تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     27-11-2013

مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضدِّ ولایتِ فقیہ

امریکہ کو ''شیطان بزرگ‘‘ یعنی بہت بڑا شیطان کہنے والے ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ سید روح اللہ الموسوی الخمینی کے افکار ان کے اپنے دیس میں ایسے انجام کو جا پہنچے ہیں جس کا انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ اس انقلاب نے آغاز ہی میں پوری مسلم امّہ میں امید کی کرن پیدا کر دی تھی۔ وہ امت جو گزشتہ ایک صدی سے اس مایوسی کا شکار تھی کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب کی پشت پناہی سے جن حکمرانوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر ان پر مسلط کیا گیا تھا‘ انہیں عوامی طاقت سے نہیں اتارا جا سکتا۔ اگر کہیں ان حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہوا بھی تو کمیونسٹ روس کی آشیرباد سے فوجی بغاوتوں کے ذریعے ہوا۔ مصر، شام اور عراق اس کی مثالیں ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ان ملکوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے قدم جمانے شروع کر دیے۔ ایران کی سرزمین تو 1953ء میں اپنے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم مصدق کی حکومت فوج کے ذریعے ختم کیے جانے کا تماشہ دیکھ چکی تھی۔ اس فوجی بغاوت کی ساٹھویں سالگرہ پر سی آئی اے نے اپنے خفیہ رازوں پر مشتمل کاغذات شائع کیے‘ جن میں اس کی منصوبہ بندی کی تفصیل درج ہے۔ پہلی دفعہ سی آئی اے نے قبول کیا کہ اس نے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے ساتھ مل کر مصدق کی حکومت کا فوج کے ذریعے تختہ الٹا تھا۔ 1951ء میں برسراقتدار آنے والے مصدق کے خلاف پہلے عالمی اور ایرانی میڈیا میں نفرت انگیز مہم چلائی گئی، پھر فوج نے دونوں خفیہ ایجنسیوں کی مکمل نگرانی میں مصدق حکومت ختم کر دی اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے چوکیدار کی حیثیت سے شاہ ایران نے دوبارہ تخت سنبھال لیا۔ 19 اگست 1953ء کو ایران پر قابض ہونے والے شاہ کے بارے میں شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے ایک بھرپور عوامی انقلابی تحریک کے ذریعے تخت چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن 16جنوری 1979ء کو وہ کبھی نہ لوٹنے کے لیے تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے سے فرار ہو گیا۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بڑی خوش کن خبر تھی، انہیں حوصلہ ملا کہ امریکہ اور مغرب کے پٹھو حکمرانوں کو عوامی طاقت سے بھی اتارا جا سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد سے مسلم امّہ میں یہ مایوسی بھی پائی جاتی تھی کہ جدید دور میں اسلام کے قوانین نافذالعمل نہیں رہے‘ لیکن ایران کے انقلاب نے اس تاثر کا بھی خاتمہ کر دیا۔ ایک مایوسی یہ تھی کہ ہم پوری دنیا سے لڑائی مول لے کر زندہ نہیں رہ سکتے لیکن آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت نے اس تصور کو بھی باطل کر کے رکھ دیا۔
ایرانی قوم انقلاب کے دن سے آج تک تین نعرے بلند کرتی رہی: ''مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضدّ ولایت فقیہ‘‘۔ یہ تینوں نعرے لوگوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل سے دشمنی تو پوری امتِ مسلمہ میں مشترک ہے اور ولایت فقیہ ایرانی معاشرے میں ان کے مسلک کے مطابق اسلامی قوانین کے نفاذ کا نعرہ تھا جو شاہ ایران کے سیکولر اور مغرب زدہ معاشرے کی نفی کرتا تھا۔ تینوں نعرے بیک وقت بلند کیے جاتے تھے۔
اس انقلاب کی بنیاد میں ڈاکٹر علی شریعتی کا علمی کام اور علامہ اقبال کی انقلاب آفرین شاعری کا بہت دخل تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے پہلی دفعہ تشیُّعِ علوی اور تشیُّعِ صفوی کا تصور دیا۔ ان کے نزدیک تشیُّعِ علوی کا رنگ سرخ ہے اور یہ باطل کے خلاف جنگ اور انقلاب کا علمبردار ہے جبکہ تشیُّعِ صفوی کا رنگ سیاہ ہے اور اس میں گریہ کے سوا کچھ نہیں۔ شریعتی دو دفعہ قید کی صعوبتوں سے گزرے لیکن ان کی تحریروں نے ایران میں انقلاب کے سفر کی داغ بیل ڈال دی۔ علامہ اقبال کی شاعری انقلاب ایران کی روح و رواں تھی۔۔۔۔از خوابِ گِراں خیز (گہری نیند سے جاگو) اور ''می رسد مردیکہ زنجیرِ غلاماں بشکند (وہ شخص آ گیا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑ دے گا) ایران کی انقلابی تحریک کے نعروں میں شامل تھے۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے دس سالہ دورِ اقتدار میں ایران میں اسلام کے تمام قوانین بہت حد تک نافذ کر دیے گئے تھے، ان میں حجاب سے لے کر اسلامی تعزیرات تک سب کچھ شامل تھا۔ ایرانی انقلاب کا المیہ وہی ہوا جو مسلم امہ کا عالمگیر المیہ ہے۔ خمینی کے ولایتِ فقیہ کے تصور کو ایران کے مروّجہ مسلک تشیُّع کے علماء سے بھی اختلاف کا سامنا ہوا اور ایران سے باہر بھی اس تصور کو خود اس مسلک کے علما ہی ماننے سے گریزاں تھے۔ امریکی سفارت خانے کو یرغمال بنانے سے لے کر شاتم رسول سلمان رشدی ملعون کے قتل کے فتوے تک آیت اللہ روح اللہ خمینی کا کردار امریکہ مخالف کی حیثیت سے بہت جاندار تھا۔ دوسرا المیہ اس انقلاب کو دوسرے اسلامی ملکوں تک پھیلانے سے پیدا ہوا۔ فکری طور پر تو یہ بات درست تھی کہ مسلم امہ پر مسلط حکمران مغرب اور امریکہ کے کاسہ لیس ہیں لیکن چودہ سو سال پرانے مسلکی اختلاف اور ہزاروں سال پرانے عرب اور عجم کے جھگڑے نے اس کوشش کے ردّعمل میں پھر سے سر اٹھا لیا۔ گرد آلود کتابیں پرانے کتب خانوں سے باہر آئیں اور اس اختلاف نے ایک خونی تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ کئی محاذوں پر لڑی جانے والی اس لڑائی کا نشانہ ایرانی انقلاب تھا۔ عرب اور عجم کی چپقلش نے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کی شکل اختیار کر لی جبکہ دوسرے مسلمان ممالک میں شیعہ سنی فسادات خاص مقصد کے لیے ابھارے گئے۔ اب انقلاب اپنے سفر کی رجعت اور پسپائی کا شکار ہونے لگا۔ سیاسی، فوجی اور مسلکی مفادات نے انقلاب کی روح کو زخمی کر دیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی کتب ایران کی سرزمین سے ناپید کر دی گئیں۔ خود بانیِ انقلاب آیت اللہ روح اللہ خمینی کی چند کتابیں بھی ایران میں منظر عام پر نظر نہ آتی تھیں۔ جس انقلاب کو ایرانی کبھی مغربی استعمار اور''شیطان بزرگ‘‘ امریکہ کے مقابلے میں پوری امت مسلمہ کا نمائندہ سمجھتے تھے، مسلک کی بھول بھلیوں میں قید ہوتا چلا گیا، تمام فیصلے اور تمام عالمی رابطے وہیں تک محدود ہو گئے۔ افغانستان میں طالبان بر سرِ اقتدار آئے تو ان کے مقابلے میں پانچ فیصد علاقے پر قابض شمالی اتحاد اور ان کے ساتھی حزبِ وحدت کے افراد ایران کی مالی، سیاسی یہاں تک کہ افرادی مدد تک حاصل کرتے رہے۔ وہ ایران جو کبھی روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے لیے چشم براہ رہتا تھا اور حکمت یار سے لے کر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود تک ایرانی سرزمین سے تعلق استوار کیے ہوئے تھا، اب طالبان کی حکومت مسلکی اختلاف کی بنیاد پر ان کے لیے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے صدارتی امیدوار اور پاسداران کے کمانڈر محسن رضائی نے یو ایس ٹوڈے کو 6 ستمبر 2005ء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تاجک، ازبک اور ہزارہ اقلیتوں کے شانہ بشانہ افغانستان میں لڑتے رہے ہیں اور امریکی افواج ہماری اس مدد کے بغیر افغانستان میں داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ محسن رضائی نے اس انٹرویو میں امریکہ کو ایک بے وفا عالمی طاقت کہا جو کسی کے احسان کا بدلہ نہیں دینا جانتی۔ اس کا نمونہ یہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں آنے کے بعد جہاں پاکستان کی سرزمین کے اس کے خلاف استعمال ہونے کے الزام لگتے رہے وہیں افغانستان میں امریکی سفیر ولیم وڈ نے 2007ء میں ایران پر افغانستان کے باغیوں کو ٹریننگ دینے کا کھلم کھلا الزام لگایا۔ عراق میں امریکیوں کی فتح، صدام کا خاتمہ سیاسی، علاقائی اور مسلکی مصلحتوں کی اسیری کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔ دوسری جانب امریکہ نے ایران کو برائی کا مرکز ''Axis of evil‘‘ قرار دے رکھا تھا اور ایران کے اسی خوف کو ہتھیار بنا کر مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کو ساٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ ادھر عرب کے شہزادگان اور مغرب کی پشت پناہی سے اقتدار پر قابض حکمران اس علاقائی، سیاسی اور مسلکی محاذ پر ایران کے مقابل آ کھڑے ہوئے اور ایسی تمام قوتوں پر سرمائے کی بارش کر دی جو ان محاذوں پر ایران کے مخالف تھے۔ لیکن اب وقت کی گردش نے اپنی واپسی کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے زمانے میں ایران امریکہ کا چوکیدار تھا۔ امریکہ کے تنہا سپر پاور ہونے کے تصور کو روس نے چند ماہ قبل شام میں چکنا چُور کر دیا۔ اب دنیا ایک بار پھر دو طاقتوں کے تصادم کی زد میں ہے۔ اب نئی صف بندی کا آغا ز ہو گیا ہے اور اس کا پہلا قدم ایران امریکہ معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر ہر سیکولر اور لبرل شخص کی خوشی دیدنی ہے لیکن میں اس ایرانی قوم کا سوچ رہا ہوں جو تینتیس برسوں سے مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضد ولایتِ فقیہ کے نعرے لگاتی رہی ہے۔ ان سے پہلا نعرہ چھین لیا گیا ہے، ایران نے شیطانِ بزرگ سے دوستی کر لی۔ اس دوستی کے بعد اسرائیل کے خلاف نعرہ بے معنی سا ہو جائے گا۔ لیکن نعروں کا اصل مقصد ولایت فقیہ تھا یعنی ایک اسلامی معاشرے کا قیام۔ پوری مغربی دنیا اور سیکولر لبرل طاقتیں اس کے خاتمے کے انتظار میں ہوں گی۔ بنیاد تو ایران نے خود ہی ہلا دی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved