اہم ہے کہ فقط لیڈروں پر اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ پرویز رشیدوں پہ تو ہرگز نہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات کو سوجھی کیا؟ کس منہ سے وہ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا دل طالبان اور تلوار امریکہ کے ساتھ ہے ۔ ان کے ہم نام شیخ رشید بھی اس سطح پر نہیں اترتے ؛حالانکہ ان کا مسئلہ خودنمائی کے سوا کچھ نہیں ۔ کبھی وہ ارشاد فرمایا کرتے کہ وہ نواز شریف کی ایک تصویر بھی بیچ نہیں سکتے کہ یہ گناہِ کبیرہ ہوگا۔ اب انہیں اسی شخص میں دنیا بھر کے عیب نظر آتے ہیں ؛حالانکہ آج کے نواز شریف وہی ہیں جو کل تھے۔ انہوںنے کچھ سیکھاہے نہ بھُلایا ہے ۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو نہیں جانتے کہ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتاہے ، زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ا ن کے ایک قریبی رفیق نے ایک بار مجھ سے کہا : جلاوطنی کے ایک عشرے میں ملک تبدیل ہو گیا اور نواز شریف ان تبدیلیوں کو سمجھ نہ سکے ۔
عمران خان کی حکمتِ عملی سے اختلاف ہو سکتاہے مگر وہ طالبان کے ساتھ ہیں اور نہ امریکہ کے ۔ بالکل برعکس پرویز رشید کے قائد امریکہ سے مرعوب بھی ہیں اور اس سے مستفید بھی ہوئے۔ 2000ء میں اسی امریکہ نے ان کی جان بچائی تھی کہ وہ اسے عزیز تھے۔الیکشن سے پہلے مسلح افواج کی طرف نواز شریف
نے صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ دوسال پہلے اسی کے بارے میں اعلانیہ انہوںنے کہا تھا کہ کشمیریوں پر اتنا ظلم بھارت نے نہیں کیا جتنا پاکستان آرمی نے۔ عرب ممالک اور مالدار طبقات کے علاوہ امریکہ نے ان کی مدد کی۔ اپنی مرضی کے پولیس افسر اورصدر آصف علی زرداری کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے اپنی پسند کا وزیرِ اعلیٰ مقرر کرکے کم از کم تیس چالیس نشستوں پر انہوںنے دھاندلی کی اور اکثریت حاصل کر لی ۔منصفانہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی 100سے زیادہ نشستیں وہ کبھی جیت نہ سکتے ۔
مجھ ناچیز سمیت بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملوںکا سلسلہ روکنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے ہی سب سے بہتر حربہ ہے۔ ایک مسلسل مہم جس کے لیے ایک متفقہ قومی حکمتِ عملی کی تشکیل ضروری ہے ۔ ایم کیو ایم اور نون لیگ کی قیادت جب اصرار کرتی ہے کہ امریکی امداد کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے تو وہ کس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں ؟ ہفتے کی شام جب تحریکِ انصاف کے مظاہرے سے حکومت پر دبائو بڑھاتو رانا ثناء اللہ نے اوّل یہ کہا کہ احتجاج ان کا جمہوری حق ہے‘ پھر جناب حیدر عباس رضوی کی تائید سے شہ پاکر پرویز رشید ایسی طعنہ زنی پر اتر آئے۔
اتوار کے اخبار میں ایک سرکاری اخبار نویس نے ارشاد کیا کہ جو لوگ سانحہ راولپنڈی کی شام وزیرِ داخلہ کو پرویز مشرف کا قصہ چھیڑ کر توجہ ہٹانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، وہ سطحیت اور بدگمانی کا شکار ہیں ۔ گھمنڈ؟ وہ جو ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں جنم لیتا اور تباہی کا باعث بنتا ہے ۔ لاہور کے گورنر ہائوس میں میاں محمد اظہر نے اپنے ملاقاتی سے یہ کہا تھا : معلوم نہیں اس میں کیا بھید ہے کہ حقیقت حال بتانے کی بجائے ہمارے دوست ہمیں خوش رنگ تصاویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اقتدار کی روشنیاں شاید آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہیں۔قرآنِ کریم یہ قرار دیتاہے : آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں ۔
افراد ہی نہیں ، اقوام بھی تکبر کا شکار ہوتی ہیں ۔ ایک کے بعد دوسری عالمی طاقت اسی طرح تباہ ہوئی ۔ ایک کے بعد دوسرا حکمران اسی طرح رسوا ہوتا اور تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتاہے ۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ جب ڈرون حملوں پر تحریکِ انصاف ، نون لیگ اور جماعتِ اسلامی کا نقطۂ نظر ایک ہے تو حکمتِ عملی کیوں ایک نہیں ہو سکتی ۔ اس سے پہلے بھی ایک سوال ہے کہ تحریکِ انصاف اگر احتجاج کی لہر اٹھاتی ہے توشریف حکومت اسے قومی مفاد میں کیوں استعمال نہیں کر تی؟ ایم کیو ایم اگر کیڑے ڈالتی ہے تو یہ قابلِ فہم ہے کہ کراچی میں کپتان سے اس کی سیاست کو خطرہ ہے اور وہی اس کی کل متاع‘ مگر نون لیگ اس قدر تنگ نظری پہ کیوں اتر آئی ۔ کہیں یہ پرویز رشید کا ذاتی روّیہ تو نہیں ؟
یہ سوال لاہور کے ایک معتبر اخبار نویس سے پوچھا گیا جو شریف خاندان کے احوال سے باخبر رہتاہے ۔ا س کا جواب یہ تھا: نون لیگ کا نہیں ، نظریاتی طور پر وہ پیپلز پارٹی کا ا ٓدمی ہے ۔ فقط بائیں بازو کے اخبار نویسوں سے وہ رسم و راہ رکھتااور میاں صاحب کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگا رہتاہے ۔ ناچیزکی رائے قدرے مختلف ہے ۔ اشارۂ ابرو پر ہی وہ حرکت میں آتا ہے۔ ثانیاً ڈرون حملوں پر نون لیگ کا موقف حقیقی سے زیادہ نمائشی ہے ۔ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جائے گی۔
عمران خان اگر مذمت کے مستحق ہیں تو عالی مرتبت وزیرِ اطلاعات ،وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کے بارے میں کیا فرمائیںگے جن کا ردّعمل کپتان سے مختلف نہ تھا ۔ انکل سام کو جنہوںنے پاکستان دشمنی کا مرتکب قرار دیا۔ اس پارلیمنٹ کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو قرار داد منظور کر چکی کہ امریکہ اگر باز نہ آئے تو اس کی رسد روک دی جائے؟ مسلّح افواج کی قیادت کے بارے میں کیا حکم ہے جس نے نومبر 2011ء میں سات ماہ کے لیے سپلائی بند کر دی تھی ۔
مرتب اور منظم سیاسی پارٹیاں ! پارلیمنٹ نہیں جمہوریت کا سب سے اہم ادارہ سیاسی پارٹیاں ہیں ، نچلی سطح تک جن کے عہدیدار منتخب ہوں ۔ نعرے بہت، دعوے بہت،حسنِ عمل کی مگر ایک رَتی بھی نہیں۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی یرغمال ہیں۔ نون لیگ کا المیہ سب سے بڑا ہے کہ اعلیٰ مناصب کے لیے ایک خاص برادری سے تعلق لازم ہے یا خاندان سے وفاداری۔ جب تک خورشید شاہ، قائم علی شاہ اور شیخ رشید ایسے لوگ حکمرانوں کے گرد جمع رہیں گے، جمہوری نظام کبھی نتیجہ خیز نہ ہو پائے گا۔
دو سال غلطی پہ غلطی ہی کی‘ خاص طور پہ غداروں کا فروغ۔ طویل عرصے کے بعد تحریکِ انصاف نے ایک قدم اٹھایا ہے جو اس کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنا۔ بجا کہ امن کے قیام، سیاسی استحکام، معاشی نمو اور ٹیکس وصولی میں اضافے کے بعد ہی آزاد خارجہ پالیسی کا حصول ممکن ہے ،فقط احتجاج سے نہیں ۔ امریکی غلامی پر قوم بہرحال ناراض ہے اور آزادی کی آرزومند۔ ہمارے حکمران طبقات اور انکل سام کو ادراک ہی نہیں کہ تادیر یہ صورتِ حال برقرار نہیں رہ سکتی ۔ تادیر کسی قوم کے جذبات کو دبایا نہیں جا سکتا۔
مایوسی کے ماحول میں یہ بات مضحکہ خیز معلوم ہوگی ۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ قوم کا اجتماعی ضمیر امریکہ سے بیزار ہو چکا۔ کوئی دن جاتاہے کہ حادثہ ہو گا اور پاکستان امریکی غلامی سے نجات پا لے گا۔ پرویز رشید ایسے لوگ اس دن کیا کریں گے ؟
عوامی بیداری کے بغیر کسی ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔بارِ دگر التماس یہ ہے کہ حکومت اور افواج نہیں یہ اقوام ہیں، جو ملک کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ افسوس کہ کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔ افسوس کہ کم ہی غور کرتے ہیں۔ بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل اتنا اہم ہے کہ فقط لیڈروں پر اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ پرویز رشیدوں پہ تو ہرگز نہیں۔