جنیوا میں ایران اور ''بڑی طاقتوں‘‘ کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے عبوری معاہدے کے بعد یوںمحسوس ہو رہا ہے کہ ایران امریکہ تعلقات کا تنائو کچھ کم ہوگیا ہے لیکن اس معاہدے کو دو طرفہ تنازعات کے خاتمے کی گارنٹی سمجھنا قبل از وقت اور سیاسی خوش فہمی کے مترادف ہوگا۔ ایران کی طرف امریکہ کے نرم رویے سے ناراض بہت سی قوتیں مذاکرات کا یہ عمل رکوانے کے لئے سرگرم نظر آرہی ہیں۔متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر جیسے امریکہ کے اتحادی ممالک اس معاہدے سے نالاں ہیں۔اس کیفیت میں شام، عراق اور پاکستان سمیت کئی دوسرے ممالک میں ایران اور خلیجی ممالک کی پراکسیوں کے مابین تصادم اور فرقہ وارانہ خون ریزی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اس کو ''امن کے لئے خطرہ‘‘ قرار دیا ہے تاہم امریکی کانگریس میں اسرائیلی لابی کی مخالفت کے باوجود امریکی سامراج کی انتہائی کمزور عسکری اور معاشی کیفیت نے اسے وقتی مصالحت پر مجبور کیا ہے۔
چھ ماہ کا یہ عبوری معاہدہ ایران او ر مغربی طاقتوں کے درمیان 35سالہ تلخیوں کے بعد دو ماہ سے کم مدت کے مذاکرات کے تین رائونڈز کے بعد طے پایا ہے۔معاہدے کے مطابق ایران یورینیم کی افزودگی کو 5فیصد سے کم پر محدود رکھے گا، عالمی انسپکٹروں کو روزانہ کی بنیاد پر جوہری تنصیبات کی جانچ پڑتال کی مکمل اجازت حاصل ہو گی اور ایران پلوٹونیم کی افزودگی نہ کرنے کا پابند ہو گا۔ان شرائط کی پاسداری کے عوض ایران پر چھ ماہ میں کوئی نئی اقتصادی پابندی نہیں لگائی جائے گی، 7ارب ڈالر کی اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں گی اور 28یورپی ممالک ''چند ہفتوں‘‘ میں مزید پابندیوں کے خاتمے کا فیصلہ کریں گے۔اگر معاہدے کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ شرائط نئی نہیں ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ''2003ء میں صدر محمود احمدی نژاد کی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بھی یہی شرائط پیش کی گئی تھی لیکن یہ مذاکرات 2005ء میں امریکہ کی اس ضد کی وجہ سے ناکام ہوگئے تھے کہ ایران یورینیم کے ذخیروں میںمزید اضافہ نہ کرے۔‘‘یہ سوچ بھی غلط ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کو شرائط ماننے پر مجبور کیا گیا ہے۔پچھلے سالوں میں پابندیوں کی شدت کے باوجود 2005ء میں 3 ہزار سنٹری فیوجز کے مقابلے میں ایران کے پاس آج بیس ہزار سنٹری فیوجز موجود ہیں اور یورینیم افزودگی کی رفتار بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔معاہدے طے پانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ کا گھمنڈ اور رعونت 2005ء کی نسبت کہیں کم ہوچکی ہے۔عراق، افغانستان اور پھر شام میں امریکی سامراج کی ذلت و رسوائی اور امریکی معیشت کا بڑھتا ہوا بحران اس کی سفارتی پسپائی کا باعث بنا ہے۔
امریکی سامراج کی پسپائی نے ایران کی ملا اشرافیہ کو زیادہ پر اعتماد کر دیا ہے۔ ایران کی طرف امریکی سامراج کے زیادہ لچکدار رویے سے اس خطے میں ایرانی ملائوں کے کنٹرول اور رتبے میں اضافے کا تاثر قائم ہوگا۔ شام اور عراق میں وہ زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ایران امریکہ تعلقات میں بہتری کا ایک اور پہلو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان شام کے معاملے پر پیدا ہونے والا سیاسی اختلاف بھی ہے۔ ان حالات میں مشرقی وسطیٰ میں معاملات کو سنبھالنے کے لئے ایران کی طرف جھکائو امریکہ کی مجبوری ہے۔
امریکی سامراج کی معاشی کمزوری کی طرح ایرانی حکمرانوں پر بھی ملک میں شدید مہنگائی،بے روزگاری، بے قابو افراط زر اور بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی بحران کا دبائو موجود ہے۔تمام تر مذہبی نعرہ بازی کے باوجود ایران میں سرمایہ دارانہ نظام پوری شدت سے رائج ہے اور اس نظام کا عالمی بحران ان کی عالمی تجارت اور تیل کی برآمد کو متاثر کر رہا ہے۔ ایران کا حکمران طبقہ مٹھی بھر ملائوں اور فوجی بیوروکریسی پر مشتمل ہے اور یہی لوگ ملک کی تمام دولت اور معیشت پر قابض ہیں۔ دو ہفتے قبل عالمی خبر رساں ادارے رائیٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای 95ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ سامراجی پابندیوں کے باوجود ایران خفیہ ذرائع سے غیر ملکی تجارت کسی حد تک جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ایرانی میڈیا کی جانب سے دئیے جانے والے ''خوشحال اور یکجا‘‘ ایران کے تاثر کے برعکس ایرانی نوجوانوں اور محنت کشوں میں حکمران طبقات اور ریاستی جبر کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ایرانی عوام نے ماضی قریب میں ناانصافی، غربت، استحصال اور ملائوں کی سیاسی آمریت کے خلاف کئی بڑی تحریکیں برپا کی ہیں۔ایران کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا سب سے بڑا انقلابی ابھار جون 2009ء میں ہوا تھا جس نے ایرانی ریاست کو لرزا دیا تھا۔اس تحریک کے بعد بھی ہمیںایران کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے مظاہرے، ہڑتالیں اور تحریکیں نظر آتی ہیں۔ معاہدے کے بعد ہزاروں ایرانی شہریوں کی جانب سے جنیوا سے تہران پہنچنے والے ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف کا پرجوش استقبال دراصل ایرانی عوام کے کچھ طبقوں کی اس خوش فہمی کی غمازی کرتا ہے کہ پابندیاں اٹھنے سے ان کی معاشی مشکلات میں کمی آجائے گی۔تاہم یہ امیدیں جلد یا بدیر ٹوٹ کر اشتعال اور غصے کی شکل اختیار کر لیں گی جس سے ایرانی سماج میں سطح کے نیچے پکنے والے طبقاتی تضادات 2009ء کی طرح دوبارہ پھٹ سکتے ہیں۔
پچھلی تین دہائیوں سے ایرانی ملائوں نے داخلی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے خارجی تضادات کو پروان چڑھانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔مسلسل امریکہ مخالف نعرہ بازی اور لفاظی ایران کی جابر اور رجعتی ملا ریاست کی ''سامراج مخالفت ‘‘ نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ایرانی ریاست کا طبقاتی کردار امریکہ سے مختلف نہیں۔ عوام کوخوشحال اور آسودہ زندگی فراہم کرنے سے قاصر ایرانی ملا اپنی حکمرانی، مراعات اور استحصال کا جواز امریکہ اور اسرائیل دشمنی کے ذریعے تراشتے ہیں۔اس پس منظر میں مجبوری کا یہ معاہدہ ایرانی ریاست کے لئے نازک مرحلہ ہے کیونکہ ''بیرونی خطرے‘‘ کی عدم موجودگی میں داخلی بغاوتوں کے امکانات بڑھ جائیں گے۔دوسری طرف امریکہ کو بھی ہمیشہ کسی نہ کسی بیرونی دشمن کی ضرورت رہتی ہے اور اگر کوئی حقیقی دشمن نہ ملے تو امریکی سامراج خیالی دشمن پیداکر لیتا
ہے۔آنے والے دنوںمیں داخلی طور پر بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے امریکی حکمران طبقہ، خاص کر انتہائی دایاں بازو ایک بار پھر ایران دشمنی کا واویلا شروع کرنے پر مجبور ہوگا۔ دشمنی کی دو طرفہ لفاظی کے باوجود یہ دونوں قوتیں ماضی میں مختلف مواقع پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ 2001ء میں افغانستان پر سامراجی جارحیت کے دوران ایران نے ہرات اور جنوب مغربی افغانستان میں سامراجی گرفت کو مضبوط کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں مقتدیٰ الصدر کی شیعہ ملیشیا پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو گئی تھیں جس کے بعد ایرانی ملائوں نے مقتدیٰ الصدر کو ایران بلا کر طویل عرصے تک نظر بند رکھا جس سے بصرہ میں سامراجیوں کو گرفت مضبوط کرنے کا موقع ملا۔اب کی بار بھی امریکہ کو افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کے اثرو رسوخ کو محدود رکھنے کے لئے ایرانی ملائوں کی حمایت درکار ہوگی۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بڑھتا ہوا معاشی بحران ناگزیر طور پر سیاست اور سفارت کے بحران کو جنم دے رہا ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں کئے جانے والے سفارتی معاہدے بہت کمزور نوعیت کے ہوتے ہیںاور کوئی ایک واقعہ بھی تمام تر منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔جہاں امریکہ اور ایران کے حکمران طبقات کے مفادات سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں وہاں دونوں ممالک کے عوام کے مسائل بھی سانجھے ہیں۔ جب تک یہ نظام قائم ہے حکمران طبقات کے جعلی تضادات اور معاہدوں کی منافقت دنیا بھر کے عوام کو تباہ و برباد کرتی رہے گی۔عالمی سطح پر جنگوں، بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں، خونریزی اور سامراجی استحصال کا خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔