تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات محترمہ شیریں مزاری نے خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے تھانہ ٹل میں ایف آئی آر درج کرائی ہے‘ جس میں ایس ایچ او سے کہا گیا ہے کہ وہ حالیہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے قتل کے الزام میں سی آئی اے کے اس افسر کو گرفتار کرے‘ جو اسلام آباد میں مقیم ہے اور پھر تفتیش کے دوران اس سے ڈرونز کو اڑانے اور ریموٹ کنٹرول کرنے والے پائلٹوں کے نام پوچھے۔یورپ اور امریکہ کے میڈیامیں اس حیرت انگیز ایف آئی آر کی خبریں جلی سرخیوں کے ساتھ نمایاں انداز میں شائع کی گئی ہیں اور اکثر نامہ نگاروں نے خبریں لکھتے وقت کچھ شوخیاں بھی کی ہیں۔ جن کا اندازہ آپ کو اگلی سطور میں ایف آئی آر کے نتائج پر تبصروں سے ہو جائے گا۔پہلے تو میں آپ کو اپنی حیرت میں شریک کرنا چاہوں گا۔ محترمہ شیریں مزاری نے ایف آئی آر میں ایس ایچ او سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو گرفتار کر کے‘ تفتیش میں ان پائلٹوں کے نام معلوم کرے‘ جو ڈرونز اڑاتے ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کے سربراہ عمران خان‘ اور ہی طرح کی کارروائی کا پروگرام بتا رہے تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ پاکستان کی وزارت خارجہ کو لکھیں گے کہ اس ایف آئی آر کی روشنی میں نامزد کردہ یعنی سی آئی اے کے سٹیشن چیف کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ خان صاحب کے پروگرام میں ایس ایچ او کے لئے کوئی کردار نہیں رکھا گیا۔ جبکہ محترمہ شیریں مزاری کی درج شدہ ایف آئی آر میںملزم کو پکڑنے اور تفتیش کرنے کی ذمہ داری ایس ایچ او کے سپرد کی گئی ہے۔
اگر خان صاحب کے پروگرام کو دیکھا جائے‘ تو ایف آئی آر کی بنیاد پر وزارت خارجہ کو خط لکھنے کے بعد پارٹی کا کام مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ حکومت کا دردسر ہو گا کہ وہ کیا کارروائی کرتی ہے؟ وضاحت کے لئے عرض ہے کہ امریکی سفارت خانوں میں سی آئی اے کا سٹیشن چیف‘ سفارتی عملے کا حصہ نہیں ہوتا۔ اسے سفارتی مراعات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ اس کی شناخت خفیہ رکھی جاتی ہے اور وہ میزبان ملک کی پرائم سکیورٹی ایجنسی کے ان اعلیٰ افسروں کو اپنی شناخت کراتا ہے‘ جن سے پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت اسے رابطوں میں رہنا پڑتا ہے۔ پولیس اسے گرفتار کر سکتی ہے اور ہم ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کرنے کا تجربہ بھی کر چکے ہیں۔ اس نے بھرے بازار میں دو پاکستانیوں کو ہلاک کیا تھا۔ گرفتاری ‘قتل کے جرم میں ہوئی تھی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ پاکستانی عوام کے حافظوں میں اچھی طرح محفوظ ہے۔ ہمارے ہاں قتل کے مقدمے میں شرعی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ اگر ایس ایچ او مقامی سطح پر کارروائی کرے گا تو عدالت کے باہر آواز لگے گی‘ ایس ایچ او بنام کریگ اوستھ و اوباما وغیرہ۔ اگر محترمہ شیریں مزاری کے مطالبے کے تحت‘ ٹل کا ایس ایچ او اسلام آباد جا کر‘ سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو گرفتار کر لیتا ہے تو امریکہ غربت کا مارا ہوا ملک تو ہے نہیں۔ وہ فوری طور سے دیت کی پیش کش کر دے گا۔ رضامندی کے لئے ہلاک شدگان کے ورثاء کے ساتھ بات چیت کرنا پڑے گی۔ انہیں ہم کہاں سے لائیں گے؟ کیونکہ خبروں کے مطابق مذکورہ حملے میں جتنے بھی بچے اور بڑے ہلاک ہوئے تھے‘ اس سب کی میتیں افغانستان لے جا کر دفن کر دی گئی ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ ان میں سے ایک بھی پاکستانی شہری نہیں تھا۔ وہ سب کے سب افعان تھے اور ان کے ورثاء انہیں اپنی سرزمین پر لے جا کر دفنا چکے ہیں۔ یہاں پر امریکی سوال کریں گے کہ آپ مدعی کیسے بن گئے؟ وہ افغانستان کے شہری تھے اور ایس ایچ او صاحب نے یہ تصدیق کئے بغیر کہ ہلاک شدگان کون تھے؟ سی آئی اے کے ملازم کو گرفتار کیسے کر لیا؟اگر امریکہ نے اپنے شہری کی ناجائز گرفتاری اور حراست پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا‘ تو ایس ایچ او ہرجانے کی رقم ڈالروں میں کیسے بھرے گا؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ کام ایس ایچ او کے بس کا نہیں۔ محترمہ شیریں مزاری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری ہولڈر خاتون ہیں‘ ان کا خصوصی شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور سٹریٹجک موضوعات ہیں۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ غیرملکی شہری خواہ انہیں سفارتی مراعات حاصل ہوں یا نہ ہوں‘ ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے ان کے اپنے ملک کی حکومت پیروی کا حق ضرور رکھتی ہے۔ امریکہ جب اپنے کسی گرفتار شدہ شہری کی پیروی کرے گا‘ توہمارا ایس ایچ او ‘ سپرپاور کو شکست دے کر ملزم کو سزا کیسے دلوائے گا؟ یہ سب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کے مطابق لگا سکتا ہے۔ جیسے ان دنوں یہ مطالبہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ''ڈرون گرا دو۔‘‘ مگر جب یہ نعرہ لگانے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ تو وہ ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
عمران خان صاحب نے خود بھی اس موضوع پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔ انہوں نے ڈرون گرانے کی بات نہیں کی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ'' اگر آپ وزیراعظم ہوں اور آپ کی حکومت اسی طرح کے مسئلے سے دوچار ہو جائے‘ تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ خان صاحب نے فرمایا ''میں امریکیوں کو سمجھائوں گا۔ انہیں قائل کروں گا کہ ڈرون حملوں کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کروں گا۔‘‘ سوال ہوا کہ'' اگر امریکی پھر بھی نہ مانے تو؟‘‘ اس کے جواب میں خان صاحب نے بتایا ''ہم سکیورٹی کونسل میں جائیں گے۔‘‘ دریافت کیا گیا کہ ''وہاں آپ کیا کریں گے؟‘‘ خان صاحب کا جواب تھا ''مجھے یقین ہے کہ سکیورٹی کونسل ڈرون حملوں کو غیرقانونی قرار دے کر ہمیں اجازت دے دے گی کہ ہم انہیں مار گرائیں۔‘‘ اس کے بعد خان صاحب نے جو گفتگو
کی اس میں انہوں نے جو کچھ کہا اس کامطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ وہ ایسے حالات ختم کردیں گے‘ جن میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ مذاکرات کر کے دہشت گردوں کو قائل کریں گے۔ عوام کے حالات بہتر بنائیں گے۔ غرض تیسری دنیا کے سیاستدان‘ عوام کے لئے جو کچھ کرنے کی امیدیں دلاتے ہیں‘ خان صاحب نے بھی اسی طرح کا ایک پروگرام پیش کر دیا۔ مگر اس طرف وہ نہیں آئے کہ ان غیرملکی دہشت گردوں کا وہ کیا کریں گے‘ جو ہماری سرزمین پر پناہ گاہیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس پر کسی کو شک نہیں کہ ڈرونز کا استعمال انتہائی ظالمانہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مگر امریکہ کہتا ہے کہ القاعدہ کے جو دہشت گرد دوسرے ملکوں میںقتل و غارت گری اور تباہ کاریوں کے منصوبے بنا کر ان پر عمل کرتے ہیں‘ وہ کون سی قانون پسندی ہے؟ ہمارے بے گناہ شہریوں کو ہمارے ملکوں میں آ کر ہلاک کرنے والوں سے ہم کس طرح حساب لیں؟ آپ ڈرونز کے استعمال کو تو اپنی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔ لیکن جو دہشت گرد بغیرپاسپورٹ کے آپ کی سرزمین پر مسلح کمین گاہیں بناتے اور آپ کی سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں‘ کیا یہ آپ کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہیں؟مسئلہ یہی ہے کہ آپ اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اپنی سرحدوں سے باہر کر دیں۔ ہم ڈرون حملے بند کر دیں گے۔ یہ ذمہ داری اٹھانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ عالمی برادری‘ ہمارے لئے امتیازی قوانین تو نہیں بنا سکتی۔ ہر ملک یا اس کا شہری جب بھی قوانین او ر ملکوں کی برادری میں رائج الوقت روایات کی خلاف ورزی کرے گا‘ تو اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ ہم سلامتی کونسل میں چلے بھی گئے‘ تو وہاں صرف ہمارا نمائندہ ہی تقریر نہیں کرے گا۔ دوسروں کے نمائندے بھی اپنا اپنا موقف پیش کریں گے۔ کیا آپ جانتے ہیںکہ چین کا نمائندہ وہاں کیا کہے گا؟ برطانوی کیا کہیں گے؟ امریکی کیا کہیں گے؟ بھارت کیا کہے گا؟ جرمنی‘ سپین‘ روس اور دیگر ممالک جہاں جہاں دہشت گردی کرنے والے شمالی وزیرستان سے تربیت حاصل کر کے گئے ہیں اور وہاں کارروائیاں کر رہے ہیں‘ وہ سارے ملک ایک ہی بات کہیں گے کہ پاکستان سے تربیت حاصل کر کے آنے والے جنگجو‘ ہمارے شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں تباہی پھیلاتے ہیں۔ ہماری تنصیبات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جواب میں ہمارے نمائندے کے پاس کہنے کو کیا ہو گا؟ ہمارے پاس یہ وعدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ ''ہم اپنی سرزمین پر دوسرے ملکوں کے اندر جا کر تباہی پھیلانے والوں کو رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ‘‘ اگر سلامتی کونسل میں جا کر بھی یہی وعدہ کرنا ہے‘ توپھر وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے ہی اپنے ملک سے بیرونی ملکوں میں دہشت گردی کرنے والوں کو نکال باہر کریں‘ اس کے بعد سلامتی کونسل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ڈرونز اور عالمی دہشت گرد‘ لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں دہشت گرد ہوں گے‘ وہاں ڈرون ضرور آئیں گے۔ بحث آگے چلائی تو ''پہلے مرغی یا انڈہ؟‘‘ والا معاملہ شروع ہو جائے گا۔