تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-11-2013

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نشوونما کے لیے ، ادبار سے نجات پانے کے لیے ملکوں اور معاشروں کو ایک آہنگ درکار ہوتاہے ؎ 
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی 
ہم، جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں 
ماحول کے اعتبار سے اسلام آباد کی سب سے اچھی آبادی شاید وہ ہے ، جسے ڈیفنس 2کہا جاتاہے ۔ ایک بار ہم پلاٹ کی تلاش میں نکلے تو عزیزم بلال الرشید سے میں نے کہا: چمک دمک پر نہ جائو۔ یہ جو سبکدوش افسر ہیں ، ان میں سے اکثر درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریفریجریٹر میں ایک آدھ کیک، پانچ سات شامی کباب ، میزبانی اور گفتگو کا سلیقہ ۔ یہ ان کی تربیت کا حصہ ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ حیات زیادہ شائستہ ہونے لگتی ہے ۔ 
بریگیڈئیر عارف صدیقی ان لوگوں میں سے ایک ہیں ۔ روایتی فوجی افسروں سے قدرے مختلف۔ زیادہ بے باک بلکہ بڑبولے۔ مطالعے سے مشاہدہ زیادہ ، ریا سے پاک۔ اپنے ذہن سے سوچتے ہیں اور شخصیت میں ایک آہنگ ، جو دکھاوے سے پاک لوگوں کو عطا کیاجاتاہے ۔ منگل کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر ہو چکا تو ان سے بات کی کہ مدت سے انہیں جانتے ہیں ۔ دوسرے نکات کے علاوہ ایک منفرد جملہ انہوںنے کہا ''صاحبِ اختیار کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے‘‘ 
ملک بھر میں جنرل راحیل شریف کا بہت خوش دلی سے خیر مقدم کیا گیا ۔ خراب حالات میں ایک اچھی خبر۔ فقط یہ نہیں کہ ان کا تعلق شہدا کے اس خاندان سے ہے ، پوری قوم کو جس پر فخر ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ موصوف کے بارے میں کوئی بری بات کبھی نہ سنی گئی۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری تمام حماقتوں کے باوجود اللہ اس ملک پر مہربان ہے ۔ یہی کیا کم ہے کہ ایک غیر متنازعہ شخصیت اس منصب پر براجمان ہوئی ہے ، جس کے حوالے سے اندیشے رہا کرتے ہیں۔ زیادہ صحیح الفاظ میں سول ملٹری تعلقات کے باب میں ۔ 
لاہور سے تعلق، کشمیری خاندان کے فرزند ، ذاتی مراسم۔ وزیراعظم کو وہ سازگار ہیں مگر ملک اور قوم کو بھی ۔ ٹیلی ویژن پر ان حوالوں کا ذکر کیا تو بعض بگڑے ۔ عرض یہ کیا کہ تجزیہ کرتے ہوئے سب جہات کو ملحوظ رکھنا ہوتاہے ۔ پھر بریگیڈئیر صدیقی کا وہ جملہ دُہرایا جو کبھی جنرل کیانی کے ہم نفس تھے اور اب ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ وضع دار، خوش اطوار اور آزاد منش۔ 
اس نکتے کی وضاحت کے لیے کہ نامزد سپہ سالار میں حقیقی انکسار پایا جاتاہے ، ایک واقعہ انہوںنے سنایا۔ کہا : چند ماہ قبل ایک تقریب میں اپنے ہاتھوں سے ایک یادگاری شیلڈ انہیں دی تو ازراہِ اکرام یہ کہا ''یہ دن بھی آنا تھا‘‘ 
اچھا دن طلوع ہوا ہے ، بہت اچھا۔ ایک بات پہ مگر دل آزردہ رہا۔ بعض مبصرین نے شریف خاندان سے ان کے مراسم کو اچھالنے کی کوشش کی ۔ ایک ہی شہر کے مکین ہیں ، ایک ہی برادری کے ۔ رہ و رسم چنانچہ فطری ہے ۔ بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیاجائے۔ 
نئے سپہ سالار کے بارے میں آخری فیصلہ ان کے دفترِ عمل پہ ہوگا۔ خوش بختی یہ ہے کہ نیک امید ان سے وابستہ کی جا سکتی ہے ۔ وزیر اعظم اور سپہ سالار کے مراسم اگر خوشگوار رہیں تو ایک بڑی فکر مندی سے نجات رہے گی ۔ افسوس اس پر بھی ہوا کہ جنرل کیانی کو میڈیا نے اس طرح الوداع نہ کہا ، جس طرح کہنا چاہیے تھا۔ بدترین حالات میں، اس آدمی نے کمال خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ادا کیے ۔ کیا وہ زیادہ خوش دلانہ خراجِ تحسین کا حق دار نہ تھا۔ ملال ہوا کہ نون لیگ کے وابستگان سب سے زیادہ کیڑے ڈالتے رہے ۔ دانشوری کیا عیب جوئی کا نام ہے ؟ اظہارِ ذات کے لیے منفی اندازِ فکر کیا ضروری ہے ؟ جنرل مشرف کے منظورِ نظر ،ان کے دستر خوان سے ریزہ چینی کرنے والے جنرل کو این آر او کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ۔دوسری طرف بے نظیر بھٹو شہید ہیں، امریکہ، برطانیہ اور آصف علی زرداری معصوم! ایک معتبر صحافی نے کمال ہی کر دیا۔ سلالہ، جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے جنرل کیانی کو ملامت کا مستحق سمجھا۔ 
کم ہی لوگوں نے اس بات پر غور کیا ہے کہ فوج سے میاں محمد نواز شریف کی ناراضی کے ہنگام ایک سے زیادہ بار ان کے ناروا تبصروں کے باوجود ، ماحول اگر خوشگوار رہ سکا تو جنرل کی شائستگی اور صبر کے طفیل۔ ایک مشفق باپ اورمدبّر کا ساکردار انہوںنے ادا کیا۔ تنقید بھی ہوئی مگر اب آشکار ہے کہ ان کا اقدام نتیجہ خیز ہوا۔ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے سے پہلے ہی ، الیکشن کے فوراً بعد لاہور جا کر وہ نون لیگ کے قائد سے ملے ۔ اپنے خاندان کے سوا جو کم ہی کسی پر اعتبار کرتاہے ۔ ملک کی دفاعی صورتِ حال پر تفصیل سے انہیں بریفنگ دی۔ من موہن سنگھ کو حلف برداری کی تقریب میں بلانے کے لیے بے تاب لیڈر کو انہوںنے مشورہ دیا کہ تعلقات میں بہتری کا عمل فطری انداز میں بروئے کار آنا چاہیے۔ ایک ایک زینہ طے کرتے ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ سیاچن سے فوج کی واپسی کی تجویز اور کئی ایسے اقدام کر چکے تھے ، فضا جن سے ہموار ہو ۔ بھارتی فوج کے سربراہ جب پاکستان کے خلاف چیخ رہے تھے تو تحمل انہوںنے برقرار رکھا۔ کم ہی کسی کو ذکر کی توفیق ہو ئی کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں کیسی کامیاب کارروائی انہوںنے کی۔ دنیا بھر کے فوجی اداروں میں جو پڑھائی جاتی رہے گی ۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : انسانوں کا جو شکرگزار نہ ہو ،اللہ کا بھی نہیں ہوتا۔ جنرل کیانی سے میرا واسطہ رہا اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ ملک کے لیے ہمیشہ انہیں درد مند پایا۔ دلیل سے بات سننے اور دلیل سے بات کرنے والے ۔شائستہ اور صابر۔ مزدوروں کی طرح مشقت کرنے والا آدمی ۔ ہمیشہ نہیں تو اکثر معاف کردینے والا ۔ ذاتی تلخی اور تصادم سے ہمیشہ گریز۔ ماتحتوں کے لیے نرم خُو اور نعرہ زن ہوئے بغیر طاقتوروں کی مزاحمت کرنے والا محب وطن ۔ کیا کوئی دوسرالیڈر ایسی مشکل صورتِ حال میں سات ماہ تک نیٹو سپلائی بند کر سکتا؟ جنرل کیانی فرشتہ ہرگز نہیں مگر آدمی کو اس کے مجموعی کردار میں دیکھا جاتاہے ۔ صاحبِ مطالعہ ، سوچ بچار کا خوگر۔ ضابطہ پسند، سادہ اطوار اور ضرورت پڑے تو خطرہ مول لینے والا۔کسی صدر، کسی وزیراعظم کو توفیق نہ ہو سکی مگر وہ بار بار جنگ زدہ علاقوں میں گئے۔ پولیس کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کی مدد کی۔ زلزلوں اور طوفانوں میں ہمیشہ مستعد رہے۔ تنقید پہ اکثر خاموش اور اگر جواب دیا تو احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ۔ معلوم نہیں ، وہ پسند کریںگے یا نہیں ۔ دارالحکومت کے شہریوں کی طرف سے بھی ایک شایانِ شان الوداعی تقریب ان کے اعزاز میں برپا ہونی چاہیے۔ جنرل ہارون اسلم کا نام رہا جاتاہے ، خاموشی سے جو گھر چلے جائیں گے کہ اقتدار کو سازگار نہ تھے ۔ ایک حرفِ تحسین ان کے لیے بھی کہ بیمار معاشروں میں آدمی کی خوبی ہی اس کی خامی ہو جاتی ہے ۔ پھر آدمی یہ سوچتاہے کہ ایک ہی شخص کو فائز ہونا تھا ۔ یہی زندگی ہے ، یہی زندگی ہے ۔ 
اہم ترین بات یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات کے باب میں اندیشے کم ہوئے ۔ قائد اعظم نے کہاتھا: آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نشوونما کے لیے ، ادبار سے نجات پانے کے لیے ملکوں اور معاشروں کو ایک آہنگ درکار ہوتاہے ۔ 
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی 
ہم، جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved