کسی بھی طرح کے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدوں کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ شریک ملکوں کے عوام کا ردعمل دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ وہ برقرار اور افادہ بخش ثابت ہوں گے یا تاریخ کے ناکام معاہدوں کے ڈھیر کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔6پلس ایران میں جنیوا معاہدے کو ابتدائی ردعمل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ یہ معاہدہ تاریخ کو ایک نیا رخ دینے کا ذریعہ بنے گا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بن چکا ہے۔یہ معاہدہ آنے والے ان گنت سمجھوتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اس کی اپنی مدت حیات صرف چھ ماہ ہے لیکن اس کی وجہ سے امکانات کے بے شمار دروازے کھلیں گے۔اسرائیل اور سعودی عرب کے سوا ، باقی پوری دنیا میں اس معاہدے کا پرامید خیرمقدم کیاجارہا ہے۔نام نہاد اسلامی انتہا پسندی کے حامی حلقے یقینا اس پر واویلا کریں گے۔جو طاقتیں تاریخ سازی کے عمل میں فیصلہ کن کردارادا کرتی ہیں‘وہ سب اس معاہدے کی حمایت کررہی ہیں۔کلیدی حیثیت ایرانی عوام کو حاصل ہے‘ انہی کا ملک ایٹمی اسلحہ سازی کی طرف پیش قدمی کررہا تھا۔وہی اس پیش قدمی کی وجہ سے عالمی پابندیوں کا سامنا کررہے تھے اور انہی کا ملک ان پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات سے دوچار تھا اور انہی کی زندگی پابندیوں کی بنا پر مشکلات میں گھری ہوئی تھی لیکن ساتھ ہی ان کے قومی وقار اور سلامتی کا سوال بھی حائل تھا۔اس معاہدے پر ایرانی عوام نے جس بے ساختہ مسرت اور شادمانی کااظہار کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس وعدے کو ایرانی عوام کی بھرپور مدد اور حمایت حاصل رہے گی۔شرط صرف یہ ہوگی کہ یہ معاہدہ اپنی روح کے مطابق انہی سمتوں میں آگے بڑھتا رہے، جن کا تعین مسودے کے اندر کردیاگیا۔ایرانی عوام نے جس طرح مذاکرات میں شرکت کرنے والے وفد کا واپسی پرشاندار خیرمقدم کیا۔وہ ان کی خوشیوں کی ترجمانی کررہا تھا۔ ایران کے عوام قومی پرچم اور پھول لیے تہران کے مہرباد ہوائی اڈے کی طرف جھومتے اور نعرے لگاتے ہوئے جوق درجوق اپنے وزیر خارجہ جواد ظریف کے استقبال کے لیے رواں دواں تھے۔انہیں امن کا سفیر کہہ کر پکارا گیا۔عوامی نعروں میں جنگ، پابندیوں، جھکنے اور قومی توہین کے خلاف نعرے شامل تھے۔ان نعروں سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ایران کے عوام اس معاہدے میں اپنے لیے کسی قسم کی توہین یا بے عزتی محسوس نہیں کررہے لیکن اسی میں ان کی یہ بھرپور خواہش بھی کارفرما نظر آتی ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد کے مراحل میں کسی بھی مقام پراگر ایرانی عوام نے یہ محسوس کیا کہ امریکہ اور اس کے ساتھی انہیں دبائو میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تو اس معاہدے کے خلاف عوامی جذبات بھڑک کے اس معاہدے کے پرزے بھی اڑا سکتے ہیں۔چنانچہ امریکہ اور معاہدے میں شامل دیگر طاقتوں کو ایرانی عوام کے احساسات کا قدم قدم پر خیال رکھنا پڑے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس موقع پر اپنے خطاب میں جو باتیں کیں ان سے بھی ایرانی عوام کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بار بار کہا کہ ''ایرانی عوام کے اعتماد اور قومی وقار کو ٹھیس نہیں لگنی چاہیے ورنہ چھ ماہ کے اس عبوری معاہدے کو ایران کسی بھی وقت ختم کرسکتا ہے ۔ہم جو اقدامات کریں گے وہ اعتماد سازی کے ہوں گے‘جو ہر وقت واپس لیے جاسکتے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے ‘‘۔ایرانی میڈیا نے بھی اپنے عوام کی پُرجوش امیدوں کی نمائندگی کی ہے۔روزنامہ' اعتماد‘ نے شہ سرخی لگائی کہ '' آج ایران میں ہرشخص خوش ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی عوام کے پرمسرت ردعمل کابھرپور اظہار ہورہا ہے‘‘۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر عوامی دلچسپی کی ایک وجہ معاہدے کے نتیجے میں پابندیوں کے خاتمے کی توقعات ہیں۔پاکستان جیسے ملکوں کے لیے بھی اس معاہدے میں لامحدود امیدوں کی راہیں کھلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔معاہدے کے فوراً ہی بعد عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں کمی شروع ہوچکی ہے۔آنے والے دنوں میں امید ہے کہ تیل کے نرخ 100 ڈالر سے کم کی سطح پر مستحکم ہوسکتے ہیں۔پاکستان کو اس معاہدے کا جو پہلا تحفہ ملنے والا ہے، وہ ایران سے گیس کی خریداری کے معاہدے پر عملدرآمد ہے۔پاکستان میں تیل اور گیس کی خوفناک قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے فوری ریلیف پاک ایران گیس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوتے ہی مل جائے گی، جو اگلے سال کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس کے ساتھ پابندیوں میں کمی آنے یا ان کا خاتمہ ہونے پر پاکستان کو بیرونی تجارت میں بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں جن سے ہم محروم چلے آرہے ہیں۔
یہ معاہدہ تاریخ کے ان تمام معاہدوں سے مختلف ہے جو قوموں کی برادری میں کسی ایک گروپ کے اراکین کے مابین ہوا ہو اور دوسرا گروپ اس کا مخالف یا اس سے لاتعلق ہو۔قوموں کی برادری کے متحارب یا اختلافات رکھنے والے ملکوں کے مابین جو معاہدے قرار پائے وہ عمومی طور پر جنگوں کے نتائج کو تحفظ دینے کی خاطر اتفاق رائے سے کیے گئے تھے ‘جیسے جنگ عظیم دوم کے بعد ہونے والے معاہدے جو بڑی حد تک آج بھی زیر عمل ہیں ۔حالیہ جنیوا معاہدہ کسی عالمی جنگ کے نتیجے میں نہیں ہوا لیکن اسے عالمی برادری کے تمام متحرک فریقوں میں یکساں قبولیت حاصل ہے۔چین کی شمولیت نے اس معاہدے کی طاقت اور برقرار رہنے کی صلاحیت کافی بڑھا دی ہے۔اسے روس کی حمایت بھی حاصل ہے بھارت کے پاس بھی تائید کئے بغیر چارہ نہیں ۔اسرائیل اور سعودی عرب کی ناپسندیدگی اسے عالمی اتفاق رائے کے اعزاز سے محروم تو کرسکتی ہے لیکن اس کی افادیت اور مستقبل میں اس کی قوت نفاذ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔شرقِ اوسط کی سیاست میں شام کا بحران ایک تاریخ ساز تبدیلی کا ذریعہ بنا ۔سال رواں کے دوران وہ مرحلہ بھی آیا جب پورا شرق اوسط جنگ کی لپیٹ میں آتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور پھر شام ہی کے بحران نے اچانک تاریخ کو ایک نئے رُخ پر ڈال دیا‘ جس کے فوراً ہی بعد نیا جنیوا معاہدہ وجود میں آیا۔اس کا کریڈٹ روس کے صدر پوٹن کو حاصل ہے ۔انہوں نے شام پرحملے کے لیے تیاری کرکے بیٹھے ہوئے امریکہ کو مذاکرات کے تیز رفتار عمل میں شریک کرکے اپنی طرف سے کچھ ایسی یقین دہانیاں کرائیں کہ امریکہ نے شام پر بھرپورحملے کا ارادہ موقوف کرکے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔اس امریکی فیصلے پر سعودی عرب میں شدید ناراضی پیدا ہوئی اور اس نے سلامتی کونسل میں اپنی نشست سنبھالنے سے بھی انکار کردیا لیکن امن کی طرف کھلنے والے راستے پر سارے فریق گامزن رہے تو اس معاہدے کے نتیجے میں امن کے لیے جو سازگار حالات پیدا ہوں گے ابتدائی آزمائشوں کے بعد ان سے یقینی طور پر خود سعودی عرب اور اسرائیل بھی مستفید ہوں گے اور یہ خطّہ جس پر جنگ کے بادل پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، اب امن کی آغوش میں آسودگی کے خواب دیکھنے کے قابل ہو گیا ہے۔
ایران کو اس معاہدے سے کیا فائدہ ہو گا؟ اپنے فائدے کو ایرانی عوام سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ان کے رد عمل کی ایک جھلک میں آپ سامنے پیش کر چکا ہوں۔ اگر ایرانی عوام پر امید اور خوش ہیں تو یقینی طور پر یہ معاہدہ ان کے مفاد میں ہے اور اگر امریکہ ایران کی طرف سے کروائی گئی یقین دہانیوں پر مطمئن ہے تو اسرائیل کو بھی کوئی خطرہ نہیں، امریکہ ایسا کوئی معاہدہ کر ہی نہیں سکتا جس سے اسرائیل کو خطرہ لا حق ہو اور نہ ایران کوئی ایسا معاہدہ کر سکتا ہے، جس میں اس کے لیے خطرات مضمر ہوں، باقی جتنے بھی ملک اور لوگ اس معاہدے کے خلاف رد عمل ظاہر کریں گے، میرے نزدیک ان کی مخالفت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟ فنی طور پر ایران نے بم گریڈ یورینیم بنانے کی تیاریاں بند کر دی ہیں۔ ایران نے کبھی دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ایٹمی اسلحہ تیار کرے گا، اس کا پروگرام ایٹمی طاقت کے پُر امن استعمال کا تھا‘ یہ پروگرام وہ جاری رکھے گا اور دنیا کو جو یہ اندیشہ تھا کہ ایران ایٹمی طاقت بن سکتا ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ میرا خیال ہے ایران نے پاکستان سے بھی ضرور سبق حاصل کیا ہوگا، پابندیوں کے نتیجے میں اس کی معیشت جس رفتار سے بد حالی کی طرف گامزن تھی‘ اگر اس بد حالی میں کئی گنا اضافے کے بعد وہ ایٹم بم بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتا تو اس کا ایٹمی اسلحہ کس کام کا ہوتا؟ تاریخی شعور کے حوالے سے ایرانی قوم خطّے میں، بہترین صلاحیتوں کی مالک شمار ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ بھی اس کا ایک ثبوت ہے اور ہمارے لیے اچھے دنوں کے آغاز کی علامت۔