تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-11-2013

پرویز رشید‘ عمران خان اور پنجابی محاورہ

پرویز رشید ویسے ہی وزیر اطلاعات ہیں جیسا کہ کسی وزیر اطلاعات کو ہونا چاہیے۔ ایسی ہی صورتحال کے لئے مارک ٹوئن نے اپنی ایک کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ ''وہ لوگ جو ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں‘ اس کتاب کو ویسا ہی پائیں گے جیسی کتابیں وہ پسند کرتے ہیں‘‘۔بیانات سے اختلاف اپنی جگہ مگر ان کی خوبیوں کا معترف نہ ہونا بددیانتی ہو گی۔ ٹھنڈے ٹھار‘طبعاً جیالے اور حقیقتاً متوالے۔ زبان کے میٹھے اور عمل کے پورے۔ لہجہ نرم اور بیان سخت۔ بظاہر اصول پسند مگر پارٹی کے حوالے سے سوفیصد بے اصول۔ نجی گفتگو سے لے کر سرکاری بیانات تک مسلم لیگ کے بے لوث بلکہ خرابی کی حد تک وفادار؛ البتہ دیگر پارٹیوں کے حوالے سے خرابی کی حد تک حق گو۔ میاں صاحب کی خرابیوں میں سے خوبیاں برآمد کرنے کی صلاحیت سے مالا مال اور مخالفین کی خوبیوں سے بھی خرابیاں تلاش کرنے میں ید طولیٰ رکھنے والے پرویز رشید سے بہتر وزیر اطلاعات کم از کم مسلم لیگ میں تو ہرگز موجود نہیں۔ گمان غالب ہے کہ اگر مسلم لیگ ن میں پرویز رشید نہ ہوتے تو میاں نواز شریف یہ اہم وزارت بھی اپنے پاس ہی رکھ لیتے۔
سمجھدار سے سمجھدار اآدمی بھی کبھی غلطی کر جاتا ہے اور انسان تو ویسے بھی خطائوں کا پتلا ہے۔ وفاداری جب حد سے بڑھ جائے اور سچائی کا معیار محبت بن جائے تو پھر حقائق اور کلچے لگانے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ڈرون حملوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اور اس پر بیان بازی اور سیاست کرنے والے حقائق بیان نہیں کر رہے‘ کلچے لگا رہے ہیں۔ عزیزم پرویز رشید کا بھی یہی حال ہے۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر محترم نے فرمایا کہ ''عمران خان کی تلوار امریکہ کے ساتھ جبکہ دل طالبان کے ساتھ ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ''عمران خان کی خیبر پختونخوا والی حکومت ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج بھی کرتی ہے اور امریکہ سے 37ملین ڈالر بھی لیتی ہے‘‘۔ پھر ان 37 ملین ڈالرز کو 37 کروڑ ڈالرز میں تبدیل کر دیا۔ صرف اپنی انگریزی میں بتائے ہوئے ''ملین‘‘ کو بیک جنبش لب کروڑ میں تبدیل کر دیا۔ یعنی ترجمے کے طفیل‘ رقم دس گنا کر دی ۔ قوم کی اکثریت کو ابھی تک ملین کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی اور ایسی اکثریت کے سامنے اگر ملین کا ترجمہ ایک ارب بھی کر دیا جائے تو وہ یقین کر لے گی کہ غبن‘رشوت‘ کمیشن اور اسی قبیل کی دیگر ''جائز کمائیوں‘‘ کا ذکر اب لاکھوں‘ کروڑوں اور اربوں کے بجائے ملین اور بلین وغیرہ میں کرنا معمول اور فیشن بن چکا ہے لہٰذا عوام کی اکثریت ملین اور بلین وغیرہ کا اردو میں حقیقی ترجمہ کرنے سے عاری ہونے کی وجہ سے اصل رقم سے آگاہ ہی نہیں ہو پاتی۔ پرویز رشید پرانے جیالے اور عوامی آدمی ہیں‘ عوام کی اسی نفسیات اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ملین‘ جو کہ حقیقت میں دس لاکھ کے مساوی ہے‘ کو کروڑ کے برابر کر دیا۔ تاہم یہ میرا خیال ہے۔ ممکن ہے انہوں نے یہ غلط بیانی جان بوجھ کر نہ کی ہو اور ان سے سہواً ایسا ہو گیا ہو اور یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ انہوں نے ملین کو کروڑ میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے بہترین علم سے کام لیا ہو اور ان کا مبلغ علم ہی اتنا ہو کہ ملین واقعتاً کروڑ کے برابر ہوتا ہے۔ وہ عوامی آدمی ہیں اور اس حوالے سے ''عوامی علم‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی طرف سے سو فیصد درست ترجمہ ہی کیا ہے۔
یہ سارا قصہ تو خیر ایک دل لگی تھا تاہم انہوں نے ایک بیان تو ایسا مزیدار فرمایا کہ طبیعت کافی دیر سے عش عش کر رہی ہے اور ان کے اس دل پذیر بیان سے رہ رہ کر لطف لے رہی ہے۔ محترم وزیر نے فرمایا کہ ڈرون حملوں کے خلاف باتیں کرنے سے پہلے عمران خان اپنے اردگرد موجود لوگوں سے جان چھڑائیں جو ان ڈرون حملوں کی اجازت فرمانے والے جنرل پرویز مشرف کے ساتھی تھے اور ان کے ایسے تمام اقدامات میں شامل تھے ۔ ان کی مراد غالباً شاہ محمود قریشی اور خورشید محمود قصوری سے ہے جو جنرل صاحب کے دس سالہ دور اقتدار میں وزارت خارجہ کے اعلیٰ اور حساس منصب پر فائز رہے۔ خورشید محمود قصوری نے تو اپنا سارا عرصہ اقتدار جنرل پرویز مشرف کی گود میں گزارا اور شاہ محمود قرشی نے 31مارچ 2008ء کو 
صدر پرویز مشرف کی زیر سرپرستی وزارت خارجہ کا چارج سنبھالا۔ ان کی صدارت کے اختتام تک یعنی 18اگست 2008ء تک تقریباً پانچ ماہ ان ڈرون حملوں کی اجازت کے بنیادی کردار کے زیر سایہ وزارت کا لطف لیا اور ان ڈرون حملوں پر اس دوران اور بعدازاں اپنی فراعت تک یعنی 2011ء تک خاموشی اختیار کئے رکھی۔ پرویز رشید کا کہنا سچ ہے مگر اس سچ پر پھر کبھی سہی۔ ابھی تو معاملہ یہ ہے کہ پرویز رشید کو عمران خان بغل میں بیٹھے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے حواری اور ساتھی تو نظر آ رہے ہیں مگر آرٹیکل چھ کی کارروائی کی زد میں آنے والے ''مبینہ غدار‘‘ کے ساتھیوں کی جتنی کثیر تعداد مسلم لیگ ن میں موجود ہے اگر ان کی گنتی کی جائے تو مسلم لیگ کو صرف اس مسئلے میں بھی بھاری مینڈیٹ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف مسلم لیگ ن میں موجود ہیں بلکہ درجنوں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی براجمان ہیں اور وزارتوں اور مشاورتوں پر بھی فائز ہیں۔پرویز رشید کا عمران خان کو جنرل کی باقیات کے طعنے جیسی صورتحال کے لئے پنجابی زبان میں محاورہ ہے کہ ''چھج کیہہ آکھے چھاننی نوں‘ جدے آپ نو سو چھیک‘‘ یعنی چھاج چھلنی کو کیا کہہ سکتا ہے جس میں خود نو سو چھید ہیں۔
دوسری طرف عمران خان بھی ڈرون حملوں پر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ نواز شریف کو تو وہ اکسا رہے ہیں کہ ڈرون جہاز گرائیں‘ نیٹو سپلائی بند کریں اور پوری نیٹو برادری سے ٹکرا جائیں لیکن دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ہنگو میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے پر ‘ جو اس غیر قبائلی (بندوبستی) علاقے میں ہوا ہے جو خیبر پختونخوا کی پرویز خٹک حکومت کے زیر انتظام ہے اور اس حملے پر پرچہ درج کرنے کا اختیار خیبر پختونخوا پولیس کے دائرہ اختیار میں ہے۔ دوسروں کو بہادری‘ عزت اور قومی حمیت کے طعنے دینے والے عمران کی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں خود اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اس حملے پر درج ہونے والے پرچے میں امریکی ڈرون کا نام اور حملہ آور کے طور پر امریکی حکومت کا نام ہی لکھ دیتی۔ خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت کا محاورہ اسی صورتحال کے لئے ہوتا ہے۔ اپنی صوبائی حکومت کو حکم دینا تو ایک طرف عمران خان کا لہجہ ان سے مطالبہ کرتے ہوئے بھی اتنا نرم تھا کہ دوسروں پر الفاظ کے تیر چلانے کا ماہر عمران خان اس موقع پر عمران خان ہی نہیں لگ رہا تھا۔ عمران خان صاحب !وفاقی حکومت کو طعنے دینے‘میاں صاحبان کو جگتیں کرنے اور دوسروں کو بزدل‘ بے غیرت اور قومی حمیت سے عاری جیسے القابات و خطابات سے نوازنے سے پہلے اپنی صوبائی حکومت کی ادائوں پر غور کریں اور پھر بعد میں دوسروں پر الزامات لگائیں۔ قرآن مجید میں ہے ''تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے؟‘‘ پھروہی پنجابی محاورہ۔ گریبان اچ جھاتی پاء تے منجی ہیٹھ ڈنگوری پھیر۔ غیر پنجابی اس محاورے کا ترجمہ کسی پنجابی سے کروا لیں۔ میں نے ترجمے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved