تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     26-11-2013

کرسٹینا کی کتاب اور تبصرے پرایک نظر

کرسٹینالیم (Christina Lamb) ( انگریزی زبان میں M کے بعد آنے والا B نہیں بولا جاتا)کا نام پاکستان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پاکستان میں صحافی بن کر آئیں اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کی راز دان بن کر روانہ ہوئیں۔ آج کل اُن کی لکھی ہوئی کتاب برطانیہ میں خوب فروخت ہو رہی ہے۔ کتاب کا نام ہے ''میں ہوں ملالہ‘‘ ۔ کتاب کے مندرجات مبینہ طور پر بے چاری ملالہ سے منسوب کیے گئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ملالہ کے اپنے ذہن کی اپنی نام نہاد خود نوشت میں کس حد تک عکاسی کی گئی ہے؟ آپ مطمئن رہیے گا کہ یہ معمہ کبھی حل نہ ہوگا، ہم اس پر خواہ مخواہ کیوںسر کھپائیں؟ جو لوگ بے بس اور لاچار ملالہ پرکڑی اور کڑوی تنقید کررہے ہیں میں اُنہیں غالب ؔکے ایک مشہور شعر کا پہلا مصرع سنانے پر اکتفا کرتا ہوں: 
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
مگر ایک بات پکی ہے کرسٹینا ہرگز فرشتہ نہیں اور نہ اُس نے فرشتہ ہونے کا کبھی دعویٰ کیا ہے۔
اب آیئے ہم ایک نئی کتاب کی طرف چلیں جو مشہور برطانوی ناشرViking نے اس ہفتے شائع کی ہے۔ یہ کتاب اس کالم کو پڑھنے والوں کے لیے اتنی ہی خصوصی دلچسپی کا موجب ہوگی جتنی وہ کالم نگار کے لیے تھی ۔کتاب کانام ہے:
The Siege: Three days of terror inside the Taj۔ سنڈے ٹائمزنے اس کتاب پر تبصرے کے لیے کرسٹینا کی خدمات حاصل کیں۔ اب بتائیے ہم اس خاتون سے بھاگ کر کہاں پناہ لیں؟ اخبار پڑھیں تو سب سے پہلے اُس کے تبصرے پر نظر پڑتی ہے،کتابوں کی دُکان میں نمایاں جگہ پر اُس کی کتاب (میں ہوںملالہ ) دکھائی دیتی ہے،بی بی سی پر اُس کی آواز سنائی دیتی ہے مگر اس کا موضوع سخن ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے اوروہ ہے پاکستان۔ کرسٹینا کو مشرق وسطیٰ کے ایک شاندار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تاکہ وہ آرام سے مذکورہ کتاب پڑھ کر اُس پر تبصرہ کر سکیں۔رپورٹ کی پہلی سطر ہے:''اگر آپ اپنی نیند میں زیادہ خلل نہیں ڈالنا چاہتے تو یہ راتوں کی نیند اُڑا دینے والی کتاب نہ پڑھیں‘‘۔ کرسٹینا نے بلا توقف اور پس و پیش کے بغیر مصنفین کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ ممبئی پر یہ حملہ پاکستانی دہشت گردوں (جن کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا) اور پاکستان کے جاسوسی ادارے (آئی ایس آئی) کے تعاون سے ہوا۔ ممبئی میں ہونے والے سانحہ پر یہ پہلی کتاب ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق یہ اتنی سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں گودا جما دیتی ہے۔
اس کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے غربت زدہ دیہات سے تعلق رکھنے والے دس نوجوانوں نے دُنیا کے چوتھے بڑے شہر کو کس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس میں 166 افراد مارے گئے اوراس سے کہیں زیادہ شدید زخمی ہوئے ۔ ساری دُنیا نے ممبئی پر ہونے والے اس خوفناک حملے کو لمحہ بہ لمحہ اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ حملہ ممبئی کے پانچ مقامات پر ہوا مگراس کتاب کی توجہ صرف شہرۂ آفاق ہوٹل تاج محل پیلیس پرمرکوز ہے اور بتاتی ہے کہ حملے کے دوران ہوٹل میں پھنس جانے والے مہمانوں اور ہوٹل کے سٹاف پر کیا گزری؟
آیئے اب آپ اس کتاب کا خلاصہ پڑھیں:''حملے کا آغاز26 نومبر2008 ء کی صبح ہوا۔ ہوٹل کاسٹاف مہمانوں کو ناشتہ کرانے کی تیاری میں مصروف تھا کہ حملہ آوروں نے سمندری راستے سے ممبئی کے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد تاج محل ہوٹل کے اندر داخل ہو کر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ ممبئی شہر کے اندر پہنچ جانے کے باوجود حملہ آور پانچ جتھوں میں تقسیم ہوگئے۔ کچھ اپنی منزل کی طرف پیدل چل کر گئے اوردُوسروں نے اپنا سفر ٹیکسی سے کیا۔ سب سے پہلا حملہ جس ریستوران پر کیا گیا اُس کا نام ہے Leopold Court ۔ یہ تاج محل ہوٹل کے اتنا قریب ہے کہ حملہ آوروں کو وہاں گولیوں کی بارش کر کے کافی لوگوں (جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے) کو ہلاک یا شدید زخمی کرنے کے بعد تاج محل جانے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تاج ہوٹل پر حملہ ہوا تووہاں قیامت آگئی،گولیوں کی آواز اوردستی بموںکے دھماکوں کا وحشت ناک شور،گولیوں کی زد میں آنے والے مہمانوں اور ملازمین کی گرتی ہوئی لاشیں، ہر طرف چیخ پکار!یقین نہیں آتا کہ صرف چار افراد نے 560 کمروں پر مشتمل ہوٹل پر قبضہ کر لیا۔ سینکڑوں لوگ اندر پھنس گئے مگر ہوٹل سٹاف کے دلیرانہ اقدامات سے مہمانوں کی بڑی تعداد جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ ہوٹل کے مہمانوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ فوجی کمانڈو اُنہیں بہت جلد حفاظت سے نکال لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر اُن کا یہ اندازہ بالکل غلط نکلا۔پولیس کے صرف آٹھ سپاہی آئے مگر اُن کے پاس تھاکیا؟ قدیم زمانہ کی Bolt-Action رائفلیں اور پلاسٹک کی حفاظتی ڈھالیں۔ اُنہیں بہت جلداندازہ ہو گیا کہ وہ حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہٰذا راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔وہ میر تقی میرؔ تو تھے نہیں کہ دلِ ناتواںکی بہادری کا قصیدہ پڑھتے۔ (مقابلے میں ناکامی سے قطع نظر) نالائقی کی حد یہ ہے کہ بھارتی فوج کےBlack Cat نامی کمانڈو یونٹ کوبائیس منٹ کے اندر حملے کی اطلاع دے دی گئی مگر داد دیجئے سرخ فیتے کو جس نے اِس کے ہاتھ پائوں اس طرح باندھے ہوئے تھے کہ وہ تاج محل ہوٹل بمشکل اگلے دن پہنچا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے چوبیس گھنٹے ہوٹل میں پھنسے ہوئے مہمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے خود ضروری اقدامات کرنے پڑے۔ حملہ آور باری باری ہر کمرے کی تلاشی لے رہے تھے،مہمانوں کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ کمرہ بند کر کے بیڈ کے نیچے چھپ جائیں یا کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جان بچائیں؟ ایک برطانوی جوڑے نے اپنے اعصاب کو مضبوط بنانے کے لئے Mini Bar میں رکھی ہوئی شراب (Gin And Tonic) غٹ غٹ پی اور اپنے آپ کو باتھ روم میں مقفل کر لیا۔ جب پتا چلا کہ ہوٹل کو آگ لگا دی گئی ہے تو اس جوڑنے نے چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہوٹل منیجر کے بیوی بچے ہوٹل کی چھٹی منزل کے ایک کمرے میں پھنس گئے اور یہ وہی جگہ تھی جہاں سے ہوٹل کوآگ لگانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ ہوٹل منیجر کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا مگر وہ بے بس تھا اور کسی صورت اپنے بیوی بچوں کو موت سے نہ بچا سکتا تھا۔ ہوٹل میں قیام کرنے والے جن مہمانوں کو یرغمال بنا لیا گیا وہ اپنے موبائل فون پر مدد مانگتے اورفریاد کرتے تھے کہ ان کی جان بچالی جائے مگر بدقسمتی سے یہ موت کو دعوت دینے کے مترداف تھاکیونکہ حملہ آوروں کو ان کی موجودگی کا ان کی فون کال سے علم ہو جاتا تھا اور اس طرح ان کا بچ نکلنا ممکن نہ رہا۔ اس کتاب کے مصنفین نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آوروں کی راہنمائی کراچی کے ایک مکان میں بیٹھا ہوا پاکستانی فوجی افسر کر رہا تھا جس کا فرضی نام میجر اقبال تھا اور وُہی لشکر جھنگوی سے دہشت گردی کی وارداتیں کروانے کا ذمہ دار تھا‘‘۔
ہماری فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ ہیں۔ وہ لفظ شہید کے استعمال اور اطلاق کے بارے میں جناب سید منور حسین کے کھرے اور دیانتداری پر مبنی بیان پر سخت ناراض ہیں۔ انہوں نے فوجی روایت کے برعکس تند و تیز جوابی اور ملامتی بیان جاری کر دیا، خاموش رہتے تو بہتر ہوتا۔ کیا یہ کالم نگار اُن سے بجا طور پر یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ وقت نکال کر مذکورہ کتاب پڑھیں اور سوچ سمجھ کر قوم کو صحیح بات بتائیں کہ ہمارے جانے پہچانے بدخواہوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا اُن کے پاس کیا جواب ہے؟ میرے خیال میں یہ اُن کا فرضِ اوّلین ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved