تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     28-11-2013

دوا اور غذا سب کچھ پہنچ سے باہر!

بازاروں سے ٹماٹر‘آلو‘ پیاز غائب ہیں تو دوا فروش کی دکانوں سے دوائیں نا پید۔ جو کچھ دستیاب ہے وہ اتنا مہنگا کہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ غریب شہری تو مہنگائی کے ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے جہاں اُسے موت سستی اور زیست مہنگی دکھائی دیتی ہے۔
غربت اور معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں خودکشی کرنے والوں کی ایک کالمی خبریں اب کسی دِل کو نہیں جھنجھوڑتیں‘ کسی ضمیر کو نہیں جگاتیں۔ شاید اسے بھی کرپشن کے ناسور کی طرح پاکستانی کلچر کا حصّہ سمجھ لیا گیا ہے‘ایسی خبریں کسی کالم کا موضوع نہیںبنتیں، کسی ٹاک شو میں گفتگو کو نہیں گرماتیں۔ مہنگائی کو کھلی چھوٹ ہے‘غذا سے دوا تک‘ سب کچھ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان دنیا کا واحد زرعی ملک ہے جہاں چھیالیس فیصد لوگ غذائی کمی کا شکار ہیں۔(ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ) غذائی کمی جسم میں کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ اور بیمار ہونا تو اس ملک میں صرف خوشحال لوگ ہی افورڈ کر سکتے ہیں۔دو دن پہلے‘ایک ہی اخبار میں تین خبریںپڑھنے کو ملیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ‘دِل کی بیماری کا شکار ہوئے‘ ملک کے اعلیٰ ترین ہسپتالوں میں علاج ہوا اور چند دنوں میں صحت یاب ہو کر واپس اپنی مصروفیات کی طرف لوٹ آئے۔ یہ تینوں خبریں
ایک ہی ساتھ پڑھتے مجھے سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتے غریب مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں یاد آ گئیں۔ جہاں مریض ڈاکٹروں کی عدم توجہ سے لے کر دوائوں کی عدم دستیابی تک سب سہتے ہیں اور کبھی یہ بھی ستم ظریفی اُن کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے کہ سرکار کی جانب سے ملنے والی دوائیں زندگی کی بجائے ان کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتی ہیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سانحہ ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا جب مفت دوائوں کے کائونٹر سے ملنے والی ایک گولی نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنی قیمتی جانوں کو نگل لیا۔ جن مسیحائوں نے اُس گولی کو تجویز کیا۔ جن ذمّہ داران نے موت بانٹنے والی متنازعہ گولی کو فارمیسی کے شیلف تک پہنچایا وہ آج بھی اپنے ''فرائض‘‘ سرانجام دے رہے ہوں گے۔
یہ تو صوبائی دارالحکومت کے ایک بڑے اور اہم ہسپتال کی رُوداد ہے‘ چھوٹے شہروں ‘قصبوں اور دیہات میں پریکٹس کرتے عطائی اور پرچون کی دکانوں پر فروخت ہوتی جعلی دوائوںکو پکڑنے یا ملزموں کو سزا دینے کا کسی کو خیال نہیں آیا،ایسے علاقوں میں کیا وزارت صحت کی کوئی ذمّہ داریاں نہیں ہے جہاں لوگ‘عطائیوں کے ہاتھوں لٹتے‘کشتے اور جعلی دوائیں پھانکتے موت کے منہ میں اتر جاتے ہیں۔ سرتاج عزیز بیمار ہوتے ہیں تو اُن کا علاج پمز کے چیف ایگزیکٹو کرتے ہیں۔ عام آدمی کو دِل کے فوری آپریشن کے لئے بھی‘دودوسال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب اُس کی قسمت کہ زندگی ہو تو آپریشن بھی ہو جاتا ہے ورنہ انتظار کرتے کرتے زندگی ختم ہو جاتی ہے۔گزشتہ دنوں خبر آئی کہ وزارت صحت نے دوائوں میں 18فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں اضافہ18فیصد،جبکہ پنجاب میں دوائوں کی قیمتوں میں 15فیصد اضافہ ہو گا۔
پہلے سے مہنگی دوائوں میں مزید اضافہ سمجھ سے باہر ہے‘ جبکہ سپریم کورٹ بھی اس معاملے پر تقریباً بائیس بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو نوٹس بھجوا چکی جو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی مقرر کردہ قیمتوں سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر ادویات فروخت کر رہے ہیں، پاکستان میں دوائیں بنانے والی کمپنیاں بھی ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ مقرر کردہ سرکاری نرخوں کونظر انداز کر کے من مانی رقم وصول کرتی ہیں۔ اور کچھ نہیں تو دوائوں کی مصنوعی قلت پیدا کر کے بلیک میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق اِن دِنوں کینسر کی دوائوں کی شدید قلت ہے ۔ کینسر کا مریض پہلے ہی بیماری کا عذاب جھیل رہا ہوتا ہے۔ ایسے مریضوں کے لئے ضروری دوائوں کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ان کے لئے زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے۔
یہ بھی فارما سیوٹیکل مافیا کا کمال ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لئے ضروری انجکشن سستے تیار ہونے کے باوجود باہر سے امپورٹ کیے جاتے ہیں اور انہیں کئی سو گنا مہنگی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ چند سال پہلے میں نے ڈاکٹر شیخ ریاض الدین کا تفصیلی انٹرویو کرنے کے لئے سنٹر آف ایکسی لینس اِن مالیکولر بائیو لوجی (LEMB) کا وزٹ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تفصیلی نشست رہی۔ پاکستان میں تیار کئے جانے والے انٹر فرون (interferon)انجکشن کے خالق یہی ڈاکٹر شیخ ریاض الدین ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پاکستان کا فارما سیوٹیکل مافیا‘پاکستان کے بنے ہوئے کم قیمت انٹرفرون مارکیٹ میں نہیں آنے دے رہا۔ اس وقت ایک امپورٹڈ انجکشن کی قیمت 900روپے سے شروع ہوتی ہے جبکہ پاکستانی میڈ انٹرفرون صرف 50روپے میں مریض کو مل سکے گا۔ اندازہ لگائیے کہ جس ملک میں لاکھوں مریض ہیپاٹائٹس کے ہوں‘ اُن کی سہولت کے لیے دوا بھی پاکستان میں بن چکی ہو مگر ہوس زدہ افراد دولت کمانے کے چکر میں اس دوا کو مارکیٹ میں نہیں آنے دیتے اور حکومت پاکستان کی وزارت صحت اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ اُس کا حال اس شعر جیسا ہے ؎
شریک جُرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ڈاکٹر شیخ ریاض الدین سے یہ ملاقات شاید 2009ء میں ہوئی تھی۔ وہ اس پر بہت دِل گرفتہ تھے کہ ہمارے بنائے گئے انجکشن فریزر میں رکھے رکھے اپنی میعاد پوری کر کے ضائع ہو جائیں گے لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو گی۔ اس ملک میں بیماری امراء کے لئے لگژری ہے‘ اور عوام کے لئے تہہ در تہہ مسائل اور عذاب۔!بیماریوں کی تو بات چھوڑیئے۔ یہاں تو تندرستوں کے لئے زندگی مہنگی اور موت سستی ہے۔ کہیں آلو ٹماٹر کی قیمتیں جیب کو شرمندہ کرتی ہیں تو کبھی بجلی کے بل ہوش اڑاتے ہیں۔ آلو ٹماٹر سے انٹرفرون تک سب مہنگا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved