لاہور کے شادمان چوک کو جب بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کی پنجاب حکومت کی تیاریاں جاری تھیں تو اس وقت پنجاب اسمبلی نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا لیکن جب بھگت کے مقابلے میں اسی پنجاب اسمبلی میں ایک ایسے شخص‘ جس نے پنجاب کے شہر لاہور میں مشہور اور تاریخی درس گاہ گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی ،اورینٹل کالج قائم کیا اور پھر دنیا کی چند مانی ہوئی جامعات میں شمار کی جانے والی پنجاب یونیورسٹی قائم کرنے کی سعادت حاصل کی‘ کے انتقال کے کئی سال بعد جب لاہور کی کچہری روڈ کا نام تبدیل کرتے ہوئے اس کے نام Dr Gottlieb Wilhelm Leitnerسے منسوب کرنے کی قرارداد پیش کی گئی تو اسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
مجھے پنجاب اسمبلی کے ان ممبران کے فیصلے پر تعجب اور دکھ تو بہت ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ گھر بیٹھے جعلی تعلیمی سرٹیفکیٹ بنوانے والے ان اراکین اسمبلی کو کیا پتہ کہ تعلیم کیا ہوتی ہے‘ کالج کیا ہوتے ہیں‘ یونیورسٹیوں کا درجہ اور مقام کیا ہوتا ہے اور ان میں کس طرح پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے!پنجاب اسمبلی کے ان حکومتی ارکان کو تعلیمی کارنامے انجام دینے والوں سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے جواپنے اپنے علا قوں میں قائم تعلیمی اداروں کو اپنے ڈیروں اور سٹوروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘ جبکہ وہاں بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ان کی سفارش پر تعینات کیے گئے ''استاد‘‘ ان کی بھینسوں کیلئے چارہ کاٹنے کے گراں قدر فرائض
انجام دیتے ہیں۔ بہرحال یہ افسوس ضرور ہوا کہ سوائے چند ایک اپوزیشن ارکان کے 375 سے زائد ارکان پر مشتمل پوری پنجاب اسمبلی نے وزیر قانون کے آگے اپنی آنکھیں جھکائے رکھنا افضل سمجھا۔ کل تک امریکہ کو کوشش کرنے کے لیے ان لوگوں نے میڈیا کے ذریعے ملالہ کی '' تعلیمی خدمات‘‘ کی تعریفوں کے پل باندھے‘ تعلیم کے لیے اس کی گراں قدرخدمات کے حوالے سے سیمینار کرائے اور آسمان سر پر اٹھالیا لیکن ابتدائی تعلیم کی سب سے اعلیٰ درسگاہ ''سنٹرل ماڈل سکول‘‘ بنانے والے ڈاکٹرگوٹلیب کے نام سے لاہور کی ایک سڑک کو منسوب کرنے کے لیے ایک ہلکی سی آواز بھی ان کی طرف سے سنائی نہیں دی۔ حالانکہ اگر سنٹرل ماڈل سکول سے لے کر اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج اور پھرپنجاب یونیورسٹی سے اب تک تعلیم کی دولت سے فیض یاب ہونے والے پاکستانیوں کا حساب لگایا جائے یا ان درسگاہوں سے نکل کر پاکستان کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دینے والوں کی فہرست بنانے کی کوشش کی جائے تو کئی دن نہیں‘ کئی مہینے لگ جائیںگے کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ امریکہ اور پورا یورپی بلاک تعلیم کیلئے آواز بلند کرنے والی ملالہ یوسف زئی کو نوبل امن ایوارڈ کیلئے نامزد کر رہا تھا اور وہ شخص جس نے پنجاب کو بہترین درسگاہیں بنا کر دیں‘ ایک عام سی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کرنے پر پنجاب اسمبلی کو اس لیے اعتراض ہے کہ ان کا نام غیر اسلامی ہے۔ جب
بھگت سنگھ کے نام سے شادمان چوک کو منسوب کیا جا رہا تھا تو اس وقت پنجاب اسمبلی کو غیر اسلامی نام نظر کیوں نہیں آیا تھا؟
لاہور ہی میں شاہراہ قائد اعظم پر واقع پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے با ہر ڈاکٹر الفریڈ وولنر کا مجسمہ ایستادہ ہے۔ ایوب خان سے لے کر بھٹو کی حکومت تک ،جب بھی مال روڈ پر مظاہرے ہوتے تھے‘ اکثر لوگ ڈاکٹر الفریڈ کے مجسمے پر پتھر اور جوتے مارنا عین سعادت سمجھتے تھے۔ اس وقت ان سب کی عقل پر حیرت اور افسوس ہوتا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے اس سابقہ وائس چانسلر کی طرف سے انہیں کیا تکلیف پہنچی؟ مجھے یاد ہے کہ لال کشن ایڈوانی اور نریندر مودی کی قیا دت میں بابری مسجد کی انتہا پسند ہندوئوں کے
ہاتھوں شہا دت پر رد عمل کے طور پر پاکستان بھر میں لوگ جب غصے سے بے قابو ہو گئے تو ہوش و حواس سے بیگانہ لڑکوں کے ایک ہجوم نے ا س مجسمے پر بھی جوتوں کی بارش کر دی تھی اور پھر اسی شام ایک اور مشتعل طوفان نے راوی روڈ لاہورکے کریم پارک میں ایک ایسے انسان کی یادگار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا جنہیں ''سر گنگا رام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور میرا یقین ہے کہ راوی روڈ کریم پارک میں سر گنگا رام کی سمادھی کو تباہ کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اسی سر گنگا رام کے بنائے ہوئے خیراتی ہسپتال گنگا رام کے گائنی وارڈ میں جنم لیا ہو گا۔ لاہور کریم پارک میں سر گنگا رام کی سما دھی گرانے والے اس حقیقت سے بھی بے خبر ہوں گے کہ ایم اے او کالج کے سامنے لاہور لیڈی میکلیگن سکول ( اب کالج)، لاہور کا معاشیات کا سب سے پرانا ہیلی کالج آف کامرس صرف اس وجہ سے بن سکے تھے کہ سر گنگا رام نے یہاں موجود نابھہ ہائوس کے نام سے اپنی وسیع و عریض رہائش گاہ ہیلی کالج کی تعمیر کے لیے وقف کر دی تھی اور ہوسکتا ہے کہ گنگا رام کی سما دھی کو گرانے والوں میں سے بہت سوں کے والدین نے اسی کالج میں تعلیم حاصل کی ہو۔ ان میں سے اکثر کی مائوں اور بہنوں نے اسی میکلیگن سکول اور کالج سے اپنی تعلیمی استعداد بڑھائی ہو؟ اور ہو سکتا ہے کہ گنگا رام کی بے حرمتی کرنے والے اس حقیقت سے بھی بے خبر ہوں کہ جیل روڈ لاہور پر خواتین کا سب سے بڑا کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے وہ بھی سر گنگا رام کے ذاتی سرمایہ کا مرہون منت ہے۔
لاہور کے مشہور تعلیمی ادارے اور ہسپتال کی تعمیر کے اعتراف میں گنگا رام کا مجسمہ لاہور ٹائون ہال کے باہر مال روڈ پر نصب تھا۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب ہر طرف خون آشام ہنگامے شروع ہو گئے تو ایک دن کسی مشتعل ہجوم نے اس مجسمہ پر بھی حملہ کر دیا۔ کوئی اس پر پتھر برسا رہا تھا تو کوئی جوتے مار رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کوئی تارکول کا ایک بڑا سا ڈبہ لے آیا‘ بس پھر کیا تھا ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر تارکول سے گنگا رام کے مجسمے کا منہ کالا کرنا شروع کر دیا۔ ڈیوٹی پر متعین مجسٹریٹ نے بار بار ہجوم کو منتشر ہونے کے لیے وارننگ دی لیکن ہجوم کی طرف سے پر تشدد ہنگامہ آرائی بڑھتی ہی جا رہی تھی اور ہر طرف سے گنگا رام کے مجسمہ پر پتھر برسائے جا رہے تھے۔ اسی دوران ایک شخص پرانے جوتوں کا ہار گنگا رام کے مجسمے کے گلے میں ڈال ہی رہا تھا کہ تارکول کی وجہ سے مجسمے پر کسی طرف سے پھینکا گیا ایک پتھر اچھل کراس شخص کے سر پر جا لگا۔ ایک چیخ مار کر وہ نیچے گر گیا اور اس کے سر سے خون کی تیز دھار بہنی شروع ہو گئی۔ زخموں سے زمین پر تڑپتے اور زور زور سے چیختے ہوئے اس شخص کی طرف جونہی ہاتھوں میں پتھر اٹھائے مشتعل ہجوم کی نظر پڑی تو سب نے بیک آواز چیختے ہوئے کہا ''جلدی کرو‘ اسے گنگا رام لے چلو‘‘...!