تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-11-2013

آخر کار وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ گئے

معاشرہ تفریق در تفریق کا شکار ہو رہا ہے۔ اگر اب بھی اسے مجتمع کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور اس کوشش میں اگر اب بھی ہر فرد‘ ہر طبقہ‘ ہر فرقہ‘ صدقِ دل سے شامل نہ ہوا تو بات بڑھ جائے گی۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل ہم پچھتائیں تو کچھ بھی نہ ہو سکے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آج پچھتائیں۔ آج... کہ آج معاملات ہمارے ہاتھ سے بالکل نہیں نکلے۔ 
گزشتہ جمعہ کو مذہبی جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ یہ احتجاج سانحۂ راولپنڈی کے خلاف تھا؛ تاہم شیعہ اور سنی علما نے اس احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ سانحۂ راولپنڈی کے خلاف جمعہ کو ہونے والے احتجاج سے اہلِ سنت کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی شیعہ اور سنی علما نے صوبائی وزیر قانون پر شدید تنقید کی اور واقعہ کی انکوائری کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ان کا نام مسترد کردیا۔ دارالحکومت میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین کے رہنما اور سنی تحریک کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ صوبائی وزیر قانون کالعدم تنظیموں سے تعلقات کا پس منظر رکھتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے رہنمائوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ربیع الاول اور یوم عاشور کے جلوسوں پر پابندی لگانے کا بیان مخصوص فرقے کی ترجمانی کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس تفریق در تفریق کو ختم کرنے کے لیے کم از کم اس کی شدت کو گھٹانے کے لیے سوسائٹی مثبت طور پر سوچتی‘ سوشل میڈیا پر ایک اور نکتہ نکالا گیا کہ غیر شیعہ گروہوں کو تقسیم کرنے میں بالآخر حکومت کامیاب ہو گئی ہے اور یہ کہ اسی لیے سنی تحریک نے جمعہ کے احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ کاش ایسا ہوتا اور حکومت اتنی لائق اور باریک بین ہوتی! مگر ایسا نہیں ہے۔ مذہبی گروہوں کی تقسیم اس جمعہ کے احتجاج سے بہت پہلے ہو گئی تھی۔ یہ کام تو سالہا سال سے ہو رہا ہے۔ جن گروہوں کو اب دھچکا لگا ہے صرف وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تقسیم اب بھی کی جا رہی ہے۔ 
معاشرہ پہلے ہی دو بڑے گروہوں میں تقسیم تھا۔ بظاہر مذہبی اور بظاہر غیر مذہبی۔ دوسرے الفاظ میں ایک طرف وہ ہیں جو مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے اور تعلیم دیتے ہیں۔ یہ تفریق عملی زندگی میں اتنی شدید ہے کہ ان دونوں طبقات کا رہنا سہنا‘ کھانا پینا الگ الگ ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اخبارات و جرائد اپنے اپنے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالات میں ان طبقات کے درمیان رشتے ناتے تک نہیں ہوتے۔ ایک لڑکا جس نے ایم بی اے کیا ہے‘ ڈاکٹر ہے‘ انجینئر ہے‘ سی ایس ایس کیا ہے یا کپتان ہے‘ ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرتا جس نے کسی دینی مدرسہ سے عالمہ کا کورس کیا ہے۔ اسی طرح ایک صاحب جو دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں‘ اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے خاندان میں کرنا پسند کرتے ہیں جن کی مذہبی حوالے سے ان کے ساتھ مناسبت ہو۔ ایسا نہ ہونے کی شرح بہت کم ہے۔ لیکن غور کیجیے کہ جو طبقہ مدارس سے تعلق رکھتا ہے‘ اُس کی آگے پھر تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے اور اگر یہ تقسیم پہلے موجود تھی تو اب کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ 
دوسری طرف دہشت گردی کا کوئی مسلک ہے نہ مذہب‘ بازار‘ مزار یا مدرسے میں دھماکہ ہوتا ہے تو بم کے ٹکڑے مسلک یا عقیدے کا لحاظ نہیں کرتے۔ مرنے والوں میں شیعہ بھی ہوتے ہیں‘ دیوبندی بھی‘ اہلِ حدیث بھی‘ بریلوی بھی اور عیسائی بھی! بدقسمتی سے ہمارے مسالک اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے۔ جب قبروں سے میتیں نکالی گئیں اور مزاروں اور خانقاہوں پر حملے ہوئے تو صرف متاثرہ مسلک نے احتجاج کیا۔ باقی مسالک الگ بیٹھے رہے۔ اسی طرح جب دہشت گردوں نے کوئٹہ اور چلاس میں ایک خاص گروہ کو نشانہ بنایا اور پھر بناتے ہی گئے تو دوسرے مذہبی گروہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے رہے۔ اب راولپنڈی کے سانحے میں تیسرے مسلک کو نشانہ بنایا گیا۔ مسجد کی بے حرمتی کی گئی‘ لوگوں کو قتل کیا گیا اور مارکیٹیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ اب اس مسلک نے یومِ احتجاج منایا تو باقی دونوں مسالک الگ کھڑے ہو گئے۔ یہ ہے وہ تقسیم در تقسیم در تقسیم جو خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ 
مارٹن نیمولر (Martin Niemoller) ایک جرمن پادری تھا۔ شروع میں وہ کمیونسٹوں کے خلاف تھا اور ہٹلر کا ہم نوا تھا۔ جب ہٹلر نے کہا کہ ریاست کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے تو نیمولر ہٹلر سے مایوس ہو گیا۔ وہ ان مذہبی قوتوں کے ساتھ شامل ہو گیا جو ہٹلر کی مخالفت کر رہی تھیں۔ 1937ء میں اُسے نازیوں نے گرفتار کر لیا۔ اتحادیوں کو فتح ہوئی تو انہوں نے 1945ء میں اُسے رہا کیا۔ نیمولر نے ایک شہرۂ آفاق نظم لکھی۔ اس نظم میں مختلف مواقع پر ردّوبدل کیا جاتا رہا لیکن مشہور ترین روایت یہ ہے: 
''پہلے وہ کمیونسٹوں کو پکڑنے کے لیے آئے میں نے کوئی احتجاج نہ کیا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے‘ میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کو پکڑنے آئے‘ میں تب بھی خاموش رہا کہ میرا ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے‘ میں تب بھی نہ بولا اس لیے کہ میں یہودی نہ تھا۔ آخرکار وہ مجھے پکڑنے کے لیے
آگئے لیکن اب کوئی باقی ہی نہ بچا تھا کہ بولتا!‘‘ آپ غور کیجیے کہ مارٹن نیمولر کی نظم ہمارے مسالک کی باہمی چپقلش پر کس حیرت انگیز طریقے سے صادق آ رہی ہے۔ پہلے ایک مسلک کو نشانہ بنایا گیا۔ پھر دوسرے کو اور اب تیسرے کو۔ ہر مسلک دوسرے مسلک کی تباہی سے بے نیاز رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تمام الگ الگ کھڑے ہیں! 
ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ دہشت گرد کسی مسلک کے ہم درد نہیں۔ دہشت گردی کا ایک ہی مسلک ہے۔ قتل و غارت اور لاقانونیت کی زندگی گزارنا۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسالک کے رہنما اصل حقیقت کا ادراک کریں‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اور فروعی اختلافات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھیں۔ یہ وہی مسالک ہیں جن کے بزرگ کئی مواقع پر اکٹھے ہوئے اور کئی تحریکوں میں متحد ہو کر جدوجہد کی۔ وہ نکات جن پر ان مسالک کا اتفاق ہے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اختلافی نکات کم ہیں۔ فساد پھیلانے والے عناصر صرف اُن نکات کو ہوا دیتے ہیں جو اختلافی ہیں‘ جو سانحہ راولپنڈی میں ہوا وہ خدانخواستہ کل کہیں اور‘ کسی دوسرے مسلک کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ شیعہ‘ سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہلِ حدیث علماء فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اکٹھے بیٹھ جائیں اور کسی ایک مسلک پر حملے کو تمام مسالک پر حملہ تصور کریں۔ یہی وہ صورت ہے جب مسجدیں‘ امام بارگاہیں اور ملحقہ مارکیٹیں محفوظ رہیں گی اور معصوم شہریوں کو ان کے نام پوچھ کر اور شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے کا ہولناک سلسلہ بند ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved