تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     26-11-2013

آئیے ! سچ بولیں اور اس کی قیمت چکائیں (آخری قسط)

کل میں نے قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارَکہ کی روشنی میں بتایا تھا کہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں میں سے بظاہر جھوٹے عذر اوربہانے تراشنے والے منافقین کو ان کے حال پر چھوڑدیا گیا اور اُن کی آخر ت کا معاملہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا گیا۔ ایک حدیثِ مبارَک کا مفہوم ہے:''رسول اللہﷺ نے اُن کے ظاہری بیان کو قبول فرما لیا، اُن سے بیعت لے لی، اُن کے لئے استغفارکیا اور اُن کے باطن کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن جن تین صحابۂ کرام ؓنے سچ بولا، اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، کوئی جھوٹا بہانہ نہیں تراشا، انہیں ابتلاسے گزرنا پڑا ، اُس کا اجر ان کو اتنا عظیم ملا کہ اُن کی توبہ کی قبولیت کی شہادت قرآنِ کریم قیامت تک دیتا رہے گا۔
افسوس! ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر سچ بولنا چھوڑ دیا ہے ۔ اس وقت ہمارے ملک میں ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے حوالے سے سیاست میںگہماگہمی ہے؛حالانکہ یہ کام ایک عشرے سے جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں چیزوں کی مخالفت مقبولِ عام نعرہ ہے،لیکن جب ہم الیکٹرانک میڈیا کو دیکھتے اور اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تواہلِ فکر ونظر اور سیاسی جماعتیں بھی منقسم نظر آتی ہیں ۔ ہمارے لبرل طبقے اور جدیدماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ امریکہ سے بگاڑ ہمارے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ داخلی وخارجی قرضوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ، بین الاقوامی تجارت میں ادائیگیوں کا عدمِ توازن اور بدامنی وفساد کی وجہ سے معاشی بدحالی ہمیں امریکہ اورمغرب کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ایران کی طرح ہمارے پاس پٹرولیم کے غیرمعمولی ذخائربھی نہیں ہیں۔ ہماری برآمدات میں کپاس، ٹیکسٹائل ، چاول ، آلات جراحی اور چند دیگر اشیاء کے سوا کیا ہے اوران کا انحصار بھی امریکہ اور یورپ پر ہے۔ بیرونی زرِ مبادلہ کا ایک ذریعۂ آمدن پاکستانی تارکینِ وطن کی مالی ترسیلات ہیں،یہ ذریعہ بھی امریکہ ،یورپ اور ان کے زیرِ اثرممالک کامرہونِ منت ہے۔
دوسری طرف راسخ العقیدہ عام مسلمانوںاورماہرین کی رائے یہ ہے کہ غیرت مند بنو، دوسروں پر انحصار چھوڑو، قناعت اختیار کرو، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرو، اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرمائے گا۔ وسائل سے محروم افغانی امریکہ کو شکست دے چکے ہیںاور ہم تو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی ومذہبی قائدین بند کمرے میں طویل اجلاس کریں، مختلف تدابیر اور حکمتِ عملی کا جائزہ لیں ، تمام صورتوں میں نفع ونقصان کا تخمینہ لگائیں، کامیابیوں کے فوائد اور ناکامیوں کے مُضمرات کا جائزہ لیں اور ایک ملّت بن کر اپنی استعداد کا بھی حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں، آپس میں جھوٹ بولیں نہ عوامی مقبولیت کے لیے عوام کے سامنے جھوٹ بولیں، جس پر آپ سب کا اتفاق ہوجائے،ایک صف میں کھڑے ہوکر قوم کو ذہنی، فکری اور عملی طور پرپیش آنے والی ممکنہ مشکلات کے لیے تیار کریں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیزِ مصر کے خواب کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ تم پر سات سال خوش حالی کے آئیں گے اور اس کے بعد سات سال قحط سالی کے آئیں گے ، سو خوش حالی کے سالوں میں ضرورت سے زائد خوراک کو خوشوں میں ذخیرہ کرکے قحط کے سات سالوں کے لیے منصوبہ بندی کریں۔حضرت یوسف علیہ السلام کی منصوبہ بندی اور ان کی امانت اور علم نے مصری قوم کو مشکلات سے نکالا۔ مگر ہم جس صورت ِحال سے دوچار ہیں ،ہمیں قوم کو مشکلات کا مقابلہ کرنے ، راحتوں اور آسائشوں کی قربانی دینے کے لیے تیار کرنا ہوگا اور پورا سچ بتانا ہوگا۔
حکمرانوں اور سیاسی قائدین کورول ماڈل بن کرقوم کے سامنے پیش ہونا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس قربانی کے نتیجے میں قوم میں خود اعتمادی پیدا ہو، ہم بحیثیت قوم اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں اور دو وقت کے بجائے ایک وقت کھا کر گزارہ کرنا سیکھ لیں۔ حکمران اور عوام وقت کے فرعون کی غلامی کے بجائے اللہ کی بندگی اختیار کرلیں مگر منفی پہلو بھی نظر میں رہے، معروف مقولہ ہے:''بہترکی توقع کرو مگر بدتر کے لیے بھی تیاررہو‘‘ ۔ الغرض سچ کی وہ قیمت چکانے کے لیے بھی تیار ہوجائوجس کا ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ''اس طرح تو ہوتاہے، اس طرح کے کاموں میں!‘‘۔
ڈرون حملے اور نیٹو سپلائی گزشتہ عشرے سے جاری ہے ، لیکن ہم نے اب بیدار ہوکر اپنے آپ کو دریافت کیا ہے۔ مزید یہ کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اور اس کے رہبر عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت اگر مذاکرات کی کوئی تدبیر نہیں کرپارہی تو ہم اپنی سطح پر یہ عمل شروع کردیں گے۔وہ غیر مَرئی انداز میں کام کرنے کے بجائے مذاکرات کے لیے باقاعدہ دفتر اورعملی اقدام کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ پاکستانی ہیں اور ان کے پاس بھی جزوی مینڈیٹ ہے، توانہیں آزمانے میں کیاہرج ہے؟ چودھری نثار علی خاں کی ساری مشق پسِ پردہ تھی،اس کا علم انہی کو ہے یا چند صحافی حضرات کو جواس کے مدعی ہیں، جب کہ دوسرے اسے ہوائی باتیں قرار دے رہے ہیں۔ چودھری صاحب نے مذہبی طبقات میں سے صرف ایک طبقے پر اعتماد کیا ہے، باقی اُن کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔ہمارے علم میں دو جملوں کی اپیل ہے:''اللہ ااور رسول کا واسطہ دونوں فریق جنگ بندی کریں اور مذاکرات کا آغاز کریں ‘‘۔ توسوال یہ ہے کہ آیا مذاکرات جرم ہیں جو چوری چھپے کیے جانے ضروری ہیں یاڈر ہے کہ انہیں چُرا لیا جائے گا؟ ایک صورت یہ بھی ہے کہ حکومت اپنی بے بسی اور مجبوری کا دوسرے فریق پر بھی اظہار کرے اور دونوں مل کر کوئی راستہ نکالیں ۔ 
چودھری نثار علی خان پر اب آشکار ہوا ہے کہ امریکہ پاکستانی طالبان سے ہمارے مذاکرات نہیں چاہتا اوروہ پاکستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے، وہ کیسے ہمارا دوست ہوسکتا ہے؟ چودھری صاحب کے علاوہ ہر صاحبِ نظر کو روزِ اول سے معلوم ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جن شرائط پر پاکستان کو امریکہ کے سپرد کیا تھا، وہ یہ تھیں:(1)افغانستان پر حملے کے لیے زمینی وفضائی سہولتیں فراہم کرنا (2)خفیہ معلومات کا تبادلہ، یعنی ان کے دشمنوں کو مارنا یا پکڑکر ان کے حوالے کرنا یا اُن کی پناہ گاہوں کی نشاندہی (3)سب سے پہلے پاکستان یعنی امریکیوں کی جانیں قیمتی ہیں، لہٰذا ان کی سلامتی اور تحفظ کے لیے سب سے پہلے پاکستان کوقربانی کا بکرا بنانا۔ بس فرق یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظر میں امریکہ کے لیے پاکستان کی قربانی بہت زیادہ ہے جب کہ امریکیوں کی نظر میں پاکستان اپنے پیمانِ وفا اور شِعار غلامی پرپورا نہیں اترا، یعنی اِدھر صلہ وستائش کی کمی کی شکایت اور اُدھر توقعات یا پیمان پر پورا نہ اترنے کا گلہ ۔ اوراب اکتوبر2002ء کے گیارہ سال بعد پاکستانی حکومت اور سیاست دانوں اوراہلِ فکر ونظر میں یہ بحث کہ یہ جنگ ہماری ہے یا امریکہ کی؟قابلِ تعجب ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ اصل میں یہ ہماری جنگ نہیں تھی لیکن ہم نے ڈالر اور خوف کے عوض اسے گود لے لیا۔ یہ جنگ کس کی ہے؟اب یہ محض لفظی بحث ہے ۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ تباہی ہماری ہے اور بہت دیر تک چلے گی ۔ امریکہ چلا بھی جائے تو پاکستان نے حساب چکانا ہے۔
لیکن اگر اس جنگ کے اختتام پر ہمیں طالبانِ پاکستان کی شریعت مل جائے تو کیسا رہے گا؟اس کے لیے بعض لبرل ماہرین اور سیاسی قائدین ہماری پیشگی ہمدردی قبول فرمائیں اور ہمیں اپنی دعاؤںمیں یادرکھیں ، کیونکہ اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ اس جنگ کے سب سے پہلے حامی یہی حضرات تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved